انوراگ تیواری
(مترجم: محمد صغیرحسین)
ہندوستان میں ذات پات اور جنسی تفریق پر مبنی جرائم میں روزافزوں اضافے کے سیاق و سباق میں چند حقیقتاً مشکل سوالوں کا جواب ہم سب کو دینا لازم ہے۔ این سی آر بی (National Crime Records Bureau) رپورٹ(2019) نے ہمارے غور و فکر کے لیے چند انتہائی اہم اعداد و شمار پیش کرنے کا حیرت انگیز کام کیا ہے۔ ہندوستان بھر میں عورتوں کے خلاف جرائم کے 4,05,861 واقعات درج ہوئے ہیں۔ آسام میں عورتوں کے خلاف ہونے والے جرائم کی شرح سب سے زیادہ یعنی ہر ایک لاکھ آبادی پر 117.8 کیس۔ اترپردیش 59,853 جرائم کے ساتھ سرفہرست ہے۔ 2018 سے عورتوں کے جرائم میں 7.3 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ پورے ملک میں زنابالجبر کے اوسطاً 87 معاملات یومیہ درج کرائے گئے ہیں۔ یوپی میں POCSO ایکٹ کے تحت بچیوں کے خلاف سب سے زیادہ جرائم یعنی 7,444معاملات درج ہوئے ہیں، وہیں مہاراشٹر میں 6,402اور مدھیہ پردیش میں 6,053 جرائم ہوئے ہیں۔ دوسرے مندرج جرائم جن کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے، اُن میں زبانی و جسمانی تشدد، بے رحمی اور عصمت دری جیسے جرائم شامل ہیں۔ دوسری جانب درج فہرست ذاتوں(SC) اور درج فہرست قبائل (ST) کے خلاف جرائم میں بالترتیب 7% اور 26%کا اضافہ ہوا ہے۔ رپورٹ سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ گزشتہ تین سالوں میں ذات پات سے متعلق تشدد کے معاملات میں سزایابی کی شرح میں مسلسل کمی آئی ہے۔
چنانچہ یہ قابل غور ہے کہ ہم کیوں اور کس طرح اس مقام تک پہنچے اور ہم کہاں جارہے ہیں؟ میں کوشش کروں گا کہ ماضی کے جھروکوں سے تاریخ پر نظر کی جائے اور اس معمہ کو حل کیا جائے۔ ہمارا سماج ہمیشہ ہمیش سے ایک منقسم سماج رہا ہے۔ ہندوستان میں ذات پات اور جنسی تفریق نوآبادیاتی پیداوار نہیں تھی۔ یہ ہماری اپنی پیدا کردہ تفریق تھی۔ ہمارے تمام سماجی، معاشی اور قانونی اداروں کی زمرہ بندی خود اپنے مفادات وابستہ کے لیے کی گئی تھی۔ فرنگیوں نے تو بس اتنا کیا کہ انہوں نے ’’ورن سسٹم کو ازسرنو ہوا دے دی‘‘۔ اپنے اس عمل کے جواز میں انہوں نے یہ کہا کہ ہندوستان کے نظام ذات پات میں پیوست پیچیدگیوں کے ادراک کے لیے ایسا کرنا ضروری تھا۔ ڈاکٹر بی آر امبیڈکر اپنی کتاب ’’Annihilation of Caste‘‘ میں کہتے ہیں کہ تاریخ گواہ ہے کہ ہندوستان میں ذات پات کے تفریقی نظام کو ’’تقسیم محنت‘‘ کے نام پر جنم دیا گیا جو دراصل، اُن کے مطابق ’’تقسیم محنت کشاں‘‘ تھی۔
ایسی تفریق نے ایک سماجی اور سلوک سے متعلق جانبداری/تعصب کو فروغ دیا جس نے آگے چل کر ذات پات کے تصور کو عمودی رُخ میں مہمیز کیا۔ چوں کہ اس تصور کا استعمال سماجی کاموں مثلاً پشتینی طور پر کسی کے پیشے کو متعین کرنے کے لیے کیا گیا تھا، اس لیے اس نے اُن گروہوں کی سماجی حرکت پذیری کو محدود تر کردیا جن کے ذمے سماج کے نچلے درجے کے کام سونپے گئے تھے۔ اس کے نتیجے میں اُن گروہوں کے ارکان کی انفرادی شناخت گم ہوکر رہ گئی اور اس کے بجائے ایک ’’گروہی شناخت‘‘ کا چلن عام ہوا۔ آج کے جدید ہندوستان میں، ان گروہوں کو ایس سی(SC)، ایس ٹی(ST)، دیگرپسماندہ طبقات(OBC) ، خواتین اور مذہبی اقلیتوں کی شکل میں جانتے ہیں۔
پورے نظام کا مسئلہ:
اس وائرس سے ہماری پولیس فورس بھی محفوظ نہیں تھی۔ ایک طرف ذات پات اور جنس پر مبنی تفریق آزاد ہندوستان میں بڑھ رہی تھی، وہیں دوسری جانب مراعات یافتہ اعلیٰ ذات کے افراد، جن کی پرورش و پرداخت ایک سازگار ماحول میں ہوئی تھی، انہوں نے ہماری انتظامیہ کی اسامیوں پر تصرف کرلیا۔ پولیس بھی اُن کے وجود سے خالی نہ رہی۔ یہ مسئلہ اُس وقت اور بھی پیچیدہ ہوگیا جب ہمیں نوآبادیاتی دور کا انڈین پولیس ایکٹ، 1861 اور اسی طرح کے دیگر قوانین ورثے میں ملے۔ مذکورہ ایکٹ 1857کی بغاوت کے بعد لایا گیا تھا اور اس کا بنیادی مقصد، ڈیوڈ آرنلڈ کے بقول، ’’ہندوستانی رعایا کو کنٹرول میں رکھنا، اُن پر دباؤ بنائے رہنا اور اُن کی نگرانی کرنا تھا۔‘‘ چنانچہ عدم تنوع، انتظامیہ کی کم نمائندگی اور ظالمانہ افکار و نظریات پر مبنی ایک قانون، ہندوستان میں، تفریق آمیز پولیس نظم و نسق کا ایک مکمل معجونِ مرکب ثابت ہوا۔ یہی وہ مرکب تھا جس نے پرتشدد طرزعمل کی بنیادڈالی اور ایک انتہائی پدرسری(patriarchal) نظام کی تشکیل کی جو اگر صدیوں نہیں تو دہائیوں پر ضرور محیط تھا۔
تفریق بطور کلیہ:
سالوں بعد، ہماری پولیس فورس کے خمیر میں یہی تفریق و تعصب رچ بس گئے۔ اگر کسی ادارے کی کارکردگی تعصب اور عدم مساوات پر پوری طرح مبنی ہو تو وہ ناکارہ ہوکر رہ جاتا ہے۔ عوام کا اعتبار، اعتماد اور احترام حاصل کرنے کے لیے کسی جمہوریت میں پولیس انتظامیہ کو متنوع ہونا چاہیے۔ ساتھ ہی ساتھ اسے اعتراف کرنا چاہیے کہ مختلف پس منظر رکھنے والے لوگ، مختلف ہنر، تجربات اورتناظر کے حامل ہوتے ہیں۔ تاہم ہندوستان کے لیے اس کا برعکس ایک سچائی ہے۔
آئین کے آرٹیکل 17کے تحت خاتمۂ تفریق سے متعلق قوانین، ایس سی/ایس ٹی انسداد بے رحمی ایکٹ اور مثبت کارروائی کی دفعات، کم و بیش علامتی بن کر رہ گئے ہیں۔ ہندوستان میں پولیس نظم و نسق کی صورت حال پر کامن کاز(Common Cause) کی 2019 کی رپورٹ سے چند پریشان کن اعدادوشمار کا انکشاف ہوتا ہے۔ اس رپورٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ ہماری پولیس فورس میں ایس سی، ایس ٹی، او بی سی اور عورتوں کی نمائندگی بہت ہی کم ہے۔ ان زمروں کے لیے محفوظ اسامیاں ایک عرصۂ دراز سے خالی پڑی ہیں۔ اس کوتاہی میں ہریانہ اور یوپی سرفہرست ہیں۔ مزید یہ کہ یہ رپورٹ یہ بھی دکھاتی ہے کہ ان زمروں کے افراد کی بحیثیت افسر تقرری کے امکانات بہت ہی کم ہوتے ہیں۔ علاوہ ازیں یہ بھی امکان ہوتا ہے کہ وہ کاموں کی غیرمساوی تقسیم کے شکار ہوں۔ دیکھا گیا ہے کہ انہیں اپنے سینئروں کے روزمرہ کے کاموں اور اُن کے گھروں کے چھوٹے موٹے کام کرنے پر لگادیا جاتا ہے۔
ہر چار میں سے ایک خاتون پولیس نے تھانوں میں جنسی ہراس کمیٹی کے نہ ہونے کی شکایت کی۔ اس کے علاوہ ہر پانچ میں سے ایک خاتون پولیس نے شکایت کی کہ اُن کے لیے علیحدہ ٹوائلٹس کا انتظام نہیں ہوتا۔ بہار، کرناٹک اور بنگال جیسی ریاستوں میں پولیس فورسز میں عورتوں کے خلاف ادارتی تعصب سب سے زیادہ ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ سینئر پولیس افسران کا خیال ہے کہ ’’عورتیں کم محنتی ہوتی ہیں، کم اثر آفرین ہوتی ہیں اور یہ کہ انہیں خانہ داری پر توجہ مرکوز کرنا چاہیے۔‘‘ اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ خواتین پولیس عملے کو آفس کے اندر کے کام مثلاً رجسٹروں کی نگہداشت وغیرہ وغیرہ جیسے کام سونپے جاتے ہیں، وہیں مردوں کو عوامی تفتیش، نظم و ضبط، پولیس نظم و نسق اور گشت جیسے کام سپرد کیے جاتے ہیں۔ پولیس بندوبست میں کاموں کی ایسی تقسیم کو ہی نارمل سمجھا جاتا ہے اور کسی کو بھی اس میں جنسی تفریق کا کوئی پہلو حاشا وکلا نظر نہیں آتا ہے۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ مرد و زن کے مابین اس تقسیم کار کو عورت کی فطری/حیاتیاتی استعداد کے عین مطابق قرار دیا جاتا ہے۔
باعث تشویش یہ ہے کہ کئی پولیس والے یہ سمجھتے ہیں کہ جنس پر مبنی تشدد کی شکایات فرضی ہوتی ہیں اور کسی کے اُکسانے پر درج کرائی جاتی ہیں۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ مخنث گروہ کے افراد، مسلمان، دلت وغیرہ فطری طور پر ارتکاب جرائم کے عادی ہوتے ہیں۔ ذات پات اور جنس کے خلاف ایسی ادارتی تفریق ایک شیطانی چکر کی صورت میں پھیلتی چلی جاتی ہے۔ یہ تفریق، خطرات کی زد پر کھڑے زمروں پر سیاسی کنٹرول کے فروغ میں بھی ممدومعاون ہوتی ہے۔
آئینی ضابطۂ اخلاق اُن کی قوت کا منبع و مصدر نہیں ہے۔ عورتو ںکے خلاف جرائم کی سیاست زدگی کے روزافزوں مزاج کو اکثریت پرستانہ سیاست کے فروغ کے ساتھ ساتھ بڑھاوا ملا ہے۔ 2019کی رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ سیاسی پیچیدگیوں والے جرائم کی تفتیش کے دوران پولیس کو کس قدر سیاسی دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اگر کوئی ایماندار پولیس افسر، ایسے دباؤ کے آگے سرتسلیم خم کرنے سے انکار کرتا ہے تو اسے ’’کالی بھیڑ‘‘ قرار دے دیا جاتا ہے۔ یہی وہ پیمانہ ہے جس کی بنیاد پر ’’تابعدار‘‘ پولیس والوں کو ترقی اور ’’سرکش‘‘ ارکان کو تنزلی دی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ’نافرمان‘ ارکان کا تبادلہ ایسی جگہوں پر کردیا جاتا ہے جہاں میڈیا کا عمل دخل کم ہو تاکہ اُن کی دیانت داری ریاست کے لیے پریشانی کا باعث نہ ہو۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ چند علاقوں میں پولیس کی مدد سے سیاسی کنٹرول کا استعمال زیادہ موثر طور پر کیا جاسکتا ہے۔ وہ علاقے جہاں دلتوں یا اقلیتوں کی اکثریت ہوتی ہے، وہاں پولیس کا نظم و نسق بے حد خراب ہوتا ہے۔ پولیس کی ٹریننگ، ڈیجیٹل رسائی، گاڑیوں اور فنڈنگ کی بہت کمی محسوس کی جاتی ہے۔ ایسی صورت حال میں یا تو جرائم کا اندراج تک نہیں ہوتا یا پھر وہ پولیس اسٹیشنوں میں ریاست کی شہ پر ہونے والے تشدد کا شکار ہوتے ہیں۔
جن لوگوں کے خلاف ایک مدت مدید تک تعصب اور جانبداری برتی گئی ہو، اُن کو پیش آمدہ منظم بندشیں انہیں ایک ایک داخلی جبر کے حصار میں کھڑی کردیتی ہیں۔ مشہور زمانہ معلم، پاؤلوفریرے (Paulo Freire) اپنی شہرئہ آفاق کتاب Pedagogy of the Oppressed میں کہتے ہیں: ’’مجبور و مقہور کو داخلی طور پر یہ یقین دلا دیا جاتا ہے کہ دراصل وہی جابر و قاہر ہے اور اسے ظلم کرنے والے کی رہنما ہدایات کی پیروی پر مجبور کردیا جاتا ہے۔ ایسے لوگ آزادی کے تصور سے بھی خائف ہوتے ہیں۔‘‘ یہ خوف، سیاسی کنٹرول کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ ہمہ جہتی کنٹرول: کنٹرول اس بات پر کہ کیا رپورٹ ہوا، کنٹرول اس بات پر کہ کیا رپورٹ نہیں ہوا اور کنٹرول اس پر کہ رپورٹ شدہ معاملات کو کیسے نمٹایا جائے۔
یہ توقع کرنا کہ ایسا ادارہ جہاں اپنے ہی ساتھیوں کے ساتھ تفریق اور ظلم و جور کو شعارعام بنادیا گیا ہو اور جہاں تعصب و جانبداری اور ظلم و ستم کو تاریخی طور پر سیاسی حربہ بنایا گیا ہو، ادارے کے باہر کے لوگوں کو تحفظ دے گا، محض خوابوں کی دنیا میں رہنے کے مترادف ہے۔ سیاسی اصلاحات کے لیے مسلسل مطالبات پر عوامی غم و غصے کو بے جا قرار دیا جاتا ہے۔ اس ضمن میں امبیڈکر کا بیان انتہائی اہمیت کا حامل ہے: ’’سیاسی اصلاح سے قبل سماجی اصلاح کی ضرورت ہے کیوں کہ آخرالذکر کے حصول کے بغیر اوّل الذکر ممکن نہیں۔‘‘
(بشکریہ: دی پائنیر)
(مضمون نگار کا تعلق نیشنل لاء یونیورسٹی، وشاکھاپٹنم سے ہے۔ زیرنظر مضمون میں مذکور افکار و خیالات اُن کے نجی ہیں۔ ادارہ، مدیران اور مترجم کا ان سے اتفاق ہرگز ضروری نہیں ہے)