جب امداد زحمت بن جائے

0

شالنی نائر
(مترجم: محمدصغیر حسین)

یوم آزادی پر اپنی تقریر میں پرائم منسٹر نریندر مودی نے لڑکیوں کی شادی کی قانونی عمر بڑھا کر 21سال کرنے پر زور دیا ہے۔ اس سلسلے میں جو عملہ اس تجویز کے نفاذ کے لیے سرگرم عمل ہوگا، اسے حاشیہ پر کھڑی دیہی آبادیوں پر ایسے قوانین و ضوابط کے غیرمتناسب اثرات پر غوروخوض کرنا چاہیے۔
حکومت کے پاس ایسی بہت ساری شہادتیں موجود ہیں جن سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ کمسنی کی شادی کے چلن کو 18سال کی عمر تک مفت تعلیم کو لازمی بناکر کم یا ختم کیا جاسکتا ہے۔ اُن رپورٹوں پر توجہ دینے سے قبل، اس بات کو سمجھنا ضروری ہے کہ شادی کی کم ازکم عمر میں اضافہ، جو بظاہر ایک ترقی پسندانہ اقدام لگتا ہے، کس طرح عورتوں کو بااختیار بنانے کے بجائے، دیہی ہندوستان کے دلت اور آدی باسی کے خطرات میں اضافے کا سبب بنے گا اور اُن کے خلاف جرائم بڑھ جائیں گے۔
نیشنل فیملی ہیلتھ سروے(NFHS-4) کے 2015-16 کے اعدادوشمار، کمسنی کی شادیوں کے بارے میں چند رجحانات کی جانب اشارہ کرتے ہیں:
٭گاؤں کی لڑکیاں، شہری لڑکیوں کی بہ نسبت جلد شادی کرتی ہیں۔
٭متمول لڑکیاں دیر سے شادی کرتی ہیں۔
٭تعلیم یافتہ لڑکیاں دیر سے شادی کرتی ہیں۔
٭بارہ یا اس سے زیادہ سالوں تک اسکول میں پڑھنے والی لڑکیاں دیر سے شادی کرتی ہیں۔
یہ رجحانات تعلیم کی اہمیت اور افادیت ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں۔ علاوہ ازیں اگر دستیاب اعدادوشمار کی زمرہ بندی کریں تو جنس اور ذات پات پر مبنی تفریق کے مسئلے سے نمٹنے کی ضرورت کا اندازہ آسانی سے ہوجائے گا۔ ایسی صورت حال میں سماجی انصاف کے اصولوں کی پرواہ کیے بغیر کورے قوانین نافذ کرنامناسب نہیں ہے۔
دولت کے اعتبار سے دیکھیں تو آپ پائیں گے کہ دیہی ہندوستان میں غریب ترین کنبوں کی کثرت ہے۔ غریب ترین لوگ، سماجی اور معاشی ضرورتوں کے سبب اپنی لڑکیوں کی شادی جلد کردیتے ہیں۔ ان میں 45%درج فہرست قبائل(ایس ٹی)، 25.9% درج فہرست ذاتوں(ایس سی)کے کنبے شامل ہیں جب کہ جنرل(دیگر) کے زمرے میں آنے والے صرف 9% کنبے ہیں۔
NFHS-4 ڈاٹا 15-49سال کی عورتوں کے اس پہلو سے متعلق ہے کہ وہ کتنے سالوں تک اسکول گئیں۔ اس کے اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ 42%ایس ٹی(ST) عورتیں اور 33%ایس سی(SC) عورتیں کبھی اسکول نہیں گئیں۔ محض 10%ایس ٹی اور 15%ایس سی عورتوں نے 12+تک تعلیم حاصل کی جب کہ دیگر(جنرل زمرہ) کی 30%عورتوں نے12+مکمل کرلیا۔ اسی طرح دیگر پسماندہ طبقات کی عورتوں کا تناسب 21%تھا۔ صرف8%دیہی لڑکیوں نے جن کی عمر 6-17کے درمیان تھی، اسکول چھوڑنے کی وجہ شادی بتائی۔ باقی لڑکیوں نے اسکول چھوڑنے کا سبب پڑھائی میں دل نہ لگنا، تعلیمی اخراجات کا بوجھ نہ اٹھا پانا، گھر کے کاموں کا بوجھ ہونا اور اسکولوں کا فاصلوں پر ہونا بتایا۔
اگرچہ زچہ بچہ کی صحت اور موت پر توجہ دینے کے لیے ایک ٹاسک فورس کا خیال ایک خوش آئند اقدام ہے لیکن شادی کی قانونی عمر بڑھانے کی کوشش، سابقہ سرکاری رپورٹوں سے یکسر متضاد ہوگی۔ ستمبر 2018میں، قومی کمیشن برائے حقوق انسانی نے یہ ثابت کیا تھا کہ اعلیٰ تعلیم کس طرح لڑکیوں کی کم عمری میں شادی کے امکانات کو کم کرتی ہے۔ چنانچہ کمیشن نے رائٹ ٹو ایجوکیشن یکٹ 2009(RTE) میں ترمیم کی زوردار سفارش کی تاکہ تعلیم کو 18سال کی عمر تک لازمی قرار دیا جائے۔ فی الحال 14-18سال کے بچے مذکورہ بالا ایکٹ کے دائرۂ اثر سے باہر ہیں اور بہت ممکن ہے کہ وہ تعلیم چھوڑ دیں۔ بچوں کے حقوق کے لیے آوازاٹھانے والی اعلیٰ ترین تنظیم نیشنل کمیشن فار پروٹیکشن آف چائلڈ رائٹس(NCPCR) اور غیرسرکاری تنظیم ینگ لائیوز(Young Lives) کی رپورٹ بھی تعلیم تک رسائی اور تعلیم کی کوالٹی پر زور دیتی ہے۔ اس رپورٹ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ 2005-06 اور 2015-16 کے درمیان 15-19 سالوں کی لڑکیوں کی شادی کا تناسب 26.5%سے گھٹ کر 11.9% ہوگیا تھا۔
ہندوستان میں شادیاں مختلف عائلی قوانین (Personal Laws) کے تابع ہوتی ہیں جو لڑکیوں کی شادی کے لیے مختلف عمر طے کرتے ہیں۔ اسی طرح پی سی ایم اے (Prohibition of Child Marriage Act, 2006 ) نے بھی لڑکیوں کی شادی کی کم سے کم عمر 18سال اور لڑکوں کی 21سال مقرر کی ہے۔ اگر 18سال سے زائد کا کوئی شخص 18سال سے کم عمر کی لڑکی سے شادی کرتا ہے تو اسے اس ایکٹ کے تحت دو سال تک کی قید کی سزا مل سکتی ہے۔ یہی سزا اُن کے والدین کو بھی ارتکاب جرم کی ترغیب کی پاداش میں مل سکتی ہے۔ پوکسو  The Protection of Children from Sexual Offences (Pocso)Act 2012 نے بھی اظہار رضامندی کی عمر 16سال سے بڑھا کر 18سال کردی ہے۔ مذکورہ بالا کیس میں اس ایکٹ کے تحت دی جانے والی سزا بھی جڑسکتی ہے۔
متعدد مطالعوں سے پتہ چلا ہے کہ کس طرح کمسنی کی شادی کو بسا اوقات ایک جرم بنادیا جاتا ہے۔ عام طور پر ایسا ہوتا ہے بین ذات شادیاں کرنے والے جوڑے کو سزا دینے کی نیت سے اُن کی شادی کم عمری میں ہی کرادی جاتی ہے۔ اٹھارہ سال سے زیادہ عمر کے لڑکوں کو ان جیسے معاملات میں عمرقید بھی ہوسکتی ہے۔ پوکسو(Pocso) ، کارکنان صحت و حفظان صحت پر یہ پابندی عائد کرتا ہے کہ ایسے معاملات کی خبر پولیس کو دیں جہاں کوئی بالغ شخص 18سال سے کم لڑکی کا جنسی استحصال کررہا ہو۔ 
شادی کی قانونی عمر کو 21سال کردینے کی وجہ سے جوان عورتوں کے تولیدی اور جنسی معالجے تک رسائی کی راہ دشوار تر ہوجائے گی۔ دلتوں اور آدی واسیوں کے کنبے، جنہیں قانونی اور دوسرے تحفظات تک کم سے کم رسائی حاصل ہے، اور بڑے خطروں کی زد پر ہوں گے۔
قانون کی پدرسری(Patriarchal)حمایت کے پیش نظر لاء کمیشن کی اٹھارہویں رپورٹ(2008) نے عورتوں اور مردوں دونوں کی ہی شادی کی کم سے کم عمر 18سال کردینے کی سفارش کی ہے۔ اس کے علاوہ کمیشن نے یہ تجویز بھی پیش کی ہے کہ رضامندی کی عمر 16سال کردی جانی چاہیے۔ جسٹس ورما کمیٹی نے بھی یہی سفارش کی تھی۔
اس سمت میں جانے کے بجائے، شادی کی کم سے کم عمر میں اضافے کا مطلب اس کے سوا کیا ہوسکتا ہے کہ یہ ریاست کے ذریعہ قیدوبند کے اختیار کا استعمال محض ہے۔ حکومت جہاں باہمی رضامندی سے ہونے والی شادیوں کو قانونی حق سے محروم کررہی ہے وہیں دلت اور آدی واسی خاندانوں میں رائج کمسن دلہنوں کی خرید و فروخت پر آنکھیں موند لیتی ہے۔ ہندوستان میں بچوں کی شادی کے مسئلے سے نمٹنے کی کوششیں اُن سماجی-معاشی حقائق سے ہم آہنگ ہونی چاہئیں جو اس بات کی متقاضی ہیں کہ عورتوں کی تعلیم، فلاح و بہبود اور مواقع میں سرمایہ کاری کی جائے۔ ہندوستان میں عورتوں اور مردوں کی شادی کی اوسط عمر میں قابل ذکر بہتری دیکھنے کو ملی ہے۔ اب پہلے کی بہ نسبت زیادہ لوگ دیر سے شادیاں کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں کسی بھی قسم کے کوئک فکس اور غلط تعزیری اقدامات ابھی تک کی حصولیابیوں پر پانی پھیر دیں گے۔
(بشکریہ: انڈین ایکسپریس)
(مضمون نگار یونیورسٹی آف سسکس(sussex) یوکے میں جنسی مطالعات میں پی ایچ ڈی اسکالر ہیں)
 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS