وبھوتی نارائن رائے
بھاگلپور کا بدنام زمانہ ’آنکھ پھوڑوا کانڈ‘ 1979-80میں ہوا تھا، جس میں بہار پولیس نے تقریباً ایک درجن خونخوار مجرموں کی آنکھیں پھوڑ دی تھیں۔ ان دنوں ایک جوڈیشیل ٹیم جب جانچ کے لیے وہاں پہنچی تو پولیس کے اس عمل کی حمایت میں پورا شہر بند ہوگیا اور ہڑتال پر جانے والوں میں یونیورسٹی کے اساتذہ سے لے کر رکشے والے تک شریک تھے۔ لوگوں کے مطابق قتل، اغوا، ڈکیتی، عصمت دری جیسے معاملات میں شامل یہ مجرم اب ملک کے قوانین اور انہیں نافذ کرنے والے سسٹم کی پہنچ سے بہت دور نکل چکے ہیں، انہیں عدالتیں سزا نہیں دے پارہی ہیں، اس لیے پولیس نے ان کی آنکھیں پھوڑ کر اچھا ہی کیا ہے۔ کسی نے اس بحث میں پڑنے کی ضرورت نہیں محسوس کی، اس عدالتی بے بسی/لاچاری کی وجوہات کیا ہوسکتی ہیں یا پھر ان سے ابھرنے کے لیے کچھ کیوں نہیں کیا جانا چاہیے؟
دراصل، ایک معاشرہ کے طور پر ہم شارٹ کٹ کی ثقافت میں یقین کرتے ہیں۔ 1860کی دہائی میں بنے قوانین میں تبدیلی کرکے انہیں آج کے حالات کے مطابق بنانے میں بڑے جھنجھٹ ہیں، لہٰذا کون ان کے چکر میںپڑے، کہیں زیادہ آسان ہے پولیس کے ہی ناقدین، جج اور جلاد تینوں کے کردار سونپ کر مطمئن ہوجانا کہ اب معاشرہ سے جرم ختم ہوجائے گا اور عوام خوف سے آزاد ہوکر چین کی بنسی بجائیں گے۔ پھر تشدد کی اس نوعیت کو ہمارے معاشرہ کی قبولیت بھی حاصل ہے۔ جس طرح آنکھ پھوڑوا کانڈ کے بعد بھاگلپور کے عوام پولیس کی حمایت میں چار دہائی پہلے کھڑے ہوگئے تھے، کچھ اسی طرح گزشتہ دنوں حیدرآباد میں ایک لیڈی ڈاکٹر کی آبروریزی کے بعد قتل کرنے والوں کو جیل سے نکال کر مار دینے والے پولیس اہلکاروں پر عوام نے پھول برسائے تھے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ آزادی کے بعد کسی بھی الیکشن میں پولیس اصلاح کبھی بھی ایشو نہیں بنا ہے۔
مجھے بھاگلپور کی یاد اس لیے آئی کہ حال میں بہار اسمبلی کے کچھ ممبران نے صوبے میں بے لگام جرائم سے نمٹنے کے لیے ایک ماڈل اپنانے کی صلاح دی ہے۔ ان کے مطابق یہ اترپردیش کا ماڈل ہے، جس میں گاڑیاں ’الٹ‘ جاتی ہیں۔ اب یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ الٹی گاڑیوں میں سوار پولیس اہلکاروں کا تو کچھ نہیں بگڑتا، لیکن ان میں بیٹھا مجرم ہلاک ہوجاتا ہے۔ اسی طرح پولیس ریمانڈ میں کچھ مجرم کسی برآمدگی کے لیے جاتے ہیں اور ایک جیسے بے وقوفانہ طریقہ سے سبھی کسی پولیس افسر سے ہتھیار چھیننے کی کوشش کرتے ہوئے مارے جاتے ہیں۔ اس ماڈل کی حمایت میں کسی ڈیبیٹ کمپٹیشن میں نہیں، بلکہ قانون سازی کے سنجیدہ مباحثوں اور میڈیا پر دیے گئے انٹرویوز میں دلیل دی گئی۔
بہار میں نتیش کمار جب پہلی مرتبہ وزیراعلیٰ بنے، تب ان کے سامنے خراب نظم و نسق سب سے بڑا چیلنج تھا۔ اس وقت شارٹ کٹ اپنانے کی جگہ انہوں نے قانونی طور پر طویل راستہ اپنایا۔ پولیس نے اپنی پیروی درست کی، برسوں سے زیرالتوا تحقیق ختم کی گئیں اور ان سب کا اثر بھی نظر آیا۔ شہاب الدین جیسے خونخوار مجرموں کو سزا بھی ہوپائی، جو کچھ برس قبل تک ناممکن لگتی تھی۔ عرصہ بعد بہار میں سڑکیں بننے لگیں، کیوں کہ ٹھیکہ داروں سے رنگداری وصول کرنے والے زیرزمین چلے گئے تھے۔ لیکن ایسا کیا ہوا کہ یہ سب عارضی ثابت ہوا اور پھر سے ایم ایل اے کو ایک وحشیانہ ماڈل اپنانے کی اپیل کرنی پڑرہی ہے؟
وجہ تلاش کرنا بہت مشکل نہیں ہے۔ اصلاح کے لیے حکومت نے شروعاتی جوش تو دکھایا، لیکن یہ کسی طویل مدتی عدالتی اصلاح کے منصوبہ میں تبدیل نہیں ہوسکا۔ اپنے محدود وسائل والی حکومت نہ تو ناقدین کی تعداد میں مناسب اضافہ کرسکی اور نہ ہی پولیس کو پیشہ ور بنانے کا کوئی منصوبہ پروان چڑھا۔ عدالتی افسران کی تعداد میں قابل ذکر اضافہ نہیں ہوا، بدعنوانی پہلے جیسی ہی ہے، ان سب پر طرہ یہ کہ عمل کے مکڑجال میں پھنس کر کسی بھی مقدمہ کا فیصلہ ہونے میں اب بھی برسوں لگ سکتے ہیں۔ ایسے میں بہت فطری ہے، فوراً نتائج دینے والے، مگر پوری طرح سے غیرآئینی یا غیرقانونی طریقے ہمیں اپنی جانب کھینچنے لگتے ہیں۔ ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ بے رحمانہ طریقوں سے مجرموں سے نمٹنے والی پولیس شہریوں کی دوست نہ ہوکر ایک غیرمہذب اور عوام مخالف تنظیم بن کر رہ جاتی ہے اور پھر جرائم پر کنٹرول ایک مضحکہ خیز دعویٰ لگنے لگتا ہے۔
اترپردیش میں کچھ برسوں قبل ایک حکومت دعویٰ کرتی تھی کہ وہاں ہر سال جرائم کا گراف تیزی سے گررہا ہے۔ اس کے اعدادوشمار کے مطابق تو اس کی مدت کار ختم ہوتے ہوتے ریاست میں جرم صفر ہوچکا ہوتا، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ ظاہر ہے، اعدادوشمار کی گراوٹ تھانوں میں مقدمہ درج نہ کرکے ہی حاصل کی گئی تھی۔ آج بھی جس ماڈل کو اپنانے کی اپیل کی جارہی ہے، اس میں کس حد تک معاشرہ میں جرم کم ہوئے ہیں، یہ جانچ کرنا کافی دلچسپ ہوگا۔ ہاتھ پیر توڑکر یا جان سے مار کر مجرموں پر قدغن لگانے پر کامیاب نہ ہونے والی پولیس سب سے پہلا کام مقدمہ درج نہ کرنے کا کرتی ہے۔ جو لیڈر اسے بربر بننے کے لیے حوصلہ افزائی کرتے ہیں، وہ اس حالت کو اس لیے بھی برداشت کرتے ہیں کہ جرم کو کم دکھانے کا ان کے پاس اس سے بہتر کوئی اور طریقہ ہے بھی نہیں۔ ان سب کے درمیان مارے جاتے ہیں عوام، جو ایک تنظیم کی شکل میں غیرمہذب بنادی گئی پولیس کی بے رخی کا شکار ہوتے رہتے ہیں۔
پولیس کو قانون قاعدے کا احترام نہ کرنے والی تنظیم بننے کی پیروی کرنے والے لیڈروں کو سمجھنا ہوگا کہ جرم کا مقابلہ آسان راستہ سے نہیں کیا جاسکتا، کسی ایسے ماڈل سے تو قطعی نہیں، جس میں پولیس خود ہی قانون توڑنے لگے۔ یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ معاشرہ میں جرائم پوری طرح سے ختم تو کبھی نہیں ہوں گے، لیکن ریاست کو انہیں ایک قابل برداشت حد تک رکھنے کی کوشش ضرور کرنی چاہیے۔ اس کے لیے ہمیں قوانین اور قاعدوں میں ایسی تبدیلیاں کرنی ہوں گی، جو انہیں عصرحاضر کی ضروریات کے مطابق بناسکیں۔ پولیس کو ایک بے رحم تنظیم بنانے کی جگہ قانون کا احترام کرنے والی تربیت یافتہ اور پیشہ ور فورس بنانے کی ضرورت ہے، جسے شہری اپنا دوست سمجھیں۔عدالتوں میں بھی بڑے اصلاح کی ضرورت ہے۔ ان سب کے لیے جتنے صبر اور وسائل کی ضرورت ہے، کیا ریاست اس کے لیے تیار ہے؟ ابھی تو نہیں لگتا، تبھی تو ایم ایل اے بھی کسی شارٹ کٹ کی تلاش میں نظر آتے ہیں۔
(مضمون نگار سابق آئی پی ایس افسر ہیں)
(بشکریہ: ہندوستان)
آخر کیسے کم ہوں گے جرائم
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS