رسال سنگھ
ناگالینڈ ایک بار پھر سرخیوں میں ہے۔ اس کی اصل وجہ تشددپسند تنظیم نیشنل سوشلسٹ کاؤنسل آف ناگالینڈ(این ایس سی این-آئی ایم) کے نئے مطالبات ہیں۔ اس تنظیم نے نہ صرف امن مذاکرات کار آر این روی(جو ریاست کے گورنر بھی ہیں) کو ہٹانے کا مطالبہ کردیا ہے، بلکہ ناگالینڈ کے لیے الگ جھنڈے اور آئین کا مطالبہ بھی کرڈالا ہے۔ این ایس سی این(آئی ایم) اس مطالبہ کی آڑ میں نہ صرف سودے بازی کرنا چاہتی ہے، بلکہ اپنی کمزور ہوتی طاقت اور مطابقت کو بحال کرنا چاہتی ہے۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ امن مذاکرات کار روی اور موئیوا کے مابین عدم اعتماد اور دوریوں میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ اس کی وجوہات بالکل صاف ہیں۔ این ایس سی این(آئی ایم) خود کو ناگا مفادات کی واحد محافظ اور پالنے والی تنظیم مانتی ہے۔ جب کہ ناگا سماج کے مابین اس تنظیم کی معتبریت اور قبولیت مشتبہ ہے۔ اب یہ تنظیم ناگاکمیونٹی کی امید-خواہشات کی واحد ترجمان یا آواز نہیں رہ گئی ہے۔ ایسے میں صرف اس سے امن مذاکرات کرکے ناگامسئلہ کا مکمل اور مستقل حل نہیں ہوسکتا ہے۔ دوسری نئی تنظیموں اور گروپوں کے ساتھ بھی امن مذاکرات شروع کرنے سے این ایس سی این(آئی ایم) مشتعل ہوگئی ہے۔ نتیجتاً اس نے امن مذاکرات اور سیزفائر سے قدم کھینچنا اور دوبارہ جنگلوں میں لوٹ کر مسلح جدوجہد شروع کرنے کی دھمکی دینا شروع کردی ہے۔ یہ اس کا اسٹرٹیجک قدم ہے۔ اس کے پس منظر میں فعال اس کے اصل منصوبوں کو جاننا بے حد ضروری ہے۔
2014میں مرکزی حکومت اور این ایس سی این(آئی ایم) کے مابین ہوئے معاہدے اور سیزفائر کی شرائط میں بھی اس تعطل کے بیج دیکھے جاسکتے ہیں۔ اس معاہدے میں اس تنظیم نے کئی غیرمناسب مطالبات کو رکھوایا تھا۔ اس نے یقینی بنایا تھا کہ سیزفائر صرف ہندوستانی سرکار کی سیکورٹی فورسز اور این ایس سی این(آئی ایم) کے مابین ہو، تاکہ دیگر مسلح ناگا تنظیموں اور امن پسند ناگا گروپوں کے خلاف اس کا تشدد اور دہشت گردی بغیر کسی رکاوٹ کے جاری رہ سکے۔ ناگالینڈ میں کل 14ناگاکمیونٹی رہتی ہیں۔ ان کی تعداد کل ناگا آبادی کا 80فیصد ہے۔ ان کمیونٹیز کی مختلف طلبا تنظیمیں، خواتین کی تنظیم اور گاؤں بوڑھا تنظیم، ناگاٹرائب کونسل(این ٹی سی) اور ناگا نیشنل پالیٹیکل گروپ جیسی متعدد بااثر تنظیمیں ہیں، جو ناگا کی شناخت اور حقوق کے لیے پرامن طریقہ سے کام کررہی ہیں۔ ان کے علاوہ سات مسلح تنظیمیں بھی ہیں۔ ان تنظیموں کے ساتھ این ایس سی این(آئی ایم) کی پرتشدد مقابلہ آرائی(دشمنی) ہے۔ ہندوستانی فوج اور سیکورٹی فورسز کے ساتھ سیزفائر کا فائدہ اٹھاکر اس تنظیم نے اب تک اپنی حریف تنظیموں اور سول سوسائٹی کے ہزاروں لوگوں کو مار ڈالا ہے۔ اس کے علاوہ اس نے اپنے کارکنان کی کیمپوں میں واپسی یقینی نہ بناتے ہوئے نہ صرف سیزفائر کی شرط کی خلاف ورزی کی ہے، بلکہ وہ اپنی طاقت اور تنظیم کی بنیاد میں مسلسل اضافہ کررہی ہے۔ تشدد اور دہشت کے زور پر یہ تنظیم اپنی متوازی حکومت چلا رہی ہے۔ تنظیم کے لوگ مجرمانہ سرگرمیوں اور وصولی میں ملوث ہیں۔ یکم اگست 2007سے مسلسل جاری سیزفائر سے این ایس سی این(آئی ایم) کی متوازن سرکار مزید مضبوط ہوگئی۔ اس لیے اب اس تنظیم کی دلچسپی امن مذاکرات اور ناگا مسئلہ کے حل میں نہ ہوکر امن کے عمل کو لمبا کھینچنے اور سیزفائر جاری رکھنے میں ہے۔
معاہدے کے دوران اس تنظیم کے ذریعہ رکھی گئی ایک اور شرط قابل ذکر ہے۔ این ایس سی این(آئی ایم) نے معاہدے میں یہ شرط بھی رکھی تھی کہ امن مذاکرات صرف حکومت ہند کے امن مذاکرات کار اور این ایس سی این(آئی ایم) کے مابین ہی ہوگی۔ اس میں دیگر مسلح تنظیموں، امن گروہ یا وسیع سول سوسائٹی کی کوئی شراکت نہ ہوگی۔ ایسی شرط رکھوا کر این ایس سی این(آئی ایم) نے دیگر سبھی شراکت داروں کو حاشیہ پر کردیا اور اپنا مرکزی کردار یقینی بنالیا۔ اس شرط کا بنیادی سبب یہ ہے کہ یہ تنظیم ناگا مسئلہ کے حل کے عمل پر اپنی اجارہ داری اور تسلط بنائے رکھنا چاہتی ہے۔ مرکزکی حکومتیں امن مذاکرات اور سیزفائر کے دوران اس تنظیم کو جس طرح سے ضرورت سے زیادہ اہمیت دیتی رہیں، اس سے اس کے تیور مزید چڑھتے گئے۔ باریکی سے دیکھیں تو مرکزی حکومت نے اس تشددپسند تنظیم کو ناگا مفادات کا ’کاپی رائٹ‘ دے کر اس کی طاقت اور اہمیت میں اضافہ کردیا ہے۔ این ایس سی این(آئی ایم) کو ناگا مفادات کی واحد نمائندہ تنظیم ماننا اور صرف اس کے ساتھ ہی امن مذاکرات کرنا بڑی اسٹرٹیجک بھول رہی ہے۔
1975کے شیلانگ معاہدہ کے ردعمل میں سامنے آئے این ایس سی این(آئی ایم) کی تعمیر میں ایس ایس کھاپ لانگ، آئی جیک چشی سوؤ اور تھنگالینگ موئیوا جیسے انتہاپسندوں کا مرکزی کردار تھا۔ ان لوگوںنے 1980میں نیشنل سوشلسٹ کاؤنسل آف نگالم کی تشکیل کی تھی۔ اس تنظیم نے شیلانگ معاہدہ کو ناگا تحریک کے ساتھ فریب اور ناگاجدوجہد کی نیلامی قرار دیا تھا۔ تنظیم نے سبھی ناگا کمیونٹیز کے جامع اتحاد اور مشترکہ جدوجہد کی درخواست کی۔ اس کے سربراہ ماؤ کے کام کرنے کے انداز (طریق کار) سے متاثر رہے ہیں۔ 1988میں این ایس سی این میں دو گروپ ہوگئے اور منقسم تنظیم این ایس سی این(آئی ایم) میں آئی جیک چشی سوؤ صدر اور تھنگالینگ موئیوا جنرل سکریٹری بن بیٹھے۔ تب سے لے کر آج تک این ایس سی این(آئی ایم) اور اس کا خودکار کمانڈران چیف تھنگالینگ موئیوا علیحدگی پسند تشدد، انتشار اور غیراطمینانی کی جڑ ہے۔ اس تنظیم نے بے حساب خون خرابے اور دہشت گردی کے زور پر خوب سرخیاں بٹوریں۔ یہی اس کی دھوکہ دہی والی حکمت عملی تھی جو بے حد کامیاب ہوئی۔ اس نے نہ صرف سیکورٹی فورسز، پولیس والوں، صنعت-کاروبار چلانے والوں اور سیاسی لیڈروں کے سفاکانہ قتل کیے،بلکہ اپنے بڑی تعداد میں ناگا لوگوں کو بھی موت کے گھاٹ اُتارا اور اس دہشت گردی کے زور پر یہ تنظیم ناگاشناخت اور حقوق کا خود ہی اعلان کر واحد تنظیم بن گئی۔
گزشتہ چوبیس سال میں ہوئے امن مذاکرات اور سیزفائرز نے اس تنظیم کو مسلسل خوراک دی ہے۔ ایک دم شروع میں تو مختلف ناگا کمیونٹیز کا اس تنظیم سے جذباتی لگاؤ تھا۔ لیکن اس کے سبھی اہم عہدوں پر منی پور کی تنگکھل کمیونٹی کے حاوی ہوتے جانے سے لوگوں کو مایوسی ہونے لگی۔ قابل ذکر ہے کہ اس تنظیم کا خودکارچیف تھنگالینگ موئیوا بھی منی پور کی اقلیت ناگا کمیونٹی تنگکھل سے ہی ہے۔ اس نے منظم طریقہ سے اپنی کمیونٹی کو آگے بڑھا کر دیگر کمیونٹیز کو کنارے کردیا اور اپنی اور اپنی کمیونٹی کی حالت کافی مضبوط کرلی، لیکن تنظیم کی معتبریت میں کمی آتی گئی۔ موئیوا کی یہ جے بی تنظیم ناگاؤں کی ترجمان تنظیم نہ رہ کر تنگکھل کمیونٹی کی ترجمان تنظیم محض رہ گئی ہے۔ نتیجتاً متعدد ناگا کمیونٹیز نے اپنی علیحدہ اور آزاد تنظیم بنالی۔ اس لیے صرف این ایس سی این(آئی ایم) کو ناگاؤں کی واحد تنظیم مان کر اس سے ہی مذاکرات کرنا دیگر تنظیموں اور کمیونیٹز کی ’آواز‘ کو نظرانداز کرنے جیسا ہے۔
اب این ایس سی این(آئی ایم)کی متوازی حکومت پر شکنجہ کستا جارہا ہے۔ آسام رائفلز اور ہندوستانی فوج نے اس تنظیم کی متوازی حکومت کی ریڑھ سمجھے جانے والے ہر ضلع ہیڈکوارٹر واقع ’ٹاؤن کمانڈ‘ کو ختم کردیا۔ دوسری بڑی بات یہ ہے کہ این ایس سی این(آئی ایم)کوناگا مسئلہ کا واحد ’شراکت دار‘ نہ مانتے ہوئے دیگر تنظیموں اور سول سوسائٹی کو بھی امن مذاکرات میں شامل کرنے کا آغاز ہوا ہے۔ اس سے این ایس سی این (آئی ایم) کا بوکھلانا فطری ہے۔ اس لیے اب اس نے امن مذاکرات کرنے والوں کو بدلنے کے لیے مرکزی حکومت پر دباؤ بنانا شروع کردیا ہے۔
مرکزی حکومت اور اس کی حکمت عملی بنانے والوں کو اس بار ان غلطیوں سے بچنے کی ضرورت ہے جو گزشتہ چوبیس سال میں بار بار دہرائی جاتی رہی ہیں۔ سب سے بڑی بھول ناگامسئلہ کے حل کے لیے ہونے والے امن مذاکرت کا ایک واحد فریق این ایس سی این(آئی ایم) کو ماننے اور اس کی مجرمانہ سرگرمیوں کا سنجیدگی سے نوٹس لے کر ان پر قدغن نہ لگانے کی رہی۔ یہ تنظیم اسی کا فائدہ اٹھاتی رہی۔ اس لیے اب ناگا مسئلہ کے حل کے لیے ضروری ہے کہ مرکزی حکومت امن مذاکرات کو ٹائم باؤنڈ طریقہ سے پورا کرنے کے ہدف کے ساتھ دوسرے فریقوں کو بھی مذاکرات کے دائرے میں شامل کرے۔
(بشکریہ: جن ستّا)