ان داتا کی ’آزادی‘ کی نئی تحریک

0

مودی حکومت نے ملک کے کسانوں کی دَشا اور دِشا بدلنے کے اپنے ہدف کی جانب ایک قدم مزیدبڑھا دیا ہے۔ لوک سبھا میں اس ہفتہ کسان کلیان سے جڑے تین بل زرعی پیداوار ٹریڈ اینڈ کامرس(فروغ اور آسانیاں)2020، کسان(امپاورمنٹ اینڈپروٹیکشن)معاہدہ بل 2020  اورضروری اشیا(ترمیمی) بل پاس ہوگئے۔ یہ تینوں بل اب ان آرڈیننس کی جگہ لیں گے جنہیں حکومت لاک ڈاؤن کے دوران لے کر آئی تھی۔ حکومت کا سوچنا ہے کہ یہ تینوں بل مل کر کسانوں کے معیار زندگی میں انقلابی تبدیلی لائیں گے اور اس سے کسانوں کی آمدنی کو دوگنا کرنے کا ہدف پورا کرنے میں آسانی ہوگی۔ حالاں کہ غیر این ڈی اے پارٹیوں اور پنجاب-ہریانہ جیسی اناج کی پیداوار کرنے والی اہم ریاستوں میں حکومت کی اس سوچ کو شک کی نظر سے دیکھا جارہا ہے۔
تکنیکی زبان سے الگ ہٹ کر آسان زبان میں سمجھ کر دیکھتے ہیں کہ ان بلوں کو لے کر حکومت کے دعوے اور مخالفین کے خدشات صرف سمجھ کا پھیر ہے یا پھر یہ واقعی کاشتکاری کی زمینی حقیقت ہے۔ حکومت دعویٰ کررہی ہے کہ اب کسان اپنی مرضی کا مالک ہوگا یعنی وہ منڈیوں اوربچولیوں کے جال سے نکل کر اپنی فصل کو اپنی پسند کے تاجروں یا کمپنیوں کو فروخت کرسکے گا۔ اس خرید-فروخت پر کسانوں کو اب منڈیوں میں کوئی فیس بھی نہیں دینی ہوگی۔ نئے زمانہ کی ضرورت کو دیکھتے ہوئے آلو-پیاز، اناج، دلہن کو ضروری اشیا کے 65سال پرانے ایکٹ سے آزاد کردیا گیا ہے۔ اس سے کسانوں کو سرکاری دخل سے نجات ملے گی اور غیرملکی سرمایہ کاری کو بڑھاوا ملنے سے کولڈ-اسٹوریج سہولتوں کی توسیع اور ملک گیر مارکیٹ کا راستہ کھل سکے گا۔ پہلے سے طے قیمت پر پیداوار کی فروخت ہونے سے کسانوں کو بچولیے کے جال سے نجات اور آخرکار کھیتوں میں بہے اپنے پسینے کی واجب قیمت مل سکے گی۔ 
قانون بننے پر یہ بل ان چھوٹے کسانوں کے لیے بہت بڑی راحت بن سکتے ہیں جنہیں کم زمین ہونے کی وجہ سے بڑے سرمایہ کار نہیں ملتے۔ ملک کے کل کسانوں میں سے 86فیصد چھوٹے اور معمولی کسان ہیں۔ نئے بل کی راہ آسان ہونے سے ان کسانوں تک پہنچنے والی نجی سرمایہ کاری کی راہ بھی آسان ہوجائے گی۔ صرف یہی ایک اعدادوشمار یہ سمجھنے کے لیے کافی ہے کہ زرعی شعبہ میں ان نئے بلوں کا کتنا بڑا مثبت اثر نظر آنے والا ہے۔ عام طور پر چھوٹے کسانوں کی پیداوار اتنی کم ہوتی ہے کہ اسے منڈیوں تک لے جانا فائدہ کا سودا نہیں ہوتا۔ بچولیے اس مجبوری کا فائدہ اٹھاکر دہائیوں سے چھوٹے کسانوں کا استحصال کرتے آئے ہیں۔ لیکن نیا نظام آنے سے اب نجی کمپنیاں چھوٹے کسانوں کے کھلیانوں تک پہنچ سکیں گی۔ اس سے پیداوار سے برآمد تک کے راستے آسان ہوسکیں گے اور چھوٹے کسانوں کو استحصال کی جگہ اپنے کنبوں کا مناسب ’تغذیہ‘ کرنے کا خواب سچ ہوسکے گا۔
یہ تمام تبدیلیاں انہیں خوابوں کو سچ کرنے کی کوشش ہے، جس کے لیے ہمارے کسان دہائیوں سے جدوجہد کررہے ہیں۔ پھر اس پر شکوک و شبہات کیوں؟ اپوزیشن کو لگتا ہے کہ نئی تبدیلی کی آڑ لے کر حکومت ایم ایس پی کا سسٹم ختم کردے گی۔ جب کہ حقیقت کچھ اور ہے۔ حکومت نے واضح کیا ہے کہ وہ سرکاری خرید کا سسٹم ختم نہیں کررہی ہے بلکہ فصل فروخت کرنے کے لیے کسانوں کو بہتر متبادل دے رہی ہے۔ اسی طرح کمیشن ایجنٹوں کو نئے قانون سے کمیشن بند ہونے کا ڈر پریشان کررہا ہے۔ پنجاب-ہریانہ میں اسے سے متعلق مخالفت اس لیے زیادہ نظر آرہی ہے، کیوں کہ اکیلے پنجاب میں 28,000سے زیادہ کمیشن ایجنٹ ہیں، دوسرا یہاں کے زیادہ تر گیہوں-چاول کی سرکاری خرید ایف سی آئی کے ذریعہ ہوتی ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ ان ریاستوں کے کسانوں کو گمراہ کیا جارہا ہے کہ اب ایف سی آئی ان کا گیہوں-چاول نہیں خریدے گی جس سے انہیں ایم ایس پی سے ہاتھ دھونا پڑے گا۔
انہیں کوششوں کو دیکھتے ہوئے وزیراعظم نریندر مودی نے مخالفین پر کھلے عام جھوٹ بولنے اور بھرم پھیلانے کی بات کہی ہے۔ مخالفین کو واضح الفاظ میں جواب دیتے ہوئے وزیراعظم نے امید ظاہر کی ہے کہ دہائیوں سے کسانوں سے جھوٹ بولنے والے اب انہیں اور نہیں ٹھگ سکیں گے کیوں کہ نئے بل اب کسانوں کے رکشا کوچ کا کام کریں گے۔بیشک وزیراعظم کے حملوں کا کلیور سیاسی لگ سکتا ہے، لیکن یہ بھی سچ ہے کہ کانگریس نے بھی 2019کے اپنے انتخابی منشور میں تینوں ہی بل کو شامل کیا تھا۔ اس لیے جب حکومت بھی اسی پالیسی پر کام کرہی ہے تو کانگریس کی مخالفت کسانوں کے مفاد میں کم، بلکہ انہیں سیاسی مہرا بنانے کی کوشش زیادہ نظر آتی ہے۔
سیاسی وجوہات سے بی جے پی کی سب سے پرانی اتحادی شرومنی اکالی دل کے کوٹے سے وزیر ہرسمرت کور کے استعفیٰ کو بھی اسی لیے زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا جارہا ہے۔ گزشتہ ماہ تک اکالی دل آرڈیننس کی حمایت کررہا تھا، لیکن پنجاب میں کسان تحریک زور پکڑگئی تو اکالی دل کو ریاست میں ڈیڑھ سال بعد ہونے والے الیکشن میں ووٹ بینک کھسکنے کا خطرہ نظر آنے لگا۔ ہرسمرت کور کا استعفیٰ اس لیے بھی ڈیمیج کنٹرول زیادہ نظر آتا ہے، کیوں کہ ان کی پارٹی نے گٹھ بندھن توڑنے یا حکومت سے حمایت واپس لینے کا فیصلہ ٹالا ہوا ہے۔
اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ چاہے ’روٹھے‘ اتحادی ہوں یا ’حملہ آور‘ اپوزیشن، مخالفت کا سُر اس لیے زیادہ اونچا نہیں لگ پاتا کیوں کہ دونوں ہی جانتے ہیں کہ موجودہ حکومت نے اپنی دونوں مدت کار میں کسانوں کے لیے کافی کام کیے ہیں۔ حکومت نے سوامی ناتھن آیوگ کی سفارشات کے مطابق دھان، گیہوں، مونگ پھلی جیسی پیداوار کا ایم ایس پی زرعی لاگت قیمت سے ڈیڑھ گنا تک کیا ہے۔ زرعی شعبہ کو بڑھاوا دینے کی حکومت کی کوششوں سے ہی دلہن اور تلہن فصلوں کی ریکارڈ خریداری ممکن ہوپائی ہے۔ کورونا دور میں گرتی معیشت کے دوران سب سے پہلے باؤنس بیک کرنے والا سیکٹر بھی زراعت ہی تھا۔ دس سال پہلے زراعت کا جو کل بجٹ 12ہزار کروڑ روپے ہوا کرتا تھا، وہ اب بڑھ کر 1.34لاکھ کروڑ روپے تک پہنچ چکا ہے۔ نئے قوانین کے تحت نجی سرمایہ کاروں کے آنے سے زرعی شعبہ میں سرمایہ کی سطح مزید بہتر ہوگی۔
یہ سمجھنا مشکل نہیں ہے کہ سرمایہ اور سائنسی معلومات میں بہتری پیداوار بڑھانے میں معاون ہوگی۔ ایسا ہونے پر سال 2022تک کسانوں کی آمدنی دوگنی کرنے کا مودی حکومت کا بڑا مشن بھی پورا ہوسکے گا۔ یہ اتفاق نہیں ہے کہ اس ہدف کے لیے وزیراعظم نے آزادی کے 75ویں سال کو منتخب کیا ہے۔ آزادی سے کسانوں کا نزدیکی رشتہ ہے۔ فروری 1916میں کاشی ہندو یونیورسٹی کی افتتاحی تقریب میں باپو نے کہا تھا کہ آزادی وکیل، ڈاکٹر یا خوشحال زمیں داروں کے سبب نہیں، بلکہ کسانوں کے تعاون سے ممکن ہوگی۔ آزادی کے لیے باپو کی پہلی تحریک بھی چمپارن کے کسانوں کو انگریزوں کے ظلم اور ناانصافی سے آزاد کرنے کے لیے ہی تھی۔ حکومت کو امید ہے کہ آج کے دور میں کسانوں کو بچولیوں سے آزاد کرنے کا وہی کام نئے بل کرسکتے ہیں۔ شاید اسی لیے وزیراعظم نے کہا بھی ہے کہ 21ویں صدی میں ہندوستان کا کسان بندھنوں میں نہیں، کھل کر کھیتی کرے گا، جہاں دل چاہے گا اپنی پیداوار فروخت کرے گا اور اپنی آمدنی بھی بڑھائے گا۔‘
(کالم نگار سہارا نیوز نیٹ ورک کے 
سی ای او اور ایڈیٹر اِن چیف ہیں)
 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS