دہشت گردانہ حملہ کی نہ رہے گنجائش

0

سوشانت سرین

26/11ممبئی حملہ کی برسی کا دن ہے۔ 2008 میں 26نومبر کو پاکستان سے آئے دہشت گردوں نے اگلے تین دنوں تک ہماری اقتصادی راجدھانی کو یرغمال بنائے رکھا تھا۔ اس حملہ کے کئی سبق ہم نے سیکھے ۔ مثلاً غیر قانونی سرگرمیاں روک تھام قانون(یو اے پی اے) میں ترمیم کرکے اسے مزید سخت بنایا گیا۔ 31 دسمبر 2008کو قومی تفتیشی ایجنسی ایکٹ پارلیمنٹ سے پاس کیا گیا اور ایک ایسی وفاقی ایجنسی بنائی گئی جو دہشت گردانہ واقعات کی خود بہ خود جانچ کرسکتی ہے، اسے اس کے لیے ریاستی حکومتوں کی اجازت درکار نہیں ہے۔ خفیہ ایجنسیوں کو بھی مضبوط کیا گیا۔ ان کو زیادہ وسائل مہیا کرائے گئے۔ مختلف ایجنسیوں کے مابین خفیہ اطلاعات کے دینے اور لینے پر زور دیا گیا۔ بین الاقوامی تعاون میں بھی اضافہ کیا گیا۔ پولیس سسٹم کا ڈھانچہ مضبوط کیا گیا۔ ہر بڑے شہر میں این ایس جی کی ٹکڑی تعینات کی گئی۔ سمندری تحفظ پر بھی کافی زور دیا گیا۔ سیکورٹی سسٹم میں کافی سرمایہ کاری میں اضافہ کیا گیا۔
پھر بھی کچھ گڑبڑیاں بنی ہوئی ہیں۔ جیسے کوسٹ گارڈ کے لیے کشتیاں تو خریدی گئیں، لیکن بہتر رکھ رکھاؤ کی کمی کے سبب وہ سب خراب ہونے لگی ہیں۔ دہشت گردوں کی مالی اعانت کو روکنے کے لیے تیزی سے کام تو کیا گیا، اور ایسا پہلی مرتبہ ہوا، کیوں کہ تب تک ہماری ساری توجہ دہشت گردوں کے لیے اسلحوں کی فراہمی روکنے کی ہوتی تھی۔ مگر منی لانڈرنگ نیٹ ورک کو ختم کرنے کی کوشش جس سنجیدگی سے ہونی چاہیے، اس کی کمی نظر آتی ہے۔
واضح ہو کہ مسئلہ کئی سطحوں پر ہے۔ ہم اس پر تو غوروخوض کرتے ہیں کہ جو حملہ ہوگیا ہے، اسے آگے کس طرح سے ناکام کیا جائے گا، لیکن مستقبل میں کس نئے انداز میں دہشت گردانہ واقعہ ہوسکتا ہے، اس پر ہم شاید ہی غور کرتے ہیں۔ دہشت گردی کا عالمی ٹرینڈ یہی بتاتا ہے کہ ایک بڑا حملہ دوسرے سے الگ ہوتا ہے۔ یہ فرق حکمت عملی، طریقے، ذرائع، سب کچھ میں نظر آتا ہے۔ دہشت گرد گروہ ہمیشہ ایسے حملے کے فراق میں رہتے ہیں جس کے لیے ہم تیار نہیں ہوتے۔ اس لیے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں یہ ضروری ہے کہ ہماری خفیہ اور جانچ ایجنسیاں حکمت عملی کی سطح پر دہشت گردوں سے ایک قدم آگے رہیں۔ تبھی ہم ان سوراخوں کو بھرپائیں گے، جن کا فائدہ دہشت گرد گروپ اٹھاسکتے ہیں۔
مقامی پولیس کو بھی، جو دہشت گردانہ حملہ کو روکنے کے لیے فوراً جائے وقوع پر پہنچتی ہے، اسپیشل ٹریننگ درکار ہے۔ انہیں ایسے سازوسامان ملنے چاہئیں کہ وہ تھوڑی دیر کے لیے ہی سہی دہشت گردوں سے لوہا لے سکیں۔ مگر اب تک ایسی کسی مہم کی شروعات نہیں ہوسکی ہے۔ کہنے کے لیے معیاری آپریٹنگ طریق کار(ایس او پی) بنائے گئے ہیں۔ اس کے تحت ہر بڑے سرکاری اور نجی مراکز پر افسران کی تقرری کی گئی ہے۔ لیکن ان ضوابط پر سنجیدگی سے عمل ہوتے ہم نے شاید ہی دیکھا ہے۔ مال وغیرہ میں گاڑیو ںکی جانچ جس لاپروائی سے ہوتی ہے، کیا اس سے ہم دہشت گردوں کو روک سکتے ہیں؟
اب دہشت گرد تنظیمیں جدید تکنیک کا خوب استعمال کرنے لگی ہیں۔ شام میں ہی اسلامک اسٹیٹ(آئی ایس) نے ڈرون سے بم گرائے اور اپنے گرگوں کو ہدایات دیں۔ گزشتہ دنوں افغانستان کی خفیہ ایجنسی نے بھی وضاحت کی کہ مقامی دہشت گرد تنظیمیں بمباری میں ڈرون کا استعمال کرنے لگی ہیں۔ اپنے یہاں بھی جموں و کشمیر اور پنجاب میں سرحد پار سے ڈرگس اور اسلحوں کی کھیپ ڈرون سے پہنچائی گئی۔ یہ تمام مثالیں بتارہی ہیں کہ اپنے ناپاک منشا کو پورا کرنے کے لیے دہشت گرد نئے نئے طریقوں سے جدید ٹیکنالوجی کو عمل میں لارہے ہیں۔ نوجوانوں کو گمراہ کرنے اور اپنے پروپیگنڈے کے لیے اس کا استعمال تو کافی پہلے سے وہ کرہی رہے ہیں۔ پھر بھی ہمارا ردعمل ڈھیلا ہے۔ حکومت یہ یقینی ہی نہیں بناپارہی ہے کہ اس کا توڑ کس طرح نکالا جائے۔ مسئلہ بڑھ جانے پر انٹرنیٹ خدمات کو بند کردینا واحد حل سمجھا جاتا ہے، جب کہ اصلیت میں ہمیں اپنا نگرانی سسٹم اس قدر وسیع کرنا چاہیے کہ انٹرنیٹ پر روک لگائے بغیر ہم دہشت گردوں کے پروپیگنڈے کو تباہ کرسکیں۔
مشکل یہ بھی ہے کہ تفتیشی ایجنسیوں کی کئی تجاویز حکومت کے پاس زیرغور ہیں۔ ان پر توجہ ہی نہیں دی جارہی۔ مثلاًجموں و کشمیر کی سرحد پر اسکینر لگانے کا مطالبہ عرصہ سے ہورہا ہے، تاکہ سرحد پار سے ہونے والی ٹرکوں کی آمدورفت پر نگرانی رکھی جاسکے اور ان کے ذریعہ اسلحوں، ڈرگس یا دیگر سازوسامان کی اسمگلنگ روکی جاسکے۔ مگر گزشتہ دو دہائیوں سے یہ تجاویز فائلوں میں دھول پھانک رہی ہیں۔ نگروٹا دہشت گردانہ حملہ میں ہی جس طرح سے بین الاقوامی سرحد پار کرکے دہشت گرد آئے، اس اسکینر کی ضرورت کہیں زیادہ محسوس کی جانے لگی ہے۔ضرورت سماجی کشیدگی کو کم کرنا بھی ہے۔ ہمیں یہ قبول کرنا ہوگا کہ ملک میں کچھ لوگ اور تنظیمیں شدت پسندی کی راہ پر چل پڑے ہیں۔ اس پر بروقت غور کیا جانا ضروری ہے۔ سماجی کشیدگی ایسے عناصر کے لیے کھاد پانی کا کام کرتی ہے۔ ہمیں اس پر روک لگانا اس لیے بھی ضروری ہے، کیوں کہ اس کا فائدہ دہشت گرد گروپ اٹھاسکتے ہیں۔ اجمل قصاب کے زندہ پکڑے جانے سے پاکستان کے لیے ممبئی حملہ میں اپنے ملوث ہونے کو مسترد کرنا مشکل ہوگیا تھا، اس لیے اگلی بار وہ یہی کوشش کرے گا کہ کوئی دہشت گردیا تو زندہ نہ پکڑا جائے، یا پھر وہ ہندنژاد ہو۔ ایسے میں وہ ان شدت پسند جماعتوں کا استعمال ہمارے ہی خلاف کرسکتا ہے۔ وہ قطعی نہیں چاہے گا کہ اگلے حملہ کا تانابانا خود اس سے جڑتا نظر آئے، تاکہ عالمی اسٹیج پر اسے پھر سے کھری کھوٹی سننے کو ملے۔
واضح ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ ختم ہونے والی نہیں ہے۔ ایسا نہیں ہوسکتا ہے کہ کسی ایک گروپ کو ختم کرکے ہم دہشت گردی پر فتح پالیں، بالخصوص جب پاکستان جیسا ملک ہمارا بغل گیر ہو۔ لہٰذا دہشت گردانہ منصوبوں پر قبل ازوقت پانی پھیر دینا ہی ہماری تفتیشی اور خفیہ ایجنسیوں کی بڑی فتح ہوگی اور یہی ہمارا چیلنج بھی ہے۔
(بشکریہ: ہندوستان)
(مضمون نگار سینئر فیلو، آبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن ہیں)
 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS