شفافیت ہونا ہی آخری حل

0

وبھوتی نارائن رائے

ہاتھرس کے گاؤں بول گڑھی، تھانہ چاندپا میں گزشتہ کچھ دنوں میں جو کچھ وقوع پذیر ہوا، اس میں کچھ بھی غیرمتوقع نہیں تھا۔ غیرانسانی کاسٹ سسٹم میں پستے دلت خاندان، مردوں کے تسلط والی ذہنیت کے سبب ایک عورت کے غم کی تفصیل اس کی خستہ حالی، جامع اصلاحات کا انتظار کررہی ایک غیر پیشہ ور پولیس فورس کی قابل رحم کارکردگی، جھوٹ پر جھوٹ بول رہے انتظامی افسران یا بے حس سیاست کے سبب اس سے زیادہ آپ امید بھی کیا کرسکتے تھے؟ ہر بار یہی ہوتا ہے، کچھ نہیں بدلتا۔
بول گڑھی بھی ملک کے لاتعداد گاؤوں کی طرح گمنامی کی چادر تلے گم رہتا اور ہم میں سے زیادہ تر نے کبھی اس کا نام بھی نہیں سنا ہوتا، اگر 14ستمبر کو اس گاؤں کی ایک بیٹی کے ساتھ وہ سب نہ وقوع پذیر ہوتا،جس سے نہ صرف اس کی زندگی میں اتھل پتھل مچ گئی، بلکہ ریاست سمیت پورے ملک کی سیاست میں اُبال آگیا۔ دوہرانے کی ضرورت نہیں ہے کہ آج بھی گاؤں دلتوں کے لیے جہنم جیسے ہیں۔ جو تھوڑے دلت شہروں کی جانب نکل آتے ہیں، وہ بھلے کچھ بہتری کا احساس کرلیں، لیکن پیچھے رہ گئے زیادہ تر جہنمی زندگی جینے پر مجبور ہیں۔ اس معاملہ میں متاثرہ، اس کے اہل خانہ اور ملزمان کے ہمدردوں کے بیانات میں اتنے تضاد ہیں کہ کسی آخری نتیجہ پر پہنچنا تھوڑا مشکل ہے۔
ایسے معاملات میں کم قانونی علم رکھنے والے لیڈروں اور چینل ویروں کو آپ معاف کرسکتے ہیں، لیکن آپ ان پولیس افسران کو کیا کہیں گے جو اپنی ساری تربیت طاق پر رکھ دیتے ہیں اور الزامات کو سرے سے مسترد کرنے لگتے ہیں۔ وہ بھول جاتے ہیں کہ تعزیرات ہند کی دفعہ-375کے تحت منی کی عدم موجودگی سے عصمت دری کا الزام خارج نہیں ہوجاتا۔ نربھیا عصمت دری اور قتل کیس کے پس منظر میں بنے کریمنل لاء امینڈمینٹ ایکٹ2013نے تو خواتین کے خلاف بدسلوکی کے دائرہ کار میں مزید توسیع کی ہے۔
شروعات سے ہی چیزیں غلط سمت میں گئیں۔ بری طرح سے متاثرہ کو فیملی اسٹیشن لے گئے۔ خدشہ کے مطابق انہیں رپورٹ درج کرانے میں جدوجہد کرنی پڑی۔ پھر جو رپورٹ لکھی گئی، اس پر کنبہ مسلسل غیرمطمئن نظر آیا۔ میرا ہمیشہ سے ماننا رہا ہے کہ اگر تھانوں میں پولیس شکایت کنندہ کی ایف آئی آر جاتے ہی لکھ دے تو بعد میں پیدا ہونے والے آدھے سے زیادہ مسائل سامنے ہی نہ آئیں۔ اپنے ملک میں بدقسمتی سے انتظامیہ اعدادوشمار کے ذریعہ کرائم کنٹرول کے اپنے ہی بنے جال میں اس قدر الجھ کر رہ جاتا ہے کہ تھانوں میں مقدمے درج نہ کرنے کے رجحان کو نہ صرف نظرانداز، بلکہ حوصلہ افزائی کرتا نظر آتا ہے۔
الزام درج ہونے کے بعد اسپتالوں کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ جو سرکاری اسپتالوں کے چکر لگا چکے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ ایک غریب اور دلت مریض کے ساتھ کیسا سلوک ہوا ہوگا وہاں! یہ اچانک نہیں ہوا ہے کہ کورونا دور میں وزرا اور لیڈروں کو اپنے علاج کے لیے پرائیویٹ اسپتالوں کی پناہ لینی پڑرہی ہے۔ متاثرہ کو بھی ضلع اسپتال، علی گڑھ میڈیکل کالج سے دہلی کے صفدرجنگ اسپتال تک بھاگ دوڑ کرنی پڑی اور ہر سہولت سے اس کا کنبہ غیرمطمئن ہی نظر آیا۔ ضروری نہیں کہ یہ غیراطمینانی علاج کی کمی سے پیدا ہوئی ہو، زیادہ امکان ہے کہ اس کے پیچھے وہاں اس کے زمرے کے مریضوں کے لیے پسری بے رخی اور انہیں کیڑے مکوڑے جیسا سمجھنے کا رجحان رہا ہو۔
سب سے بدبختانہ انتظامیہ کا وہ سلوک تھا، جو متاثرہ کے مرنے کے بعد نظر آیا۔ حالاں کہ یہ سلوک بھی کوئی پہلی مرتبہ نہیں نظر آرہا تھا۔ حکومتیں آئیں-گئیں، لیکن بیوروکریسی ویسی کی ویسی رہی۔ نوآبادیاتی حکمرانوں کی روایت کے مطابق عوام سے سب کچھ چھپانا اور تبھی کچھ شیئر کرنا، جب مجبوری ہوجائے۔ عادتاً جھوٹ بولنا اور المیہ یہ کہ جب کبھی سچ بولیں بھی تو عوام کو جھوٹ جیسا لگے۔ اس معاملہ میں بھی رات کے اندھیرے میں مہلوکہ کی لاش جلا دی گئی۔ ریاستی پولیس کے سربراہ کے مطابق، یہ فیصلہ ضلع سطح کے افسران نے کیا تھا، لیکن اس کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے کہ اگر کچھ چھپانا نہیں تھا تو رات کے اندھیرے میں انتم سنسکار کیوں کیا گیا؟ اس سوال کا بھی جواب کوئی نہیں دے رہا ہے کہ دوسرے دن پورے گاؤں کو چھاؤنی میں کس کے حکم پر تبدیل کردیا گیا اور کس نے علاقہ کو بیریکیڈ کرکے میڈیا و انسانی حقوق کے کارکنان کو کنبہ سے نہ ملنے دینے کا خیال دیا؟ انتظامیہ کے سربراہ ضلع مجسٹریٹ بیچ بیچ میں متاثرہ کنبہ کی طرف سے کوئی بیان دیتے اور ہر مرتبہ کنبہ کا کوئی نہ کوئی ممبر انہیں غلط ٹھہرا دیتا۔ بیوروکریسی کو صرف سچ بولنا سکھانا بہت مشکل ہے۔ اب جب معاملہ کی جانچ سی بی آئی کو سونپنے کا اعلان کردیا گیا ہے تو ایک نیا مسئلہ سامنے آگیا ہے۔ اسی کے ساتھ ملزموں، متاثرہ کنبہ اور پولیس اہلکاروں کے نارکو ٹیسٹ کی بات ہورہی ہے تو مہلوکہ کے رشتہ دار اس کی مخالفت کررہے ہیں۔ کیا وہ بھی کچھ چھپا رہے ہیں؟ قانونی صورت حال یہ ہے کہ اگر وہ نارکو ٹیسٹ میں شریک نہیں ہوئے تو اس کا فائدہ ملزمان کو ہی ہوگا۔
غور سے دیکھیں تو واضح ہوجائے گا کہ شروع میں ہی اگر لیگلسٹک اور ایمان داری سے سلوک ہوا ہوتا تو گزشتہ پورے ہفتہ ملک اس انتشار سے ہوکر نہ گزرتا، جس کے ویژوول ہمارے ٹی وی اسکرین پر چھائے رہے۔ مگر یہ امید ابھی دور کی کوڑی لگتی ہے کہ حالات اس حد تک بدل جائیں گے۔ پہلے ہمیں اپنے گاؤوں کو دلتوں کے رہنے کے قابل بنانا ہوگا۔ وہ ایک ایسی بساوٹ(آبادکاری) میں تبدیل ہوں، جہاں دلتوں کو بھی انسان کے طور پر رہنے کا حق ہو، تبھی پولیس تھانوں، اسپتالوں یا دوسرے سرکاری دفاتر میں انہیں سنجیدگی سے لیا جائے گا۔ بیوروکریسی کو بھی زیادہ شفاف اور قابل اعتماد ہونا چاہیے۔ اس کے لیے ایک لمبا راستہ طے کرنا ہوگا اور یہ کسی ایک حکومت کے بس کا نہیں ہے۔ سبھی حکومتوں کو لمبے وقت تک اس سمت میں ایمان داری سے کام کرنا پڑے گا، تبھی کچھ تبدیلی ممکن ہے۔
(بشکریہ: ہندوستان)
(صاحب مضمون سابق آئی پی ایس افسر ہیں)
 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS