صبیح احمد
ملک کی کئی اہم ریاستوں میں اسمبلی انتخابات ہو رہے ہیں۔ شمالی ہند کے مغربی بنگال و آسام اور جنوبی ہند کے تمل ناڈو کے انتخابات کافی اہمیت کے حامل ہیں۔ کیونکہ ان انتخابات کے نتائج سے ملک کے موجودہ سیاسی حالات خاص طور پر پٹرول، ڈیزل اور دیگر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ اور کسان تحریک سے پیدا شدہ صورتحال میں عام لوگوں کے مزاج کا اندازہ ہو پائے گا۔
آج عام آدمی کی ضرورت کے ہر سامان کی قیمت آسمان چھو رہی ہے جبکہ دوسری طرف کووڈ19- کے سبب نافذ لاک ڈائون اور خستہ حال معیشت کی وجہ سے لوگوں کی آمدنی کم سے کم ہوگئی ہے۔ ادھر ملک کے کسان نئے زرعی قوانین کو کسی بھی صورت میں قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ وہ گزشتہ 3 مہینے سے زائد عرصہ سے قومی راجدھانی دہلی کی سرحدوں پر ان قوانین کے خلاف جدو جہد کررہے ہیں۔ ان زرعی قوانین کے بارے میں حالانکہ سرکار کی طرف سے کسانوں کو یہ سمجھانے کی بھر پور کوشش کی جا رہی ہے کہ یہ قوانین ان کے حق میں ہیں اور ان کے نفاذ سے کسانوں کو کافی فائدہ ہونے والا ہے اور ان کی آمدنی میں کئی گنا اضافہ ہوجائے گا لیکن کسان ان نئے زرعی قوانین کے دور رس نتائج سے کافی خوفزدہ ہیں۔ انہیں یہ خوف ستا رہا ہے کہ آنے والے دنوں میں یہ قوانین ان کی زندگی کا واحد سہارا ان کی زمین سے انہیں بے دخل کر دیں گے۔ کسانوں کا ایک اہم مطالبہ یہ بھی ہے کہ جب سرکار کی جانب سے ملک کی تمام صنعتی پیداواروں کی کم از کم قیمت اور یہاں تک کہ کھیتوںمیں کام کرنے والے مزدوروں کی کم از کم مزدوری طے کی جاتی ہے تو کسانوں کی پیداوار کی کم از کم قیمت کے تعین کے لیے بھی ’قانونی طور پر‘ گارنٹی دی جائے۔ سرکار کی جانب سے اس سلسلے میں حالانکہ یقین دہانی کرائی جا رہی ہے کہ کم از کم امدادی قیمت (ایم ایس پی) کو ختم نہیں کیا جائے گا لیکن اس حوالے سے تحریری یا قانونی طور پر کوئی ٹھوس قدم سرکار کی جانب سے نہیں اٹھایا جا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کسان مرکز کی مودی سرکار کی زبانی یقین دہانی پر بھروسہ کرنے کے لیے قطعی تیار نہیں ہیں۔ کسانوں کو یہی خطرہ ستا رہا ہے کہ جب سرکار یہ یقین دلانے کی کوشش کر رہی ہے کہ ایم ایس پی کو ختم نہیں کیا جائے گا تو اسے قانونی شکل دینے میں ہچکچاہٹ کیوں ہے؟ اسی لیے سرکار کی منشا پر شک کی سوئی اٹک گئی ہے۔ اس کے علاوہ لوگوں کے ذہن سے یہ بات ابھی تک غائب نہیں ہوپائی ہے کہ بی جے پی نے اقتدار میں آنے کے بعد اور اس سے پہلے بھی جتنے بھی بڑے بڑے وعدے کیے، ان میں سے کسی کو بھی پورا نہیں کیا۔
ملک کے شمال اور جنوبی ریاستوں میں انتخابی ماحول ہے۔ پھر نئے نئے وعدے کیے جا رہے ہیں۔ بڑے بڑے خواب دکھائے جا رہے ہیں جن کی تکمیل کی کوئی گارنٹی نہیں ہے۔ سیاسی پارٹیوں کی جانب سے عام لوگوں کو گمراہ کرنے کا پھر سے ایک جال پھیلانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس ماحول میں ایشوز کا کہیں کوئی پتہ نہیں ہے جبکہ جمہوری نظام میں حکمرانوں کے انتخاب کے لیے اصل پیمانے یہی ایشوز ہوتے ہیں۔ ایشوز کی بنیاد پر ہی لوگ اپنے اپنے نمائندوں کا انتخاب کرتے ہیں اور یہ طے کرتے ہیں کہ کون سی سیاسی پارٹی یا نمائندہ ان کے مسائل کو حل کرنے کا اہل ہے یا ان مسائل کو حل کرنے کے لیے سنجیدہ ہے۔ اس جذبات آمیز ’جال‘ کو اس طرح پھیلایا جا رہا ہے کہ لوگوں کیلئے یہ تمیز کرنا مشکل اور کبھی کبھی تو نا ممکن ہو جاتا ہے کہ اصل ایشوز کیا ہیں۔ ایشوز اور نان ایشوز کو ایسا گڈ مڈ کر دیا جاتا ہے کہ لوگوں کی سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ کیا فیصلہ کریں۔ کنفیوژن میں صحیح فیصلہ کرنا کافی مشکل ہو جاتا ہے۔ آخر کار جذبات میں بہہ کر لوگ غلط فیصلہ کر بیٹھتے ہیں جس کا خمیازہ کسی اور کو نہیں بلکہ انہیں خود بھگتنا پڑتا ہے اور نتیجتاً آگے چل کر سب سے زیادہ خمیازہ ملک کو بھگتنا پڑتا ہے۔
ملک کے سامنے آج بہت سارے سلگتے مسائل ہیں جن پر سنجیدگی سے بحث و مباحثہ کی ضرورت ہے اور ان مسائل کے حل کے لیے بلا تفریق سیاسی وابستگی ملک کے اعلیٰ رہنمائوں کو سر جوڑ کر کوئی طریقہ تلاش کرنا چاہیے لیکن ایسا ماحول تو دور کی بات، برسر اقتدار پارٹیاں (مرکز اور مختلف ریاستوں میں الگ الگ سیاسی پارٹیوں کی حکومتیں ہیں) ان مسائل کو ایشوز ماننے تک تیار نہیں ہیں بلکہ اکثر یہ دیکھا جاتا ہے کہ ان ایشوز سے عام لوگوں کی توجہ ہٹانے کے لیے جذبات آمیز نان ایشوز کو حقیقی ایشو بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال کسانوں کی تحریک ہے۔ ویسے تو پورے ملک کے کسان ہی نئے زرعی قوانین کے خلاف ہیں اور راجدھانی دہلی سے دور دراز کے کسانوں کی پوری ہمدردی مظاہرہ کرنے والے کسانوں کے ساتھ ہے لیکن دہلی کی نواحی ریاستوں خاص طور پر پنجاب، ہریانہ اور اترپردیش جیسی بڑی اور ا ہم ریاستوں کے لاکھوں کسان جن میں خواتین اور عمر دراز کسان بھی شامل ہیں، کئی مہینوں سے سردی، گرمی اور برسات کو جھیلتے ہوئے دہلی کی سرحدوں پر جدو جہد کر رہے ہیں لیکن سرکار کی نظر میں یہ کوئی ایشو نہیں ہے۔ اتنی بڑی تعداد پر مشتمل ان کسان مظاہرین کو گمراہ لوگوں کا ایک گروہ قراد یا جارہا ہے بلکہ مختلف نام دے کر انہیں ذلیل بھی کیا جا رہاہے۔ یہ بات ناقابل فہم ہے کہ گائوں محلوں سے نکل کر اور اپنے گھر بار اور اپنی تمام کھیتی باڑی چھوڑ کر جن پر ان کی زندگی کا پورا دارو مدار ہے، کسی کے اکسانے پر یہ لوگ موسم اور حالات کی صعوبتیں جھیلنے کو تیار ہوئے ہوں گے۔ اگر کچھ دیر کے لیے مان بھی لیا جائے کہ انہیں کسی نے گمراہ کیا ہے تو کیا سرکار کی یہ ذمہ داری نہیں بنتی ہے کہ انہیں بہرصورت منایا جائے، انہیں سمجھایا جائے، ان سے بات چیت کی جائے اور ان کی پریشانیوں کو سمجھا جائے اور ان پریشانیوں کا ازالہ کیا جائے؟ جن لوگوں کی خوشحالی و بہتری کے لیے یہ قوانین بنائے گئے ہیں، اگر وہی لوگ خوش نہیں ہیں تو ان قوانین کا کیا فائدہ؟
سرکار کا یہ رویہ انتہائی افسوس ناک ہے کہ عام سروکار کے ایشوز کو نان ایشو بنانے اور انہیں عام بحث و مباحثہ سے دور کرنے کی کوشش کی جائے۔ خاص طور پر کسانوں کے حوالے سے مودی سرکار کی حکمت عملی یہی ہے کہ انہیں تھکنے کے لیے مجبور کردیا جائے اور اس تحریک کو عوامی مباحثہ سے دور کر کے اسے بے اثر کر دیا جائے۔ ایک اور اہم مسئلہ مہنگائی کا ہے جس پر ہنگامی طور پر توجہ دیے جانے کی ضرورت ہے لیکن اس پر بھی سرکار کی سرد مہری کافی حیرت انگیز ہے۔ ڈیزل، پٹرول اور رسوئی گیس کی بڑھتی قیمتوں سے لوگ بے حد پریشان ہیں جس کا اثر ضرورت کے ہر سامان کی قیمتوں پر پڑ رہا ہے، ہر چیز مہنگی ہورہی ہے لیکن سرکار کی نظر میں یہ بھی کوئی ایشو نہیں ہے۔ حکمراں طبقہ کیلئے ابھی صرف ایک ہی ایشو ہے کہ ملک کی مختلف ریاستوں میں کچھ دیگر پارٹیوں کی حکومتیں کیوں ہیں؟ وہاں بھی ان کی ہی حکومتیں ہونی چاہئیں۔ ان کا پورا زور اس بات پر ہے کہ جائز یا ناجائز کسی بھی طرح سے ان ریاستوں میں بھی ان کی حکومتیں قائم ہو جائیں۔ اس کے لیے تمام طرح کے حربے استعمال کیے جا رہے ہیں۔
کسی بھی جمہوری نظام میں چیک اینڈ بیلنس کا بڑا عمل دخل ہوتا ہے۔ جہاں مختلف سرکاری اداروں کے درمیان اختیارات کے استعمال کے لیے واضح اصول و ضوابط طے ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کے دائرۂ اختیار میں کسی کو دخل دینے کی اجازت نہیں ہوتی۔ تمام ادارے اپنی حدود میں رہ کر ہی کام کرتے ہیں، اسی طرح برسراقتدار پارٹی یا افراد کو ان کے دائرۂ اختیار یا حدود میں رکھنے کے لیے اپوزیشن کا کافی اہم کردار ہوتا ہے۔ وہ اپوزیشن ہی ہوتا ہے جو ایوان حکومت پر قابض لوگوں کو آمریت کی جانب بڑھنے سے روکتا ہے۔ ابھی ملک میں جو مہنگائی اور دیگر عوامی مسائل ہیں انہیں سرکار کے سامنے اٹھانے اور ان پر توجہ دلانے کی سب سے بڑی ذمہ داری اپوزیشن کی ہے لیکن موجودہ وقت میں اپوزیشن بھی ایک طرح سے بے اثر ہو کررہ گیا ہے۔ پہلے تو ووٹروں نے اسے اس قابل ہی نہیں رکھا کہ وہ کم از کم اپنے پیروں پر کھڑے ہوسکے اور باقی کسر حکمراں طبقہ کی بد گمانیوں نے پوری کر دی ہے۔ فی الحال اپوزیشن سے جو بن پڑ رہا ہے، وہ کر رہا ہے۔ اس لیے موجودہ حالات میں اب تمام تر ذمہ داریاں ملک کے عوام پر ہیں۔ انہیں یہ فیصلہ کرنے کا وقت اب آگیا ہے کہ ابھی جیسا چل رہا ہے، ویسا ہی رہے تو بس ٹھیک ہے، کسی کو کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہے ورنہ…
[email protected]
عوام کا،عوام کیلئے اور عوام کے ذریعہ… سب کچھ عوام کے ہاتھ میں
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS