محمد فاروق اعظمی
اس میں کوئی دورائے نہیں ہے کہ کورونا وائرس دنیا پرا یک کہرام بن کر نازل ہوا ہے۔لیکن ہندوستان کے عوام کورونا وائرس کے سہ رخی حملہ سے دوچار ہیں۔ پہلا تو کورونا وائرس کا براہ راست حملہ ہے جس میں لوگوں کی جانیں جارہی ہیں۔ دوسرااور تیسرا حملہ ملک کے حکمرانوں اور سرمایہ داروں کی جانب سے ہورہاہے۔ ان حملوں کی زد پرآئے عوام کا پورا تن داغ داغ ہوچکا ہے۔لیکن حملوں کا یہ سلسلہ رکنے کا نام نہیں لے رہاہے۔
کورونا بحران کے دوران عوام کے خون پسینہ کی گاڑھی کمائی کو سرمایہ داروں کے حوالے کرکے ہاتھ کھڑے کرلینے کے کئی ایک تازہ معاملے حالیہ دنوں میں سامنے آئے ہیں۔ ان معاملات نے صاف کردیا ہے کہ ملک کی معیشت اور بینکوں سے سرمایہ داروں کی لوٹ کھسوٹ اور منمانی پر حکومت کا کوئی کنٹرول نہیں رہ گیا ہے۔حکومت ’ آتم نربھربھارت‘ اور ’5کھرب ڈالر‘ کی معیشت کے خیالی پلائو پکانے میں مصروف ہے اور بینک دھڑلے سے سرمایہ کاروں کو بھاری بھرکم رقم قرض دے کرا نہیں این پی اے میں ڈال رہے ہیں جس کی تلافی عوام سے کی جارہی ہے۔یس بینک، پنجاب اینڈ سندھ بینک سے شروع ہونے والا دیوالیہ پن کا سلسلہ اب لکشمی ولاس بینک تک پہنچ گیا ہے۔ لکشمی ولاس بینک اس وقت ایک ایسے بحران میں غرق ہوگیا ہے جس سے نکلنا ناممکن نظر آرہا ہے۔ چھوٹے چھوٹے اور خوردہ قرض کی بنیاد پر بینکنگ کے شعبہ میں 9دہائی تک کامیابی کا جھنڈا گاڑنے والے اس بینک نے اچانک دواساز کمپنی ’رین بیکسی‘ کو 720 کروڑ روپے کا خطیر قرض دے دیا اورجب اس کی وصولی کی باری آئی تورین بیکسی نے ہاتھ کھڑے کرنے کے ساتھ ساتھ الٹے بینک پر مقدمہ کردیا۔جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بینک دیوالیہ پن کا شکار ہوکر عو ام کی جمع گاڑھی کمائی ڈکارنے کے منصوبے بنارہاہے اور حکومت بھی ’ معیشت کی بہتری‘ کے نام پر اس کا ساتھ دے رہی ہے۔ بینک نے دوا کمپنی رین بیکسی کو720کروڑ کا قرض 794 کروڑ روپے کی ایک ایف ڈی کے عوض میں جاری کیا تھالیکن جب بینک نے ایف ڈی کے ذریعہ اپنا قرض وصول کرنا چاہا تو رین بیکسی نے بینک پر کیس کردیا۔ واقعہ منظر عام پر آنے کے بعد بینکوں کی نگرانی کرنے والے ادارہ ریزروبینک آف انڈیا (آربی آئی)نے اس بینک کی سرگرمیاں محدود کرنے کے ساتھ ساتھ رقم کی نکاسی پر محدود پابندی عائد کردی ہے جس کی وجہ سے اس بینک کے گاہک پریشان ہیں۔
آر بی آئی نے لکشمی ولاس بینک کے بورڈ آف ڈائریکٹرس کو معطل کرکے کینیرا بینک کے سابق نان ایگزیکٹیو چیئرمین ٹی ایم منوہرن کو اس کا منتظم مقرر کیا ہے۔مرکزی بینک کے اقدامات کے بعد اب اس بینک کے اکائونٹ ہولڈر یومیہ25ہزار روپے کے اندر ہی کوئی رقم نکال سکتے ہیں۔ یہ پابندی ایک مہینہ کیلئے عائد کی گئی ہے۔
یہ حکومتی فلسفہ سمجھ سے بالا تر ہے کہ بینک ایک جانب سرمایہ کاروں کو بھاری بھرکم رقم دے رہاہے اور دوسری جانب حکومت اور آر بی آئی عام اکائونٹ ہولڈروں پر نکاسی کی پابندی لگارہی ہے۔ بات یہیں تک ختم نہیں ہوئی حکومت نے چند قدم اورآگے بڑھاتے ہوئے آر بی آئی کے کاندھے پر بندوق رکھی اور اس کے توسط سے ایک دوسرے غیر ملکی پرائیویٹ بینک کو تیار کیا ہے کہ وہ لکشمی ولاس بینک میں رقم ڈالے۔آر بی آئی نے اس سرکاری حکم کی تعمیل کرتے ہوئے سنگا پور کے ڈی بی ایس بینک کی ہندوستانی شاخ ڈی بی ایس انڈیا میں لکشمی ولاس بینک کے انضمام کا فیصلہ کیا ہے۔
ہندوستان میں یہ اپنی نوعیت کاپہلا ایسا قدم ہے جب کسی ملکی پرائیویٹ بینک اور غیر ملکی پرائیویٹ بینک کے ’ انضمام‘ کا فیصلہ کیاگیا ہے۔اس انضمام کا مطلب صرف یہ ہے کہ ڈی بی ایس بینک سرمایہ لے کرآئے گا اور لکشمی ولاس بینک کو جتنی رقم کی ضرورت ہے اس میں اتنا سرمایہ ڈالا جائے گا۔ یہ سرمایہ بھی ڈی بی ایس بینک کااپنا نہیں ہوگا بلکہ یہ عوام کی جمع کی ہوئی رقم ہوگی جو لکشمی ولاس بینک کی حالت بہتر بنانے کیلئے استعمال کی جائے گی۔ڈی بی ایس بینک کا کہنا ہے کہ ’ انضمام‘ کی اس کارروائی سے بینک میں رقم رکھنے والوں اوراس کے ملازمین کو فائدہ ہوگا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ عوام کی جمع رقم ہی گردش میں رہے گی اور رین بیکسی نے جو رقم قرض لی ہے، اس کا کوئی حساب کتاب نہیں ہوگا۔
دوسرا معاملہ مہاراشٹرا کے منتھااربن کوآپریٹیو بینک کا ہے۔ اس بینک نے اپنی چادر سے زیادہ پائوں پسارے اور سرمایہ داروں کو بغیر سوچے سمجھے بھاری بھرکم رقم قرض دینے لگی جس کی وجہ سے بینک کی مالی حالت خراب ہوگئی۔ عوا م کی جمع رقم دوسروں میں بانٹنے کے بعد یہ بینک خالی ہاتھ رہ گیا۔اس کا عذاب بھی عام اکائونٹ ہولڈروں کو ہی بھگتنا پڑرہا ہے۔ آربی آئی نے اس بینک پر6مہینہ کی پابندی عائد کردی ہے۔اسی طرح کی بدعنوانی کا معاملہ بنگلور کے ’ششروتی سوہاردا سہکاری بینک ‘ کا ہے۔اس بینک پرآربی آئی نے 20 لاکھ روپے کا جرمانہ عائد کیا ہے اورظاہر ہے کہ بینک یہ جرمانہ اکائونٹ ہولڈروں کی جمع رقم سے ہی ادا کرے گا۔قرض دینے کے معاملے میں بے ضابطگی برتنے والے ایک اور بینک ’ دکن اربن کوآپریٹیو بینک، وجے پورہ، کرناٹک ‘پر بھی آربی آئی نے جرمانہ عائد کیا ہے۔
ایک طرح سے یہ پرائیویٹ و کوآپریٹیو بینک اور سرمایہ داروں کی ملی بھگت سے عوام کو لوٹنے کا سلسلہ ہے جو گزشتہ ایک دہائی سے ہندوستان میں تیزی سے پھل پھول رہا ہے۔ 1969میں جب پرائیویٹ بینک شروع کیے گئے تھے توعوام نے ان بینکوں کی ہرطرح سے سرپرستی کی۔ آغاز میں ان پرائیویٹ بینکوں کی خدمات بھی سرکاری بینکوں سے بہتر رہیں، یہ عوام کے پسندیدہ بینک بنتے گئے۔حکومت نے بھی عوام کو ضمانت دی کہ پرائیویٹ بینکوں میں ان کی رقم محفوظ رہے گی۔ لیکن گزشتہ دس برسوں کے واقعات کا اگر سرسری نظر سے جائزہ لیاجائے تو یہ پتہ چلتا ہے کہ ان پرائیویٹ بینکوں میں عوام کی جمع رقم محفوظ نہیں رہی ہے۔ ہر دوسرے مہینہ کسی نہ کسی بینک کو موریٹوریم میں ڈالا جارہاہے یا اس کا دوسرے بینک سے انضمام کیاجارہاہے۔ایک سال قبل جب تواتر سے بینکوں کے دیوالیہ ہونے کی خبر آئی تھی تو عوام کو یہ لگنے لگاتھا کہ اب ان کی رقم محفوظ نہیں ہے اور وہ اپنی اپنی رقمیں نکالنے لگے تھے۔اس وقت آر بی آئی نے ان کی وکالت کرتے ہوئے عوام کو یقین دلایا تھا کہ ان کی رقم محفو ظ ہے۔ریاستوں کے چیف سکریٹریز کو خط لکھ کر آر بی آئی نے کہاتھا کہ وہ ایسے اقدامات کریں کہ عوام پرائیویٹ بینکوں سے اپنی ساری رقم نہ نکالیںکیوں کہ نجی بینکوں سے جمع رقم نکالنے سے بینکنگ اور مالی شعبہ کی حالت پرا ثر پڑسکتا ہے۔
لیکن عوام کی گاڑھی کمائی کی قیمت پر بینکنگ شعبہ کو بہتر بنانے کیلئے نجی بینکوں کو پروان چڑھانے کے فیصلہ سے نہ تو بینکنگ کا شعبہ بہتر ہوا ہے اور نہ ہی عوام کی جمع رقم محفوظ ہے۔ اگر کچھ ہوا ہے تو یہ کہ نجی بینکوں کے مالکان کو سرمایہ کا ڈھیر ملتا گیا ہے اور عوام کی رقم روزبروز غیر محفوظ ہوکر ختم ہوتی گئی ہے۔
بینکوں کے انضمام اور انہیں عوام کی رقم سے بیل آئوٹ پیکیج دینے کے فیصلہ پرماہرین معیشت کے تما م تر مشوروں کے باوجود حکومت اپنی ’ دانشمندی‘ پر ثابت قدم ہے اور وہ یہ سمجھ رہی ہے کہ بینکوں کی حالت بہتر بناکر وہ ملک کی معیشت بہتر بنائے گی۔
حکومت غالباً یہ حقیقت بھی بھول گئی ہے یا قصداً فراموش کردینا چاہتی ہے کہ ملکی معیشت کا مطلب بینکوں اور سرمایہ داروں کی دولت میں اضافہ نہیں ہے بلکہ معیشت کی بہتری اور استحکام ’گردش زر‘ کے ایسے نظام میں پوشیدہ ہے جہاں عوام کے خون پسینہ کی کمائی ہوئی دولت کو تحفظ حاصل ہواور وہ جب چاہیں جتنی چاہیں اپنی رقم حاصل کرسکتے ہوں۔ نام نہا د ’ سخت فیصلے‘ کے حکومتی فلسفہ سے معیشت کو استحکام ملنے والا نہیں ہے۔ ’بیل آئوٹ پیکیج اور انضمام‘ کے فارمولہ سے ان بینکوں کی ’رعنائی تعمیر‘ رونق اور صفا میں اضافہ ضرور ہوسکتا ہے لیکن معیشت کی سوکھی رگوں میں جان نہیں آسکتی ہے۔
[email protected]