نونیت شرما
منسٹری آف ہیومن ریسورس ڈیولپمنٹ کا نام تبدیل کرکے ’وزارت تعلیم‘ کرنا سماجی فلسفہ کا سفر نہ ہوکر ایک معاشی مباحثہ کا بھی متبادل ہے۔ انسان کو وسائل اور تعلیم کو سرمایہ ماننا اس معاشی خرابی کی جانب اشارہ کرتا ہے جو کسی بھی طرح کی قابلیت کو سرمایہ کی طرح نشان زد کرتی ہے۔ بیسویں صدی کے دوسرے نصف حصہ میں نیولبرل ازم کا عالمی سطح پر پھیلاؤ اور مسلسل ترقیاتی سفارشات کے ساتھ جنوبی کوریا کے انچیون منشور میں شامل سبھی ممالک سے ان کی مجموعی گھریلو پیداوار(GDP) کا چار سے 6فیصد تعلیم پر خرچ کرنے کا نشانہ رکھا گیا۔ ہندوستان نے اس منشور پر دستخط کیے ہیں اور 2030تک تعلیم کو سبھی ہندوستانیوں کی پہنچ میں لانے اور صدفیصد اندراج کے لیے عزم کا اظہار کیا ہے۔ نئی تعلیمی پالیسی کا کلیور حالاں کہ اس سے مختلف تعلیم کو محض سرمایہ اور انسان کو وسائل نہ سمجھ کر، اسے خودکی ترقی، ملک کی خوشحالی سے وابستہ کرکے دیکھتے ہیں۔ اس پالیسی کو سیاسی ایجنڈے سے الگ کرکے دیکھا جائے تو بھی یہ اپنی پیچیدگیوں کے سبب مکمل طور پر نافذ نہیں کیا جاسکتا۔ اس مرتبہ کے مجوزہ بجٹ سے امید تھی کہ وہ اپنی ہی حکومت کے ذریعہ بنائی گئی اس پالیسی کو نافذ کرنے کے لیے مناسب فنڈ مختص کرے گا، لیکن 2021-22کے بجٹ التزامات اس کے برعکس نہ صرف گزشتہ برس کے مقابلہ میں تعلیمی الاٹمنٹ میں 6فیصد کی کٹوتی کرتا ہے اور اس سال کے جی ڈی پی کا محض پونے تین فیصد تعلیم پر خرچ کرنے کا منصوبہ پیش کرتا ہے۔
وزیرمالیات نے اسکولی تعلیم اور محکمہ خواندگی پر 54873کروڑ روپے کے بجٹ کا اعلان کیا ہے جو گزشتہ برس کے مقابلہ میں 4971کروڑ روپے یعنی 8.3فیصد کم ہے۔ عمومی تعلیم پر خرچ کو دیکھیں تو یہ 15127کروڑ روپے ہیں، جو گزشتہ برس کے مقابلہ میں 343کروڑ روپے یا تقریباً سوا دو فیصد کم ہے۔ وزارت تعلیم( موجودہ منسٹری آف ہیومن ریسورس ڈیولپمنٹ) کا آل انڈیا ہائر ایجوکیشن سروے(2015-16) کی رپورٹ کے مطابق ملک میں یونیورسٹیوں کی کل تعداد799اور کالجز کی کل تعداد 3لاکھ 39 ہزار 71 ہے۔ اس میں جس میں پرائیویٹ یونیورسٹیاں277ہیں۔ ان یونیورسٹیوں اور اس سے متعلق کالجوں میں طلبا کی کل اندراج تعداد تقریباً ساڑھے 34لاکھ ہے جس میں تقریباً ساڑھے 18لاکھ لڑکے اور 16لاکھ لڑکیوںکا اندراج ہے۔ ان یونیورسٹیوں اور کالجوں میں ٹیچروں کی کل تعداد تقریباً 15لاکھ ہے، جس میں 61فیصد مرد اور 39فیصد خواتین ہیں۔ اس طرح اساتذہ طلبا کا تناسب ایک اور اکیس(1:21) کا ہے۔ انہی اعدادوشمار کو بنیاد بناکر یہ کہا جاتا ہے کہ اعلیٰ تعلیم کے شعبہ میں ہمارا ملک کافی ترقی کرچکا ہے۔ لیکن 18سے 23سال کے طلبا کے اعلیٰ تعلیم میں مجموعی اندراج کی شرح کی حالت کو دیکھیں تو اعلیٰ تعلیم کی یہ تصویر افسوسناک ہے۔ کیوں کہ اسی رپورٹ کے مطابق 18سے 23سال کے طلبا کے اعلیٰ تعلیم میں مجموعی اندراج کی شرح 24.5فیصد ہے، جب کہ2011کی مردم شماری کے مطابق 73فیصد لوگ خواندہ ہیں۔
اس سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ ایک بہت بڑی خواندہ آبادی، جو 48.50فیصد ہے، اعلیٰ تعلیم تک نہیں پہنچ پارہی ہے۔ حالاں کہ اس آبادی کے اعلیٰ تعلیم تک نہیں پہنچ پانے کے متعدد اسباب ہوسکتے ہیں، لیکن ان اسباب میں سے ایک مضبوط سبب اعلیٰ تعلیم میں مالیاتی اثاثوں کی کمی ہے، جسے مالیاتی سال 2021-22کے تعلیمی مد میں بجٹ مختص سے سمجھا جاسکتا ہے۔ مالیاتی سال2021-22 میں تعلیم کا کل بجٹ تقریباً 93,224 کروڑ ہے جو کل بجٹ کا تقریباً پونے تین فیصد ہے۔ اس بجٹ میں ہائرایجوکیشن ڈپارٹمنٹ کو 38350کروڑ روپے الاٹمنٹ کیے گئے ہیں جو کل تعلیمی بجٹ کا تقریباً 41فیصد ہے۔ حالاں کہ مالیاتی سال 2020-21میں تعلیم کا کل بجٹ 99311کروڑ روپے تھا جس میں ہائرایجوکیشن ڈپارٹمنٹ کا بجٹ 39466کروڑ روپے تھا۔ اس طرح تقابلی انداز میں دیکھیں تو تعلیمی بجٹ میں تقریباً ساڑھے 6فیصد(6,087کروڑ روپے) اور اعلیٰ تعلیم میں تقریباً پونے تین فیصد(1115کروڑ روپے) کی کمی کی گئی ہے۔
ہندوستان میں 44سینٹرل یونیورسٹیاں اور 23انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی ہیں۔ 2021-22 کے بجٹ میں سینٹرل یونیورسٹیوں کے لیے7643کروڑ اور انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجیز کے لیے ے7686کروڑ کا التزام کیا گیا۔ انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کو الاٹ کی گئی رقم کے مقابلہ سینٹرل یونیورسٹیوں کو 43کروڑ روپے کم ملے، جب کہ سینٹرل یونیورسٹیوں کی تعداد ان کے مقابلہ تقریباً دوگنی ہے۔ سینٹرل یونیورسٹیوں کی تعداد انڈین انسٹی ٹیوٹس آف ٹیکنالوجی اور انڈین انسٹی ٹیوٹس آف مینجمنٹ کی کل تعداد کے برابر ہے، لیکن بجٹ میں ان دونوں انسٹی ٹیوٹس کے لیے مختص کی گئی کل رقم 8162کروڑ روپے کے مقابلہ سینٹرل یونیورسٹیوں کے لیے مختص کی گئی رقم 7643روپے کا فرق 518کروڑ روپے ہے، جو معمولی نہیں ہے۔
کوئی بھی مالیاتی الاٹمنٹ گزشتہ برس میں ہوئے خرچ کے تناسب سے متعین کیا جاتا ہے۔ گزشتہ برس تعلیم کے لیے 99ہزار کروڑ روپے مختص ہوئے تھے، جس میں سے وزارت تعلیم محض 85ہزار روپے ہی خرچ کرسکی۔ یہ ایک اہم جواز ہے کہ اگر تعلیم جسے جی ڈی پی کا سوا تین فیصد مختص کیا گیا اور وہ خرچ نہیں ہوپایا تو اکیڈمک جی ڈی پی کے 6فیصد کی فریاد کیوں کرتے ہیں۔ خرچ نہیں ہوپایا اور خرچ نہیں ہوسکتا کے درمیان مختلف سسٹم کام کرتے ہیں۔ تعلیم کا مناسب ادارہ سازی اور موجودہ ادارہ جاتی ڈھانچوں کے طریق کار میں بنیادی تبدیلی کی ضرورت ہے۔ یونیورسٹیوں میں مستقل تقرریاں(اساتذہ اور دیگر اہلکاروں کی) کی جائیں، اسکالرشپ کے الاٹمنٹ میں اضافہ کرکے طلبا و طالبات کی حوصلہ افزائی کی جائے، غیرنیٹ محققین کو زیادہ معاشی مدد دی جائے، اداروں کو مالی خودمختاری دی جائے، سائنس، سوشل سائنس اور دیگر موضوعات کے لیے دوسری زبانوں میں ٹیکسٹ کنٹینٹ تیار کیے جائیں اور اسکولی ڈھانچوں میں بہتری اور تعمیر ہو وغیرہ۔ ایسے متعدد مشورے تقریباً سبھی تعلیمی کمیٹیوں اور پالیسی سازوں نے دیے ہیں۔ اب انہیں صرف عملی جامہ پہنانے کی ضرورت باقی ہے۔
اس بجٹ کو اگر انسانی محرکات کے ابراہم میسلو کی ضرورتوں کی ترجیح پر کسا جائے تو الگ ہی منظر بنتا ہے۔ اس کے لیے کل بجٹ رقم کو کل آبادی سے تقسیم کرکے سمجھا جاسکتا ہے۔ مثال کے لیے دفاعی مد کو مختص پونے پانچ لاکھ کروڑ کی رقم کو اگر 121کروڑ کی آبادی سے تقسیم کریں تو ہم فی شحص چار ہزار روپے اپنی سیکورٹی پر خرچ کررہے ہیں۔ اسی طرح فی شخص زراعت پر 1100، صحت پر610روپے اور تعلیم کے لیے فی شخص 777روپے خرچ کررہا ہے۔ میسلو کے مطابق ہم اپنی طبعی ضرورتوں کے پورا ہونے کے بعد اپنی سیکورٹی سے متعلق فکر کرتے ہیں۔ تعلیمی مختص کو اگر مزید تفصیل سے دیکھیں تو ہر اسکولی تعلیم کے طلباو طالبات پر ریاستیں 2100اور ہر اعلیٰ تعلیم کے طلبا و طالبات پر 11ہزار روپے خرچ کررہی ہیں۔ تعلیم کے پرائیوٹائزیشن کی حمایت کرنے والے اس بات کو بھی سمجھیں کہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ فی طالب علم تقریباً 13ہزار ڈالر خرچ کرتا ہے۔ تعلیم کی یہ معاشیات کس طرح کا مستقبل شکم میں لیے ہوئے ہے، اس کا اشارہ جسٹس پنیا کمیٹی اور سوامی ناتھن پینل کی رپورٹ میں ہے، جس کے مطابق جو ناقابل بیان ہے اور ناگزیر ہے، وہ ہے فیس میں اضافہ، فیس میں اضافہ سے سب سے زیادہ متاثر حاشیہ کے لوگ جیسے اقلیت، دلت اور خواتین ہوں گے اور شاید اس ’سب سے بہتر‘ (Excellence)کی دوڑ میں اور پچھڑ جائیں۔
(بشکریہ: جن ستّا)
تعلیم کی معیشت
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS