محنت کش عورتیں

0

دلیپ دتّا
(مترجم: محمد صغیر حسین)

ہلاکت خیز کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ملک گیرپیمانے پر لاک ڈاؤن نافذ کرنے کا فیصلہ صحیح سمت میںاٹھایا گیا ایک قدم ضرور تھا لیکن اس کے نتیجے میں تمام معاشی سرگرمیوں کے تقریباً مکمل شٹ ڈاؤن نے مزدوروں خاص طور پر غیررسمی خاتون محنت کشوں پر قہر برپا کردیا ہے۔ اس قہرسامانی کی شدت پر غور و خوض کرنا ضروری ہے۔ بین الاقوامی مزدور تنظیم (International Labour Organisation) کی 2020کی رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ وبا کے نتیجے میں، ہندوستان میں ایک تخمینہ کے مطابق غیررسمی سیکٹر کے کم و بیش 40کروڑ محنت کش انتہائی غربت و افلاس کے خطرے کی زد پر ہیں اور یہ کہ مزدور عورتوں کو بے روزگاری کی مار زیادہ سہنی ہوگی۔ اس کی وجہ محنت کش عورتوں کی پوشیدہ محنت اور غیررسمی نظامِ کار ہے۔ مزید یہ کہ ورک فورس شرکت کی شرح (Workforce Participation Rates/WPR) میں روزافزوں جنسی تفریق جو لاک ڈاؤن سے پہلے سے ہی موجود تھی، لاک ڈاؤن کے دوران اور بھی بڑھ گئی۔ آخری قومی ٹائم یوزسروے(1998-99) نے ہندوستان میں خانگی امور میں سب سے زیادہ جنسی تفریق دکھائی ہے۔ جہاں عورتیں بچوں، بوڑھوں، بیماروں اور معذوروں کی نگہداشت میں ہر ہفتے 4:50گھنٹے گزارتی ہیں، وہیں مرد صرف ایک گھنٹہ فی ہفتہ گزارتے ہیں۔ اس کے علاوہ، وبا کے دوران عورتوں کے امورِخانہ داری میں اضافہ ہوگیا ہے جس کے سبب ملازمت سے اُن کی چھٹنی کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔
ہندوستان میں، چوں کہ عورتیں بہت سی ایسی معاشی سرگرمیوں میں حصہ لیتی ہیں جن کا نہ تو اعتراف ہوتا ہے اور نہ ہی انہیں کوئی اجرت ملتی ہے، اسی لیے مردوں کو لیبرمارکیٹ میں عورتوں پر ایک درپردہ سبقت حاصل ہوتی ہے کیوں کہ انہیں امورخانہ داری کا بوجھ نہیں اٹھانا پڑتا۔ Periodic Labour Force Survey (PLFS)2018-19 اور National Sample Survey(68th round)سے واضح طور پر ظاہر ہوتا ہے کہ پوری دنیا میں ہندوستان کاWPRسب سے کم ہے۔ 2018-19 میں خانگی اور متعلقہ سرگرمیوں میں عورتوں کا تناسب دیہی علاقوں میں 57%اور شہری علاقوں میں 60%تھا، جب کہ مردوں کا تناسب محض 0.5% اور 0.6% بالترتیب تھا۔ اس بات کی شہادت بھی موجود ہے کہ عورتوں کا WPR کنبوں میں چھوٹے بچوں کی موجودگی کے سبب منفی ہوگیا ہے۔ یہ بات بھی طے ہے کہ آنے والے وقتوں میں، ملک میں بچوں کی نگہداشت کا بوجھ عورتوں پر بڑھے گا۔ 2011-12کے دوران روزگار مارکیٹ میں چھوٹے بچوں والی ماؤں کی شرکت کا تناسب 33فیصد تھا جو 2018-19 میں گھٹ کر 24فیصد رہ گیا۔ 2018-19 میں تقریباً 31فیصد محنت کش عورتیں بغیر کسی معاوضے کے خانگی خدمات انجام دے رہی تھیں۔برسرروزگار عورتوں میں بھی زیادہ تر عورتیں خود روزگاری میں مصروف ہوتی ہیں۔ مزید یہ کہ خود روزگار عورتوں میں بھی اچھی خاصی تعداد گھر کے احاطے میں ہی کام کرتی ہے جن کے پاس نہ تو کام کی کوئی مقررہ جگہ ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی تحریری معاہدئہ روزگار ہوتا ہے۔ اس غیریقینی صورت حال میں کسی آجر/مأجور تعلق کے بغیر، وبا کے دوران محنت کش عورتوں کے روزگار میں انحطاط سب سے زیادہ ہے۔ لاک ڈاؤن سے پہلے جو عورتیں مصروف کار تھیں، اُن میں سے 40فیصد عورتیں لاک ڈاؤن کے دوران روزگار سے محروم ہوگئیں۔ دیہی علاقوں کی عورتیں سب سے زیادہ متاثر ہوئیں۔ عظیم پریم جی یونیورسٹی کووڈ-19روزی روٹی سروے کے مطابق لاک ڈاؤن کے دوران ہندوستان میں مردوں کے مقابلے میں عورتیں روزگار سے زیادہ محروم ہوئیں۔ لیکن پھر غور کرنے کی بات ہے کہ محنت کش خواتین کی حالت زار کے کیا اسباب ہیں؟ اس کا اصل سبب یہ ہے کہ غیررسمی سیکٹر میں کام کرنے والی عورتوں کو مختلف بندشوں اور رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ غیرمنظم محنت کش عورتو ںپر انسٹی ٹیوٹ آف سوشل اسٹڈیز ٹرسٹ(ISST) کے ذریعہ ہونے والی Rapid Assessment Studies سے پتہ چلتا ہے کہ غریب کنبوں کی عورتیں زیادہ غیرمحفوظ زمرے کے کام کرتی ہیں مثلاً گھریلو کام، سڑکوں پر پھیری، کوڑا اٹھانے، گھر سے ہونے والے کام اور تعمیراتی کام وغیرہ۔ PLFS (2018-19) نے صنعتوں میں عورتوں کے روزگار کی صورت حال پیش کی ہے۔ اس رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ عورتیں سب سے زیادہ میدان زراعت میں کام کرتی ہیں جہاں ان کا تناسب(59.5%) ہوتا ہے۔ اس کے بعد محنت کش عورتوں کا تناسب پیداوار سیکٹر میں(13.8%)، سرکاری انتظامیہ، صحت اور تعلیم میں(12%)، تجارت، ہوٹل اور ریستیوراں میں(7.2%) ، ذرائع نقل و حمل اور اسٹوریج میں(1.1%)، بجلی، پانی وغیرہ میں(0.3%) اور کان کنی میں(0.2%) ہے۔ ان تمام سیکٹروں میں زیادہ تر عورتیں وہ ہوتی ہیں جن کے پاس کوئی کھیت نہیں ہوتے اور وہ غیررسمی نظام کار میں دہاڑی پر کام کرتی ہیں۔ یہ تمام سیکٹر وبا سے بہت زیادہ متاثر ہوئے۔ ان تمام سیکٹروں میں سے، سرکاری انتظامیہ، صحت اور تعلیم کے سیکٹروں میں عورتیں نسبتاً کم خطرے کی زد پر رہیں لیکن ان میں عورتیں آشا اور آنگن باڑی کارکنان کی حیثیت سے صف اوّل میں خدمات انجام دینے کی غرض سے رکھی جاتی ہیں۔ انہیں ٹھیکے پر رکھا جاتا ہے اور انہیں ہر ماہ جو اعزازیہ دیا جاتا ہے وہ کم ازکم اجرت سے کم ہوتا ہے۔ ہندوستان میں تقریباً ایک کروڑ چھ لاکھ عورتیں گھریلو ملازماؤں کی طرح کام کرتی ہیں اور اُن میں سے 82فیصد عورتیں شہر کے گھروں میں کام کرتی ہیں جن کا حق محنت کم ازکم قومی اجرت سے کم ہوتا ہے۔
آئی ایس ایس ٹی(ISST) سروے سے معلوم ہوتا ہے کہ 83%خواتین کارکنوں کی آمدن میں شدید طور پر کمی آئی۔ تعمیراتی سیکٹر کی تمام محنت کش عورتوں نے اجرت والے کاموں سے ہاتھ دھو بیٹھنے کی شکایت کی جب کہ لاک ڈاؤن کے دوران 97%پھیری والیوں کی آمدنی ختم ہوگئی۔ گھروں میں بیٹھ کر کام کرنے والی عورتوں کی مارچ کے وسط سے کوئی آمدنی نہیں ہوئی۔ چلنے پھرنے اور سڑکوں پرنکلنے پر پابندیوں کی وجہ سے کوڑاکرکٹ چننے والی عورتوں پر بھی وبا کی مار پڑی۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ جو کم و زیادہ انہوں نے جمع کیا اُسے بھی کم داموں فروخت کرنے پر انہیں مجبور ہونا پڑا۔ مختصر یہ کہ کووڈ-19کے اثرات محنت کش عورتوں پر تباہ کن تھے۔ ان عورتوں پر وبا کے اثرات جنسی اضطراب کی وجہ سے مختلف شکل میں ظاہر ہوئے۔ کووڈ-19کے بحران سے پہلے، ہندوستان عورتوں کے مسلسل گرتے ہوئے WPR سے جوجھ رہا تھا۔ ملک کے سامنے غیررسمی روزگار کی ناسازگاری اور بے یقینی کامسئلہ بھی درپیش تھا۔
نیشنل سیمپل سروے آفس (National Sample Survey Office/NSSO) کے ذریعہ کیے گئے سرکاری سروے برائے روزگار و بے روزگاری کے مطابق 2011-12میں عورتوں کے بار آور گروپ(15سال سے 59سال تک) کا WPR  32%تھا جو 2018-19 میں گھٹ کر 25%رہ گیا۔ اگرچہ مرکزی حکومت نے ایک ریلیف پیکیج کا اعلان کیا ہے لیکن فلاح و بہبود کے اقدامات کا موثر نفاذ ایک بڑا چیلنج ہوتا ہے۔ اس تناظر میں محنت کش عورتیں ان چنوتیوں کا سامنا کس طرح کرپائیں گی خاص طور پر اُس وقت جب وبا نے ملک کی معیشت کو بری طرح متاثر کیا ہے؟ این سی ای یو ایس 2006 (National Commission for Enterprises in the Unorganised Sector) کی سفارشات ہم سے مطالبہ کرتی ہیں کہ غیررسمی محنت کش عورتوں کو سماجی تحفظ عطا کرنا ہمارا فریضہ ہے۔سرکار کے ذریعہ تھوڑا بہت کام ملنے کی گارنٹی اسکیم، اُن غیررسمی محنت کش عورتوں کے آنسوپونچھ سکتی ہے جن کے پاس کوئی کام نہیں رہ گیا ہے۔ آخری بات جو ارباب اقتدار کے گوش گزار کرنا ہے وہ یہ ہے کہ صحت، غذا اور تعلیم کی بڑی عوامی اسکیموں کے نفاذ میں سرکار کا انحصار اُن محنت کش عورتوں پر بڑھتا جارہا ہے جنہیں کم اجرت دی جاتی ہے۔ انہیں تو ملازم تسلیم ہی نہیں کیا جاتا۔ ضرورت ہے کہ ہم اپنے رویوں پر نظرثانی کریں اور ایسی بیش بہا خدمات انجام دینے والی عورتوں کو مناسب مشاہرہ تو دیں۔ 
(صاحب مضمون Sayantan Consultants Private Limited کولکاتہ کے ڈائریکٹر اور سی ای او ہیں)
 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS