ابھیشیک کمار سنگھ
(مترجم: محمد صغیر حسین)
پانچ سال پہلے 2015میں پیرس تبدیلیٔ آب و ہوا کانفرنس میں قابل ذکر پہل کرتے ہوئے ہندوستان نے زیادہ دھوپ والے سو ملکوں کا ایک شمسی گروپ بنانے کا اعلان کیا تھا۔ اس کا مقصد اگر ایک جانب شمسی توانائی سے بھرپور 102ملکوں کو ایک پلیٹ فارم پر لانا اور بین الاقوامی شمسی توانائی بازار کو فروغ دینا تھا تو دوسری طرف خود اپنے ملک میں بھی شمسی بجلی پیداوار میں حوصلہ افزا اضافہ کرنا تھا۔
اس وقت یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ اگر یہ اتحاد مکمل طور پر جلوہ گر ہوتا ہے تو دنیا کی کایاپلٹ ہوجائے گی اور ساتھ ہی ساتھ ہندوستان کی تقدیر بھی بدل سکتی ہے۔ سب سے زیادہ اثر خود ہندوستان کے اندر ہونے کی امید دلائی گئی تھی کیوں کہ آئندہ سات سالوں یعنی 2022تک ہندوستان میں ایک لاکھ میگاواٹ(ایک سو گیگاواٹ) شمسی بجلی بنانے کا ہدف مقرر کیا گیا تھا۔
اسی مہینے گجرات کے کچھ علاقے میں بننے والے، دنیا کے سب سے بڑے قابل تجدید توانائی پارک کی بنیاد رکھی گئی۔ ہندوپاک سرحد کے قریب بھُج سے 72کلومیٹر دور شمال کی جانب کھاوڑا میں مکمل طور پر بنجر زمین پر بننے والا یہ شمسی توانائی پارک 72,000 ہیکٹیئر سے زیادہ زمین پر پھیلا ہوگا۔ شمسی بجلی بنانے کی اِن کوششوں سے واضح ہوتا ہے کہ ہندوستان اور اسی طرح کی پہل کرنے والے دوسرے ممالک، کرۂ ارض پر کاربن کے اخراج سے پیدا ہونے والے مسائل کو حل کرنے کی کوششیں کررہے ہیں۔
توانائی کے لیے سورج پر انحصار کی کئی وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ تو یہ ہے کہ توانائی حاصل کرنے کے جو دوسرے وسائل ہیں، اُن کے ذخائر یا تو بہت ہی محدود ہیں یا پھر اُن سے کئی خطرات وابستہ ہیں۔ مثلاً حرارتی بجلی پلانٹوں میں تیل یا کوئلے کو جلاکر بجلی پیدا کی جاتی ہے اور یہ دونوں ہی مآخذ مستقبل میں ختم ہوسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان سے کاربن ڈالی آکسائڈ جیسی گرین گیسوں کا اخراج ہوتا ہے جس سے عالمی درجۂ حرارت میں اضافہ جیسے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔
اس کے علاوہ پانی سے دیوپیکر ٹربائن چلا کر جو بجلی پیدا کی جارہی ہے، اُس کی بھی اپنی حدیں ہیں۔ ضرورت میں اضافے کے ساتھ ساتھ باندھوں میں بھی توسیع کی جارہی ہے۔ لیکن زلزلوں میں باندھوں کے تباہ ہوجانے اور قیامت صغریٰ جیسے حالات پیدا ہوجانے کا خطرہ ہمیشہ برقرار رہتا ہے۔ ان بڑے باندھوں میں جمی گاد سے بڑی مقدار میں میتھین (Methane) گیس خارج ہوتی ہے جو گرین گیسوں کی مقدار میں اضافہ کرتی ہے۔
اسی طرح نیوکلیائی پلانٹوں سے صاف توانائی تو حاصل ہوتی ہے اور اس کا ماحول پر بھی براہ راست کوئی منفی اثر نہیں ہوتا لیکن دوسرے خطرات کافی زیادہ ہیں مثلاً زلزلے، سنامی یا جنگ کی حالت یں اگر نیوکلیائی پلانٹوں کو کوئی نقصان پہنچتا ہے تو اُن سے خطرناک ریڈی ایشن پھیل سکتا ہے جو تمامجانداروں کے لیے انتہائی مہلک ہوگا۔
اس کے علاوہ نیوکلیائی پلانٹوں سے نکلنے والے ریڈیوایکٹیو(Radioactive) فضلات کے محفوظ نمٹارے کا مسئلہ بھی پیدا ہوتا ہے۔ ایسے میں جوہری توانائی کو ایک محفوظ متبادل تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔ یوں تو حیاتیاتی ایندھن(Biofuel)، ہوا اور زمینی حرارت سے بھی بجلی پیدا کی جاتی ہے لیکن یہ توانائیاں اس قدر کارگر نہیں ثابت ہوئیں جس قدر شمسی توانائی مفید اور نافع ہے۔ شمسی بجلی پیدا کرنے کے لیے ہمارے ملک میں، راجستھان اور گجرات میں بڑے پلانٹس لگائے جارہے ہیں۔ حالاں کہ شمسی توانائی حاصل کرنے کے لیے ضروری نہیں کہ بڑے پلانٹ ہی لگائے جائیں۔
گھروں کی چھتوں پر بھی چھوٹے چھوٹے پلانٹ لگائے جاسکتے ہیں۔ بہرحال، توانائی کے سارے وسائل کی صلاحیت اور اُن کے مثبت اور منفی پہلوؤں کے مطالعے سے جو نتیجہ نکلتا ہے وہ یہ ہے کہ مستقبل میں سورج ہی ہماری توانائی کا سب سے بڑا مآخذ اور منبع ہوگا۔ خاص طور سے خط سرطان اور خط جدّی کے درمیان واقع قریب سو ملکوں کے لیے شمسی توانائی ایک نعمت ثابت ہوسکتی ہے کیوں کہ ان ملکوں میں موسم باراں کو چھوڑ کر پورے سال اچھی دھوپ کھلی رہتی ہے۔ یہ ممالک اگر شمسی توانائی کا استعمال بڑھا دیں تو نہ صرف یہ اپنی کافی ضرورتوں کو اس منبع سے پوری کرسکیں گے بلکہ دنیا میں کاربن اخراج میں بھی زبردست کمی آئے گی۔
زمین پر سورج سے آنے والی شعاعوں کی طاقت کا اندازہ لگاتے ہوئے آئی ای اے (International Energy Agency) نے سال 2014میں ایک رپورٹ پیش کی تھی جس کا اندازہ یہ ہے کہ 2050تک شمسی توانائی سے ہی سب سے زیادہ مقدار میں بجلی بنائی جارہی ہوگی۔ اس اندازے کے مطابق شمسی توانائی کی ایک تکنیک سولر فوٹووولٹک(PV) سسٹم سے 2050تک دنیا کی ضرورت کی 16% بجلی دنیا میں پیدا کی جارہی ہوگی۔ اس کی دوسری تکنیک_سولر تھرمل الیکٹریسٹی(STE) سے قریب 11% بجلی بھی الگ سے مل رہی ہوگی۔ ان دونوں شمسی تکنیکوں سے 2050تک اتنی بجلی مل سکے گی جس سے تقریباً چھ ارب ٹن کاربن ڈائی آکسائڈ کا اخراج ہر سال روکا جاسکے گا۔ یہ مقدار سردست پوری دنیا کے میدان نقل و حمل کے ذریعہ خارج کی جارہی کاربن ڈائی آکسائڈ کے برابر ہے۔
فی الحال ہندوستان میں 59% بجلی کوئلے سے بنائی جاتی ہے۔اسے تھرمل بجلی کہتے ہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ کوئلے سے پیدا ہونے والی بجلی سب سے سستی پڑتی ہے۔ ملک میں 17%بجلی باندھوںسے، 9%بجلی قدرتی گیسوں سے، 3%بجلی نیوکلیائی پلانٹوں سے اور 12%بجلی ہوا یا سورج کی تمازت سے حاصل کی جاتی ہے۔ نیوکلیائی پلانٹوں سے ملنے والی بجلی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ دوسرے وسائل کے مقابلے میں یہ مستقبل میں کافی ارزاں پڑے گی۔
جو لوگ شمسی بجلی کے حامی ہیں وہ اس کے حساب و کتاب کو سمجھتے ہوئے کہتے ہیں کہ جیسے جیسے شمسی توانائی کا فروغ ہوگا،اس کی لاگت کم ہوتی جائے گی اور مستقبل قریب میں یہ توانائی کا سب سے سستا متبادل ہوگا۔ فی الحال ہمارے ملک میں شمسی بجلی کی ایک یونٹ کی اوسط قیمت 6.50روپے پڑتی ہے جو کوئلے سے ملنے والی بجلی کے مقابلے میں اوسطاً 14%زیادہ ہے۔
ہندوستان میں شمسی بجلی اس لیے مہنگی ہے کیوں کہ اس کی پیداوار سے متعلق منصوبوں پر دیر سے عمل شروع ہوا۔ جرمنی میں شمسی بجلی کی پیداوار 2001میں شروع ہوگئی تھی جبکہ ہندوستان میں اس کی شروعات 2012میں ہوئی اور اس وقت کے 25میگاواٹ پیداوار سے حال تک صرف1760میگاواٹ تک ہوپائی ہے۔
دنیا کو شمسی توانائی کی موافقت محض اس لیے نہیں کرنی چاہیے کہ وہ رفتہ رفتہ ارزاں ہوتی جائے گی بلکہ اس کی ضرورت اس لیے بھی ہے کہ باندھ بناکر یا حرارتی بجلی گھر لگاکر بھی مستقبل کی توانائی ضرورتوں کو پورا نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اس کے برعکس زمین ہر سال تقریباً ایک لاکھ بیس ہزار ٹیراواٹ شمسی توانائی حاصل کرتی ہے جبکہ دنیا بھر کی بجلی کی سالانہ ضرورت فی الحال محض15-20ٹیراواٹ ہی ہے۔
اندازہ تو یہ بھی ہے کہ نسل انسانی کو اس وقت جس قدر بجلی پورے ایک سال میں درکار ہوتی ہے، اس قدر توانائی تو سورج صرف ایک دن میں زمین کو بخش دیتا ہے۔ ظاہر ہے اگر ہم شمسی توانائی کو سمیٹ سکیں تو اپنی ضرورتیں ہی پوری نہیں کرسکیں گے بلکہ کرئہ ارض جیسے اور سیاروں کو بھی تابانی اور درخشانی عطا کرسکتے ہیں۔
(صاحب مضمون مشہور کالم نویس ہیں)
(بشکریہ: جن ستّا)