کلیم الحفیظ
تعلیم کو اگر شاہ کلید(Master key) کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا ۔مسائل کے پیدا ہونے کا سبب اگر جہالت ہے تو ان مسائل کا علاج اور حل علم اور تعلیم ہے۔ اس بات سے کسی بھی صاحب عقل کو اختلاف نہیں ہے کہ تعلیم دونوں جہاں میں کامیابی کے لیے ضروری ہے۔کسی زمانے میں بھی علم اور جہل برابر نہیں ہوئے ہیں ۔
ہمیشہ سے اہل علم قابل قدر نگاہ سے دیکھے گئے ہیں ۔دنیا سے ان کے چلے جانے کے بعد بھی ان کو یاد کیا گیاہے ۔ علم کی دولت تقسیم ہونے کے ساتھ بڑھتی رہی ہے۔اگر آپ اہل علم کی دولت کا مشاہدہ کرنا چاہیں تو لائبریریوں کا رخ کریں ۔دنیا کی عظیم الشان لائبریریاں علم کے خزانوں سے بھری ہوئی ہیں اور اہل علم کی عظمت کی گواہ ہیں۔اہل علم زمین پر ستاروں کی مانند ہیں ۔جب کہ قارونی خزانہ رکھنے والوں کو دنیا فراموش کردیتی ہے ۔اہل مال میں سے صرف وہی لوگ یاد رکھے گئے جنھوں نے اہل علم کے ساتھ مل کر کوئی بڑا علمی کارنامہ انجام دیا ۔مثال کے طور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی وجہ سے آج دنیا سرسید کو یاد کرتی ہے،ان کی قبر پر پھول چڑھاتی ہے،ان کی یاد میں ڈنر کا اہتمام کرتی ہے، ان کے نام پر ادارے بناتی ہے۔ ان کا مالی تعاون کرنے والوں کا بھی تذکرہ کتابوں میں موجود ہے۔ وہ اہل مال خوش قسمت ہیں جو اہل علم کے ساتھ مل کر ملک و قوم کے لیے تعلیمی ادارے قائم کرتے ہیں۔
مسلمان تعلیمی افق پر کم و بیش ایک ہزار سال تک ستاروں کی طرح جگمگاتے رہے۔ان کے علمی کارناموں سے بڑی بڑی لائبریریاں بھری ہوئی ہیں۔ان کے قلم کے ساتھ ساتھ ان کے تاج بھی چمکتے رہے۔جیسے جیسے ان کے قلم کی روشنائی سوکھتی رہی ویسے ویسے ہی ان کے تاج کی چمک ماند پڑتی رہی۔بالآخر قلم،کتاب اور تاج عجائب گھر کی زینت بن کر رہ گئے اور انگریزوں کے ہندوستان پر مسلط ہونے کے بعد مسلمان اپنی سلطنت کی بقا و تحفظ میں الجھ کر رہ گئے۔ایک طویل جدو جہد کے بعد ملک آزاد ہوا تو آزادی کے بعد سے کچھ ایسے مسائل میں الجھ گئے اور الجھا دیے گئے جنھوں نے ان کے اتحاد و اتفاق، ان کی معاشی قوت،ان کی اخلاقی ساکھ اور ان کی علمی برتری کو خاک میں ملا دیا۔اس بات کے قبول کرنے میں کوئی حرج نہیں کہ ایک طویل عرصے تک مسلمان عصری تعلیم کی ضرورت کا ہی انکار اوراس کی مخالفت کرتے رہے۔حکمرانوں کی زبان کی تعلیم غلامی کی علامت اور سائنس کی تعلیم گمراہی ٹھہرائی گئی۔خاطر خواہ توجہ تو اب بھی نہیں ہے لیکن گزشتہ دو تین عشروں سے اس تعلق سے بیداری محسوس کی جارہی ہے۔علما نے بھی عصری تعلیم کی جانب قدم بڑھائے ہیں ،عربی مدارس میں جدید تعلیم کو جگہ دی گئی ہے ۔خود علما کے ذریعے انگلش میڈیم اسکول قائم کیے گئے ہیں ۔یہ بہت خوش آئند عمل ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ اگر تھوڑی توجہ اور ہوجائے توہندوستان کے مسلمان اپنا کھویا ہوا وقار اور مقام دونوں پاسکتے ہیں۔مسلمانوں میں تعلیمی بیداری کا ثبوت ہر سال مقابلہ جاتی امتحانات میں مسلم طلبا کی کامیاب ہونے والی تعداد ہے۔اگر صرف میڈیکل کے شعبے میں ہی آپ جائزہ لیں تو ہر سال 10 سے 20 فیصد اضافہ دیکھیں گے۔یوپی ایس سی میں بھی ہرسال اضافہ ہورہا ہے۔یہ کوئی معمولی کامیابی نہیں ہے بجائے خود بڑی کامیابی اور روشن مستقبل کی ضمانت ہے۔ہندوستان کے مسلمانوں کو اسی رخ پر چلتے رہنے کی ضرورت ہے ۔انھیں یہ عہد کرنا چاہیے کہ وہ ایک وقت کھانا کھائیں گے لیکن اپنے بچوں کو ضرور پڑھائیں گے۔اس سال دہلی کے آل انڈیا اسپتال میں جسےAIIMS کے نام سے جانا جاتا ہے اور قومی اہمیت کا حامل ہے، کل 132طلبا میں سے16مسلمان ہیں جو تقریباً 12 فیصد ہیں۔ ہندوستان میں مسلمانوں کی آبادی حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق15فیصد ہی ہے، اس کا مطلب ہے کہ میڈیکل کے شعبے میں ہندوستان کے مسلمان اپنی آبادی کی شرح کو چھو سکتے ہیں۔ کیرالہ، کرناٹک اور تلنگانہ میں وہاں کی آبادی کے تناسب میں آس پاس مسلمان مقابلہ میں آرہے ہیں۔ مہاراشٹر اور بنگال کے بعض اضلاع کی صورت حال بھی اطمینان بخش ہے۔ لیکن اترپردیش جہاں بھارتی مسلمانوں کی25فیصد آبادی ہے، وہاں بہت زیادہ صورت حال خراب ہے یہی حال آسام اور بہار کا ہے ۔
عصری تعلیم کی ضرورت، اہمیت اور افادیت کو تسلیم کیا جائے۔اس کا حصول بھی طلب العلم فریضہ میں شامل ہے۔۔۔۔ہر شخص اپنی آمدنی کا15سے20فیصد تعلیم پر خرچ کرے۔ اگر اس کا اپنا خرچ نہیں ہے تو اپنے آس پاس کے طلبا کی ضروریات پر خرچ کرے۔ اہل مال اپنے محلے،اعزاء اور بستی کی تعلیمی کفالت کریں۔ہر بستی کے ذہین اور محنتی طلبا کی رہنمائی اور سرپرستی کی جائے۔ ان کی اور ان کے والدین کی کاؤنسلنگ کی جائے۔ ان کی ضروریات سے ملی تنظیموں اور جماعتوں کو آگاہ کیا جائے ۔
کامیابی کے اعدادو شمار میں اضافے کی واقفیت کے بعد دل کو سکون حاصل ہوتا ہے۔ مایوسی کے بادل چھٹتے ہیں۔ زندگی کے آثار نظر آتے ہیں۔لگتا ہے کہ ہندوستان میں ہماری نسلوں کو عزت و وقار کی زندگی نصیب ہوگی۔میں ان تمام افراد کو سلام پیش کرتا ہوں جو ہندوستانی مسلمانوں کی تعلیمی ترقی کے لیے کوشاں ہیں۔جو علم اور تعلیم کے چراغوں کو اپنے لہو سے روشن کررہے ہیں۔مقابلہ جاتی امتحانات میں کامیابی کے ان اعدادو شمار سے ہمارے حوصلوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ میری ائمہ مساجد اور مقررین و دانشوروں سے گزارش ہے کہ عوام کو بھی اس خاموش تعلیمی انقلاب سے واقف کرائیں تاکہ ان کے اندر جوش اور ولولہ پیدا ہوسکے۔ مجھے تسلیم ہے کہ ابھی ہمارے اندر بہت کمزوریاں ہیں، ابھی کام بہت باقی ہے، ہمارے مقررین اپنی گفتگو میں ان کمزوریوں کی جانب متوجہ کرتے رہتے ہیں لیکن اسٹیج سے ہر وقت کمزوریوں اور خرابیوں یا ناکامیوں کا ذکر امید کا چراغ بھی گل کردیتا ہے،اس لیے ضروری ہے کہ ہر کامیابی پر حوصلہ افزائی کی جائے تاکہ امید کے چراغ جلتے رہیں ۔
ہندوستان میں مسلمانوں کی ترقی اور کامیابی کا راستہ صرف اور صرف تعلیم کا راستہ ہی ہے ۔اس سے کنارہ کرکے کسی بھی میدان میں کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوسکتی۔تعلیم سے لاپروائی خود کشی ہے ۔تعلیم کے ذریعے شعور کی دولت ملتی ہے، غلط فہمیاں دور ہوتی ہیں، اندھ بھکتی سے نجات ملتی ہے، ملک کی خدمت کا موقع ملتا ہے ۔انسانیت کی خدمت کرنے والوں کو ہی دنیا کی امامت کا منصب حاصل ہوتا ہے۔تعلیمی سفر کو جاری رکھنے اور اس میں تیزی لانے کے لیے ضروری ہے کہ ہم درج ذیل تجاویز پر غور فرمائیں اور ان کو حالات کے مطابق عمل میں لائیں ۔
عصری تعلیم کی ضرورت، اہمیت اور افادیت کو تسلیم کیا جائے۔اس کا حصول بھی طلب العلم فریضہ میں شامل ہے۔ دینی تعلیم کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے لیکن جدید علوم کی کسی بھی انداز میں مخالفت تباہ کن ہے۔
تمام مکاتب و مدارس میں ابتدائی عصری تعلیم کا معقول اور معیاری نظم کیا جائے۔یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے۔مسجد کے عصری تعلیم یافتہ مقتدیوں کے ذریعے یہ انتظام کیا جاسکتا ہے ۔
ہر شخص اپنی آمدنی کا15سے20فیصد تعلیم پر خرچ کرے۔ اگر اس کا اپنا خرچ نہیں ہے تو اپنے آس پاس کے طلبا کی ضروریات پر خرچ کرے۔ اہل مال اپنے محلے،اعزاء اور بستی کی تعلیمی کفالت کریں۔
ہر بستی کے ذہین اور محنتی طلبا کی رہنمائی اور سرپرستی کی جائے۔ ان کی اور ان کے والدین کی کاؤنسلنگ کی جائے۔ ان کی ضروریات سے ملی تنظیموں اور جماعتوں کو آگاہ کیا جائے ۔
مدارس کے فارغین حکومت کے عصری تعلیمی نظام سے استفادہ کریں۔ عالم اور حافظ قرآن طلبا کے لیے حفظ القرآن پلس اور عالم پلس کی کلاسیز کئی ریاستوں میں کامیابی کے ساتھ چل رہی ہیں، یوپی میں سہسوان ضلع بدایوں، بہرائچ، مظفر نگر اور پھلت میں موجود ہیں۔مختلف یونیورسٹیاں اے ایم یو، جامعہ ، مانو وغیرہ کے کئی پروگرام فارغین مدارس کے لیے ہیں۔اگنو اور این آئی او ایس کے ذریعے بھی عصری ڈگریاں لی جا سکتی ہیں۔اترپردیش مدرسہ بورڈ کے امتحانات مولوی منشی وغیرہ کی اسناد اعلیٰ تعلیم میں معاون ہیں ۔دیگر ریاستوں میں بھی اس طرح کا نظم ہے، ان سہولیات اور ذرائع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہم آگے بڑھ سکتے ہیں۔
مسلم سرکاری ملازمین اس بات کا عہد کریں کہ وہ اپنے گھر اور خاندان میں سے دو افراد کو اس طرح اعلیٰ تعلیم دلائیں گے کہ وہ سرکاری ملازمت حاصل کریں گے۔اسی کے ساتھ وہ بستی کے کسی ایک ذہین طالب علم کی رہ نمائی کریں ۔
ہمارے ڈاکٹر ماسٹر، انجینئر،وکلا اور انتظامی مناصب پر جلوہ فرما افراد اگر اپنی وراثت کم سے کم2افراد میں منتقل کرنے کی منصوبہ بندی کریں تو ہندوستانی مسلمان دن دوگنی رات چوگنی ترقی کرسکتے ہیں ۔
میں اس وقت کمزوریوں پر گفتگو نہیں کرنا چاہتا مگرصرف ایک کمزوری کی جانب آپ کی توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ ہم محنت سے جی چراتے ہیں ۔تمام کام دعا کے ذریعے خدا سے کرانا چاہتے ہیں ۔یہ رویہ کسی طرح مناسب نہیں ہے۔ ہمیں اپنے حصے کا کام کرنے کے بعد دعا کے لیے ہاتھ اٹھانے چاہیے ۔اپنے کام خود کرنے کی عادت ڈالنی چاہیے۔حصول تعلیم میں بھی سخت محنت کرنی چاہیے۔صرف تعلیمی اسناد ہی حاصل نہ کریں بلکہ ان اسناد کے مطابق علم بھی ہو ۔علمی صلاحیت کے بغیر اسناد کاغذ کے چند اوراق ہیں جو فائل کی زینت بن کر ہمارا منھ چڑھاتے ہیں۔
پس اے میرے بھائیو!تمہاری نسلیں تمہارا مستقبل ہیں، اپنی نسلوں کو تعلیم دلا کر اپنے مستقبل کو روشن اور تابناک بنا لو، تمہاری غفلت کا نقصان تمہاری اپنی اولاد کو ہی ہوگا، کیا تم اپنی اولاد کا نقصان چاہتے ہو۔
[email protected]