آفاقی حب الوطنی بنام بے فیض قومیت پرستی

    0

    ڈاکٹر سید ظفر محمود

    قرآن کریم کے مطابق مقصد حیات انسانی ہے اﷲکی طرف سے امتحان لیا جانا کہ ہم میں سے کون زیادہ دلجوئی سے اپنی خداداد استطاعت کا استعمال کر کے دوسرے انسان کی زندگی آسان بنانے میں لگا ہوا ہے۔ اس تمہیدی محصورہ کو نظام آشنا کرنے کے لیے اﷲنے عالمی آبادی کو قبیلوں میں تقسیم کر دیا اور پھر انسان نے بتدریج 9 جغرافیائی اکائیوں میں اپنی صف بندی اور حد بندی کردی: یہ ہیں گائوں، قصبہ، بلاک،تحصیل، شہر، ضلع، درجہ یا ڈویژن، صوبہ، ملک اور براعظم تاکہ انسانیت کی پہچان میں اور اس کے انتظامی امور میںآسانی ہو۔ان میں سے 8 اکائیاں تو اپنا کام عموماً خوش اسلوبی سے کر رہی ہیں لیکن ایک مخصوص انتظامی اکائی مختلف طرح سے اپنی حدود سے تجاوز کرتی ہوئی نظر آرہی ہے اور وہ ہے’ ملک‘ جسے زمانہ جدید میں ’نیشن اسٹیٹ‘ یا قومیت پر مبنی مملکت(State)کہا جاتا ہے۔ یہ ہے انسانوں کی وہ انجمن یا سماج کی وہ سیاسی تنظیم جس کی ذمہ داری ہے حکمرانی کے ذریعہ سماج میں ضابطگی اور محافظت قائم کرنا اوراس کے لیے قوانین بنا کے ان کا نفاذ کرنا۔ مملکت کا اپنا ایک جغرافیائی رقبہ(Territory) ہوتا ہے جس کے اندر اس کا اقتدار اعلیٰ (Sovereignty)پروان چڑھتا ہے۔ مملکت کی بنیاد ہوتی ہے عوام کا باہمی اتفاق رائے جس پر منحصر ہوتی ہے وہاں کی قانون سازی۔آئیے آگے بڑھنے سے پہلے اس مظہر قدرت کے عمل تولید پر غور کرلیں۔ قدیمی یونانی فلسفی ارسطو(Aristotle)کے مطابق مملکت کا کام ہے عوام الناس میں اچھے چال چلن کے لیے تہذیب و اخلاق کی اعلیٰ قدروں کو فروغ دینا، یہی طریقہ تھا روم کی کامن ویلتھ میں بھی اور اس سسٹم کے منتشر ہوجانے کے بعد یوروپ کے جاگیر داروں کے مابین لڑائی جھگڑے شروع ہو گئے تھے۔ پھر سولہویں صدی میں اٹلی کے مکیا ویلی (Machiavelli) نے اپنی کتاب دی پرنس میں مملکت کی مضبوطی و پائداری اور حکام کی حیات پذیری،شجاعت اور خود مختاری پر زور دیا چاہے اس کے لیے ضابطہ اخلاق کو بالائے طاق ہی کیوں نہ رکھنا پڑے۔ لیکن فرانس کے ژاں بوداں(Jean Bodin) کے مطابق مملکت کے مقصد تخلیق کے حصول اور اس کے تسلسل کے لیے واجب ہے کہ اس کے قوانین و ضابطوں کی بنیاد ہوسماج میں اخلاقیات کی پذیرائی پر۔ سترہویں صدی میں جان لاک(John Locke)کا کہنا تھا کہ مملکت ان افراد کی عکاسی کرتی ہے جو اس کی تخلیق و اس کا بندوبست کرتے ہیںاور انسان کی فطرت ہوتی ہے اپنے آپ میں دلچسپی لینا جس سے خودغرضی اور رقابت حریفانہ کے رجحان جنم لیتے ہیں، جبکہ عوام چاہتے ہیں کہ مملکت کا استعمال ہو ان کے بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے۔ معلوم ہوا کہ مملکت در اصل ایک سماجی معاہدہ (Social Contract)ہے جس کے مطابق افراد متفق ہو جاتے ہیں کہ وہ زندگی، آزادی اور جائداد سے متعلق ایک دوسرے کے فطرتی حقوق(Natural Rights) کو پامال نہیں کریں گے اور اس طرح ہر فرد کو اس کی آزادی کا دائرہ مہیا ہوجاتا ہے۔ اسی لیے سوئزرلینڈ کے فلسفی روسو (Rousseau)نے کہا کہ مملکت کے اختیار و اقتدار اور اس کی بالادستی کی بنیاد فرمانروا کا حق حکمرانی نہیں ہے بلکہ عوام کی مجموعی مرضی و خواہش ہے،اس کا مقصد ہوتا ہے سماجی مفاد۔ لیکن اس کے بعد سے حکمرانوں و سیاستدانوں کے ذاتی مفاد کے مد نظر نیشن اسٹیٹ کی توضیع و ترجمانی میں بگاڑ پیدا ہونے لگا ہے۔ قوم پرستی (Nationalism)کا نیک نہادظہورامریکہ اور فرانس کے انقلابات میں ہوا تھا، وہاں سے لاطینی امریکہ کے نئے ممالک میں داخل ہوا پھر انیسویں صدی میں یوروپ سے ہوتا ہوا بیسویں صدی کے وسط تک تو ایشیا اور افریقہ میں اپنے نسب پر قائم رہا لیکن اس کے بعدوہ ناہموار و بے قرینہ ہوکے غیرمتعلق و بیگانہ مقاصد کے لیے استعمال ہونے لگا۔ آخر کارقوم پرستی کی آڑ میں حکمرانوں کے ذاتی و سیاسی مفاد کو بڑھاوا دینے کا رواج پیدا ہونے لگااور اس کی وجہ سے حقوق انسانی کی پامالی کو ملحقہ خسارہ(Collateral damage)سمجھا جاتا ہے۔ افسوس کہ اس طرح اپنے نیشن اسٹیٹ کے تئیں انفرادی عقیدت و عہد وفا کو غیر ملکی انسانی و گروپ مفادات پر ضرورت سے زیادہ اصرار و ترجیح کا نا زیبا رواج دنیا میں جڑ پکڑتا جا رہا ہے،اسی لیے قومیت پرستی کے لیے علامہ اقبال کہہ گئے:
    اقوام جہاں میں ہے رقابت تو اسی سے
    تسخیر ہے مقصود تجارت تو اسی سے
    خالی ہے صداقت سے سیاست تو اسی سے
    کمزور کا گھر ہوتا ہے غارت تو اسی سے
    قومیت پرستی کے بالمقابل حب الوطنی (Patriotism)کہتے ہیں اپنے ملک سے محبت کو جس میں اجتماعی بھلائی (Common good) کا خیال رکھا جاتا ہے اور اس کے لیے شہریوں میں حب الوطنی کی روح کام کر رہی ہوتی ہے۔اس کے ذریعہ سب شہری مل کے بدعنوانی اور ظلم و زیادتی کی مزاحمت کرتے ہیں۔ وہ یقینی بناتے ہیں کہ ہر انسان کی قدر و قیمت برابر سمجھی جائے، نسلی امتزاج کا اثر ملکی پالیسیوں پر نہیں پڑے، کثرت وجود کو چیلنج کرنے کے بجائے اسے سماج کے لیے اثاثہ تسلیم کیا جائے، ملک کی غالب ثقافت وہاں کی ذیلی ثقافتوں کا اپنے اندر اطلاق کرنے کی خواہش نہ رکھے تاکہ وہاں آفاقی حب الوطنی (Cosmopolitan Patriotism)کی فضا قائم ہو جائے۔ اب ہماری ذمہ داری ہے کہ اکیسویں صدی میں مملکت کا تصور عوامی خیر و عافیت و خوش حالی کی طرف ہم موڑدیں۔بیسویں صدی کی آخری دہائی سے عالمگیریت، بعد از صنعت، پوسٹ ماڈرن زمانہ میں کسی حد تک نیشن اسٹیٹ کی مصنوعی خود توقیری میں کمی آ ئی ہے۔لیکن اس موضوع کے اسکالرس کا خیال ہے کہ حالیہ زمانہ کے متعدد نیشن اسٹیٹس اپنے یہاں سماجی اتصال و پیوستگی قائم نہیں کرپارہے ہیں، خصوصاً بین الاقوامی معاہدوں کی روشنی میں یہ نیشن اسٹیٹس اپنی اقلیتوں کے انسانی حقوق کی پاسداری کو یقینی نہیں بنا سکے ہیں۔ ہاں یہ خوش آئند امر ہے کہ انٹرنیٹ اور خاص کر سوشل میڈیا کے ذریعہ تصورات و اطلاعات کی خوش خلق ترسیل اور استعمال کی اشیا کی بڑھتی ہوئی عالمی دستیابی نے نیشن اسٹیٹس کے ان اشیا کے پیدا کرنے والے اور رجحان و رغبت کے اشاعت کار والے کردارپر ضرب لگائی ہے۔آفاقیت، لبرل اقتصادی خیالات، لذتیت، کھلے مقابلہ پر مبنی آزاد منڈی جیسے جدید رجحانات نیشن اسٹیٹس کے لیے چیلنج بنے ہوئے ہیں۔ پھربھی حوس چھپ چھپ کے سینوں میں تصویریں بناتی جا رہی ہے، اس نے نوع انسانی کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا ہے،قومیت پرستی کا خطرناک ہیکل جتنی شدت سے حقوق انسانی کو روندتا ہوا چلا جارہاہے، اس سے صاف ظاہر ہے کہ انسان اور خصوصاً ہم لوگ زمین پر رسول اکرم ؐکی نیابت کا حق ادا کرنے میں کوتاہی کر رہے ہیں۔ لہٰذا دنیا میں کچھ لوگوں کو تواخوت کا بیان کرنا ہوگا اور محبت کی زبان بننا ہو گااور انھیں اس طرف توجہ دینی ہو گی کہ نیشن اسٹیٹ کا بیجااستعمال انسانیت مخالف مقاصد کے لیے نہ ہو۔
    [email protected]

    سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS