کوٹا سری راج
(مترجم: محمدصغیر حسین)
بابومیڈیکل کچرے سے موثر طور پر گلوخلاصی اتنی ہی اہم ہے جتنی کورونا وائرس سے پیداشدہ بحران سے نبردآزمائی ضروری ہے۔ وگرنہ ہم کو ثانوی مرحلے سے دوچار ہونا پڑے گا۔
تصور کیجیے کہ تباہ کن کووڈ-19کے عقب میں ایک زبردست تباہ کن عوامی وبا اپنی تمام حشر سامانیوں کے ساتھ در کر آئی جو ماحولیات کے خطرے میں بھی اضافہ کردے تو کیا ہوگا۔ یہ کوئی بعید ازقیاس بحران نہیں۔ اگر عالمی وبا سے نبردآزمائی کے دوران اسپتالوں سے نکلنے والا بایومیڈیکل کچرا یوں ہی ڈھیر ہوتا گیا اور اس کو معقول طریقے سے نمٹایا نہ گیا تو ایک اور وبائی بحران کا سامنا کرنے کے لیے ہم کو تیار رہنا چاہیے۔ حالیہ اعدادوشمار کے مطابق اب تک کووڈ-19سے ہونے والی ہلاکتیں ایک لاکھ اور فعال معاملات کی تعداد دس لاکھ تک پہنچ گئی ہے۔ یہ صورت حال اور بھی بدتر ہوسکتی ہے۔ اگر بے دلی اور سنگدلی سے بابومیڈیکل کچرے کے نمٹارے کی وجہ سے ملک کے طول و عرض میں وبا کی ایک ثانوی لہر آجائے۔ لاتعداد اسپتال، طبی مراکز، مردہ خانے، قبرستان، شمشان، ایمبولنس پارکنگس، یہاں تک کہ رہائشی علاقوں میں کوڑے کے انبار، بے احتیاطی سے پھینکے گئے PPEکٹوں، دستانوں، سوٹوں اور ماسکوں سے بھرے پڑے ہیں۔ ایسا تب ہورہا ہے جب مرکزی آلودگی کنٹرول بورڈ (Central Pollution Control Board/CPCB) کی رہنما ہدایات ہیں کہ کووڈ-19سے متعلق کچرے کو دہرے طور پر پیک کیا جائے اور اس پر لیبل لگایا جائے۔ لیکن چاروں طرف بکھرے کوڑے کچرے کے ڈھیروں پر نظر ڈالی جائے تو اس بات کا بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ بورڈ کی ہدایات کی پابندی نہیں کی جارہی ہے۔ اس بایومیڈیکل کچرے میں وائرس ہوتے ہیں جو صحت مند افراد خاص طور پر صفائی کارکنان اور وہ افراد جو کوڑے کے ذخائر اور کوڑا جلانے کی بھٹیوں میں فضلات کی تقسیم کا کام کرتے ہیں، انہیں متاثر کرسکتے ہیں۔ دہلی میں بایومیڈیکل کچرے کے دو ٹریٹمنٹ پلانٹس ہیں جو ہر روز 63ٹن میڈیکل کچرے کو ٹریٹ کرسکتے ہیں۔ لیکن Toxic Links کے ایک مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ میڈیکل کچرے کے زیادہ تر حصے کو میونسپل ٹھوس کچرے کی صورت میں پھینک دیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ، اس سے بھی زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ بایومیڈیکل کچرا پیدا کرنے والی بہت سی اکائیاں دہلی پولیوشن کنٹرول بورڈ میں رجسٹرڈ نہیں تھیں۔
مطالعے سے یہ بھی انکشاف ہوا کہ 27.9% اسپتالوں میں لازمی نیڈل کٹر نہیں تھے۔ اسی طرح 34%طبی مراکز میں میڈیکل کچرے کو ڈھونے کے لیے گاڑیاں نہیں تھیں جس کے نتیجے میں اسے ہاتھوں سے مریضوں کے علاقوں سے گزر کرلے جایا جاتا تھا۔ اس مایوس کن صورت حال کا ایک اور تاریک پہلو یہ تھا کہ 26.4%اسپتال اپنے سیال میڈیکل فضلات کو عوامی سیوریج سسٹم میں انڈیل دیا کرتے تھے۔ ایسی پریشان کن صورت حال میں ہندوستان یقینی طور پر اس متعدی بیماری سے پیداشدہ بایومیڈیکل کچرے کو سنبھالنے کے قابل نہیں ہے۔ بایومیڈیکل کچرے کی پیداوار اور نمٹارے کی صورت حال اس قدر سنگین ہے کہ حال ہی میں راجیہ سبھا میں اس موضوع پر مرکزی وزیرداخلہ کو سوالات کے جوابات دینے پڑے۔ Science Direct, India مجّلے میں شائع ہونے والے ایک مقالے کے مطابق، ملک میں سردست تقریباً دو کلومیڈیکل کچرا فی بیڈ کے حساب سے نکلتا ہے جس میں اعضاء بدن سے متعلق، خلیہ پاش(Cytotoxic) اور دھاردار فضلات شامل ہیں لیکن وبا کے دوران اس میں کئی گنا کا اضافہ ہوسکتا ہے۔ وبا کے شدت اختیار کرنے سے قبل دہلی میں میڈیکل کچرے کا اوسط 25ٹن یومیہ تھا لیکن جولائی میں یہ 349ٹن یومیہ ہوگیا۔ اسی طرح ممبئی میں جون میں میڈیکل کچرے کی پیداوار 12,200ٹن تھی جو بڑھ کر اگست میں 24,889ٹن ہوگئی۔ کچرے کے اس سیل بے کنار نے پہلے سے ہی چرمرا رہے کچرا بندوبست کے ڈھانچے کو زمیں بوس ہونے کی کگار پر کھڑا کردیا ہے۔ اس سے پہلے کہ میٹرو شہر، بایومیڈیکل کچرے سے لبریز ہوجائیں، اس مسئلے پر توجہ دینے کی فوری ضروت ہے اور اس سلسلے میں حکومت کی رہنما ہدایات کی پابندی ضروری ہے۔
قاعدے کے مطابق کچرے کو سب سے پہلے، قابل بازگردانی(Recyclable) اور ناقابل بازگردانی (Non-Recyclable) کوڑے دانوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ پھر اسے 72گھنٹوں کے لیے علیحدہ چھوڑ دیتے ہیں تاکہ اس کی تعدیاتی شدت(Infections Intensity) نارمل ہوجائے۔ طبی اداروں کی تفتیش گاہے بہ گاہے ہونی ضروری ہے تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ وہ بایومیڈیکل کچرے کو احتیاط کے ساتھ نمٹانے کے لیے لازم سازوسامان رکھتے ہیں یا نہیں۔ اس سے بھی زیادہ اہمیت کی بات یہ ہے کہ سیال میڈیکل فضلات کو لازمی ٹریٹمنٹ کے لیے بایومیڈیکل فضلات کو جمع کرنے والی مجاز کمپنیوں کو سونپا جانا چاہیے نہ کہ اسے سیوریج سسٹم میں انڈیل دیا جائے۔
مغربی ممالک، کورونا وائرس سے پیداشدہ میڈیکل کچرے کے بندوبست کے میدان میں اعلیٰ معیارات قائم کررہے ہیں اور ان کی اعلیٰ انتظامی مہارت اس بات کی مظہر ہے کہ وہ آخر کیوں تیزی سے ازسرنو اپنے پیروں پر کھڑے ہورہے ہیں۔ اس ضمن میں فرانس اور جرمنی نے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ انہوں نے ہر طبی مرکز سے نکلنے والے کچرے کا ریکارڈ رکھا اور اس بات کو یقینی بنایا کہ پورے کا پورا کچرا معقول اور مناسب طور پر بھٹیوں میں جلادیا جائے۔ اس کے علاوہ انہوں نے اور بھی ترقی یافتہ اقدامات کیے ہیں مثلاً طبی مراکز میں کوڑے دانوں کی سوڈیم ہائی پوکلورائٹ (Sodium Hypochlorite) سے مستقل دھلائی وغیرہ۔
فرانس نے اس سلسلے میں ایک قدم بڑھ کر اُن کنبوں پر توجہ مرکوز کی جہاں مریض قرنطینہ میں ہیں۔ اہلکاروں نے گھروں سے ہی میڈیکل کچرا اٹھوا لیا تاکہ نادانستہ طور پر دوسروں کو متعدی مرض نہ ہوجائے۔ قرنطینہ والے گھروں کے ساکنین کو یہ سہولت دی گئی کہ وہ نسخہ دکھا کر فارمیسیوں سے مہربند ہوجانے والے کوڑے دان بلامعاوضہ حاصل کرلیں اور پھر اس کوڑے دان میں کچرا ڈال کر اچھی طرح مہربند کرلیں اور اسے اہلکاروں کے حوالے کردیں۔ دوسری جانب جرمنی نے بویریا(Baveria) میں کچرا جلانے کے لیے مخصوص بھٹیوں کا انتظام کردیا۔ ان اقدامات نے ان ملکوں کو بایومیڈیکل کچرے کے اثرات بد سے محفوظ رکھا۔ بایومیڈیکل کچرے کی پیداوار اور اسے موثر طور پر نمٹانا، دونوں ہی اہم ہیں۔ وگرنہ بصورت دیگر ہمیں ثانوی لہر کے روبرو ہونے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔
(بشکریہ: دی پائنیر)
(مضمون نگار ایک مشہور ومعروف ماحولیاتی صحافی اور کالم نگار ہیں)