ویلسن تھمپو
(مترجم:محمد صغیر حسین)
مارچ 1992 میں ایک 21سالہ نن کی لاش اُس کے کونونٹ کے کنویں سے برآمد کی گئی تھی۔ کیرالہ میں جو سچائی ہر خاص و عام کی زبان پر تھی، اُس کو صحیح ثابت کرنے میں ہمارے نظامِ عدل کو 28سال لگ گئے۔ کیرالہ نے اس وقت راحت کی سانس لی جب 23دسمبر 2020کو ایک سی بی آئی عدالت نے مجرمین فادر تھامس کو ٹّور اور سسٹر سیفی کو سزا سنادی۔ اُن کو 28سالہ قید کی سزا دی گئی۔
قتل کے وقوع کے دن، مقتولہ سسٹر ابھیا صبح سویرے جب پانی پینے کے لیے باورچی خانے گئیں تو انہوں نے ملزمین کو ’’کارِدیگر‘‘ میں مصروف دیکھ لیا۔ ملزمین نے اُن کو قتل کرکے اُن کی لاش کو کنویں میں پھینک دیا تاکہ بدنامی سے بچا جاسکے اور لوگوں کو یہ لگے کہ یہ خودکشی کا ایک معاملہ ہے۔
سسٹر ابھیا کے قتل کے بعد ’پراسرار حالات‘ میں ننوں کی موت کا سلسلہ جاری ہے۔لیکن اُن میں سے کسی واقعہ کی نہ تو جانچ پڑتال ہوئی نہ ہی اُن کی موت کے اسباب کی تصدیق ہوئی، متعلقہ چرچ جو کیرالہ میں زبردست معاشی اور سیاسی رسوخ کا حامل ہے، اُس نے بھی تادم تحریر اس بات کا اشارہ تک نہیںدیاکہ وہ ان اموات کی تفتیش چاہتا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اگر ہندوستان کے کسی دورافتادہ مقام پر کسی نن کی عصمت دری کا کوئی واقعہ ہوجائے تو کیرالہ کے تمام چرچوں کے ارباب حل و عقد آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں، لیکن اُن کی ناک کے نیچے ننوں کا جو پیہم قتل ہورہا ہے اُس پر انہوں نے موت کی خاموشی اختیار کررکھی ہے۔ اُن کی مبینہ پالیسی یہ ہے کہ چرچ کسی بھی تفتیش میں دخل اندزی نہیں کرنا۔ شاید ایسا ہی ہو۔
لیکن سسٹرابھیا کیس میں چند سوالات ابھی بھی تشنہ جواب ہیں۔ کیرالہ پولیس اور کرائم برانچ نے کیس کو دبانے اور ختم کرنے کی ہرممکنہ کوشش کیوں کی؟ کس کی ایماء پر ایسا کیا گیا؟ چند تفتیش کاروں نے ثبوت کیوں مٹائے؟ یہاں تک کہ مزید تفتیش کے نام پر اُن ثبوتوں کو بھی تباہ وبرباد کردیا گیا جو عدالت سے حاصل کیے گئے تھے؟ ایک ایماندار سی بی آئی افسر سب سے پہلے اس نتیجہ پر پہنچا تھا کہ سسٹر ابھیا کا قتل ہوا تھا۔ آخر اُس افسر کو مدت ملازمت ختم ہونے کے دس سال قبل ہی ملازمت سے سبکدوش کیوں ہونا پڑا؟ ایک پریس کانفرنس کے ذریعہ اس افسر نے یہ انکشاف کیا تھا کہ اس کے سینئر افسران نے اُس کو مجبور کیا تھا کہ وہ اپنی تفتیش کے نتائج کو بدل کر یہ رپورٹ دے کہ ابھیا کا قتل نہیں ہوا تھا بلکہ اُس نے خودکشی کی تھی۔
آخر کیوں تفتیش کار افسران میں سے ایک افسر نے خودکشی کرلی؟ کیا ہم اس بات پر یقین کریں کہ پولیس افسران کو اس مقتولہ نن سے خدائی بیر تھا اور وہ ازخود اور فی الفور مقتولہ کو انصاف ملنے کے خلاف تھے؟ چرچ کا کوئی بھی موقف کیوں نہ ہو لیکن کیرالہ میں ہر کس و ناکس یہ جانتا ہے کہ چرچ ہمیشہ مجرم ارباب کلیسا کے شانہ بشانہ کھڑا ہوگا اور ایسے ہر معاملے میں وہ متاثرہ کے خلاف ہوگا۔
اس کے اسباب پر روشنی ڈالنا ضروری ہے:
جیسا کہ دو سال قبل پوپ فرانسس نے کہا تھا کہ ننوں کا جنسی استحصال کیتھولک چرچ میں حد سے زیادہ ہے۔ انہوں نے تو یہ تک کہنے میں تأمل نہیں کیا کہ ہزاروں ننس(Nuns) جنسی غلامی میں زندگی گزار رہی ہیں۔ وہ اپنی ذلت و خواری کے خلاف احتجاج تو کرتی ہیں لیکن وہ اپنے جنسی استحصال کو روکنے کی ہمت وجرأت نہیں رکھتیں۔ پوپ نے اس کے دو اسباب بتائے۔ پہلا یہ کہ جن ننوں کی عصمت سے کھلواڑ کیا جاتا ہے وہ خوب جانتی ہیں کہ سسٹم کے خلاف لڑنا ناممکن ہے۔ دوسرے یہ کہ اُن کے ذہنوں میں یہ بات بٹھا دی جاتی ہے کہ اپنے بڑوں(Superiors) کے آگے سرخم تسلیم کرنا اُن کا روحانی فریضہ ہوتا ہے۔
وہ خاموشی سے جہنم جیسی زندگی برداشت کرتی رہتی ہیں۔ لیکن سب ایسا نہیں کرپاتیں۔ کیرالہ کی ایک نن نے 2018میں کچھ حوصلہ دکھایا تھا۔ اس نے اپنے بشپ فرینکو مولکّل(Franko Mulakkal) کے خلاف پولیس میں شکایت درج کرائی تھی کہ بشپ نے بار بار اس کی عصمت تار تار کی ہے۔ چرچ کے ہمدردوں نے یہ الزام لگا کر اُس کو رسوا کرنے کی کوشش کی کہ وہ بدکردار ہے۔ ایک مدت مدید تک عوامی احتجاجات نے بالآخر پولیس کو اس کی شکایت پر کارروائی کرنے کے لیے مجبور کیا۔ اس کیس میں بھی، چرچ نے متاثرہ سے کنارہ کشی اختیار کرلی اور مبینہ زانی کی حمایت میں کھڑا ہوگیا۔ گمان ہے کہ پادریوں اور بشپوں کے خلاف کریہہ جرائم کو ختم کرنے کے لیے قوت زر کا استعمال کیا گیا۔ لیکن یہ رقم کروڑوں سے تو کسی طور پر کم نہ رہی ہوگی۔
مزید یہ کہ چرچ مرتکبین جرم کو رہا کروا کر کیوں ممنون و مشکور ہونا چاہتا ہے؟ اس کا جواب اس حقیقت میں پوشیدہ ہے کہ پادریوں کے لیے تجرّد(کنوارے پن) کو لازمی قرار دیا گیا ہے۔ نہ صرف تجرّد بلکہ مکمل پارسائی مطلوب روحانی شِعار ہے۔ ایسی کوئی دینی پابندی نہیں ہے جو کسی کو مجرد رہنے پرمجبور کرے۔
دراصل یہ تصور کہ مرد و زن کے مابین جنسی مباشرف ایک گناہ ہے، غیرمنقول ہے کہ یہ بائبل کے نظریہ حیات سے متضاد ہے۔ تعجب کی بات ہے کہ جب خاندان منصوبہ بندی کی بات ہوتی ہے تو یہی کیتھولک چرچ افزائش حیات کا موقف اختیار کرتا ہے لیکن مرد و زن کے تعلقات کے ضمن میں افزائش حیات مخالف رویہ اختیار کرتا ہے۔ چنانچہ یہ دونوں راہیں اپناتا ہے۔ موقع کی مناسبت سے ہی یہ ’ہاں‘ اور ’نہیں‘ کہتا ہے۔ یہی منافقت پادریوں اور ننوں میں جنسی جرائم کی کثرت کی جڑ ہے۔ بالفاظ دیگر، چرچ خود کو اِن جرائم کی ذمہ داری سے نہیں بچا سکتا۔ افراد خلاف معمول طرزعمل اختیار کرتے ہیں کیوں کہ اُن کو غیرفطری شرطوں کے ساتھ جینا پڑتا ہے۔
چوں کہ یہ مرض کثرت سے پھیل گیا ہے، اس لیے چرچ کے لیے متاثرین کو محض امید کی ایک رمق دکھانا بھی گراں ثابت ہوگا کہ وہ چرچ کے مفادات کے خلاف انصاف طلبی کرسکتے ہیں۔ ننوں کے قتل کا سلسلہ اس متعدی مرض کی علامات ہیں۔
چرچ نہ تو جنسی بھوک سے گرانبار پادریوں کی جنسی جبلت پر ڈھکن ڈال سکتا ہے اور نہ ہی انہیں راتوں کو ’کوچۂ ملامت‘ میں گھومنے کی اجازت کا متحمل ہوسکتا ہے۔ اُن کے پاس ایک ہی متبادل بچتا ہے کہ اپنی شبینہ آرزوؤں کی تکمیل کونونٹ کی چہاردیواریوںکے اندر ہی کریں جہاں معصوم لڑکیاں جو زیادہ تر غریب کنبوں سے لائی جاتی ہیں، اُن کی شکار بنتی ہیں کیونکہ وہ مدافعت سے محروم ہوتی ہیں۔ انہیں رومانوی گمراہ کن مغالطہ دے کر کانونٹس میں داخل کیا جاتا ہے کہ وہ ’’یسوح(Jesus) کی دلہنیں‘‘ بنیں گی۔ اگر پوپ فرانسس کی مانیں تو ایسی ہزاروں لڑکیا ں(Nuns) درحقیقت جنسی غلامی میں زندگی گزارتی ہیں۔
پوپ کے الفاظ یہاں نقل کیے جاتے ہیں: ’’دہائیوں در دہائیوں سے کیتھولک چرچ میں جاری نابالغ بچوں کی بڑے پیمانہ پر جنسی غلامی کے تناظر میں یہ کوئی امر تعجب خیز نہیں ہے کہ ننیں بھی پادریوں کی جنسی غلامی میں زندگی گزارتی ہیں۔۔۔ ننوں اور بچوں کی جنسی غلامی انسانیت کے خلاف جرم ہے۔‘‘
چرچ کا تنظیمی دبدبہ اور معاشی قوت، بڑی حد تک، اس انسانی ایثار و قربانی پر منحصر ہوتی ہیں۔ ننوں کی ایک بڑی تعداد تجرد کو اپنی بلوغت سے قبل اس وقت اپنا لیتی ہے جب کہ وہ اس ضمن میں کوئی سمجھا بوجھا فیصلہ لینے کی استطاعت نہیں رکھتیں۔ایک بار کونونٹ میں داخل ہونے کے بعد، وہاں سے فرار ہونا ناممکن ہے۔ وہاں سے فرار ہونے کی بھاری قیمت انتہائی ذاتی پریشانیوں کی صورت میں چکانی پڑتی ہے۔ سسٹر جیسمے(Jesme) جنہوں نے وہاں سے راہِ فرار اختیار کیا اور جو زندہ بھی رہیں، ان کے خلاف گندے اور رسواکن پروپیگنڈے آج تک کیے جارہے ہیں۔ سب سے زیادہ بڑی پریشانی جو ایسی ننیں جھیلتی ہیں وہ اُن کی مالی پریشانیاں ہوتی ہیں۔ سسٹر لوسی کا معاملہ دیکھیں۔ انہوں نے پوری زندگی ہائی اسکول ٹیچر کی حیثیت سے گزاری۔ کانونٹ نے اُن کی آمدنی کی پائی پائی غضب کرلی۔ اب جب کہ وہ نگاہوں سے اترگئیں تو انہیں خالی جیب کونونٹ چھوڑنے پرمجبورکیا گیا۔ کلیسائی قانون (ـCanon Law) یہی کہتا ہے۔ یہ سمجھنے میں بہت زیادہ عقل و دانائی کی ضرورت نہیں کہ ایسے قوانین کو وضع کرنے کا مقصد، کونوینٹس سے فرار کو ناممکن بنادیا جائے۔
موجودہ صورت حال سے پیداشدہ مسئلے صرف چرچ سے متعلق نہیں ہیں۔ یہ حقوق انسانی سے متعلق مسائل ہیں۔ اگر ایک عورت اپنی مرضی کے خلاف پوری زندگی جنسی استحصال کا شکار ہوتی رہتی ہے تو یہ ایک مذہبی مسئلہ نہیں ہے۔ یہ حقوق انسانی اور تہذیبی قدروں کا ایک بڑا مسئلہ ہے۔
ننوں کا بس ایک جرم یہ ہے کہ انہوں نے نن بننے کا فیصلہ اس وقت کیا جب وہ اس قدر باشعور نہیں ہوئی تھیں کہ یہ جان پاتیں کہ وہ کہاں داخل ہورہی ہیں ۔ تو کیا ایسی لڑکیوں کو ہمیشہ جہنم میں رہنا چاہیے کیوں کہ انہیں مالی طور پر بے دست و پا کردیا جاتا ہے۔ اور یہ مسئلہ بھی کوئی مذہبی مسئلہ نہیں ہے۔ یہ صحیح وقت ہے کہ ان مسئلوں سے مذہیبت کا خوان پوش ہٹایا جائے۔ اگر کوئی مذہبی قانون، ہندوستان کے دستواراساسی میں مذکور اصول و نظریات کے مخالف ہے تو وہ ناقابل قبول ہوگا۔ کئی مذہبی قوانین ایسے ہیں۔ انہیں آئین اور عقل سلیم دونوں کا مذاق اڑانے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔
(صاحب مضمون سینٹ اسٹیفن کالج دہلی کے سابق پرنسپل ہیں)
(بشکریہ: دی اسٹیٹسمین)