دس کروڑ خانہ بدوشوں کے استحصال کو روکئے

0

سمپت جی
(مترجم: محمد صغیر حسین)

جب پرائم منسٹر نریندر مودی نے 24مارچ، 2020 کو محض چار گھنٹوں کے نوٹس پر دنیا کا سب سے زیادہ سخت لاک ڈاؤن نافذ کیا تو ملک کے طول و عرض میں لاکھوں مہاجر مزدوروں نے خود کو ایک عجیب صورت حال میں گرفتار پایا۔ شہروں میں اُن کی روزی روٹی چھن گئی لیکن وہ اپنے آبائی وطن نہیں لوٹ سکے۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے اُن کے سامنے محض دو ہی راہیں کھلی ہوئی تھیں: فاقہ کشی یا خیرات پر گزر بسر۔ تھوڑے ہی وقفے کے بعد ایک تیسری راہ بھی اُن پر کشادہ ہوگئی: ہزاروں کلومیٹر دور واقع اپنے گھروں کی جانب پیدل سفر کی راہ۔ یہ راہ پرخار بھی تھی اور پرخطر بھی۔ انہیں فاقہ کشی اور موت کا خطرہ لاحق تھا۔ بہت سے لوگ دوران سفر لقمۂ اجل بن گئے۔
ہندوستان واحد ملک نہیں ہے جس نے لاک ڈاؤن سے متعلق سرکاری ناکامیوں کا مشاہدہ کیا ہو۔ لیکن یہ واحد ملک ہے جو لاک ڈاؤن کی ناقص منصوبہ بندی سے پیدا ہونے والے اس قدر بڑے پیمانے کے انسانی المیے کا ذمہ دار ہے۔ ایسا لگا جیسے ملک کے اعلیٰ ترین فیصلہ سازوں کو یہ علم ہی نہ تھ کہ مہاجر مزدوروں کا بھی کوئی وجود ہوتا ہے۔ اگر ہم یہ تسلیم کرلیں کہ حکومت اپنے شہریوں کے مفادات کے پیش نگاہ پالیسیاں وضع کرتی ہے تو پھر یہ سوال پوچھا جائے گا کہ کیا مہاجر مزدور ہندوستان کے پورے شہری نہ ہوکر آدھے ادھورے شہری ہیں؟ یا پھر وہ زیادہ سے زیادہ آدھے شہری ہیں اور ان کو محض اس لیے برداشت کیا جارہا ہے کہ ہمارے شہروں اور ہماری صنعتوں کو سستے مزدوروں کی ضرورت ہوتی ہے؟
ایم ڈبلیو ایس این (Migrant Workers Solidarity Network/MWSN) مزدوروں کے گروپس اور غیرسرکاری تنظیموں کا ایک مجموعہ ہے۔ اس کی ایک نئی اشاعت Citizens and the Sovereign Stories from the Largest Human Exodus in Contemporary Indian History میں، مہاجر مزدوروں کے ذاتی تجربات کی روشنی میں مذکورہ بالا سوالات کے جوابات تلاش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس مطالعے میں یہ بات انتہائی وثوق سے کہی گئی ہے کہ لاک ڈاؤن کے دوران ہونے والی ہلاکت آمیز دقتیں اور پریشانیاں غیرطبعی یا ناگہانی نہیں تھیں بلکہ مہاجر محنت کشوں کو پوری شہریت سے واضح طور پر محروم کرنے کے اثرات تھے۔
بغیر ’’گھر‘‘ کے قرنطینہ
مثال کے طور پر دہلی کے دو مہاجر مزدوروں گلاب اور سکھ لال کی کہانی لے لیجیے۔ یہ جوڑا مجبوری کی حالت میں، اپنے تین بچوں اور مال و اسباب کے ساتھ 500کلومیٹر کی مسافت پیدل طے کرتا ہوا راجستھان میں واقع تحصیل لمگارا پہنچا تاکہ اپنے گھر میں قرنطینہ کرسکے لیکن انہیں معلوم ہوا کہ اُن کا گھر تو موجود ہی نہیں ہے۔ اسی طرح دہلی کی ایک اور مزدورن لاڈا جب اپنے والدین کے گھر، راجیاداس، راجستھان پہنچی تو اسے معلوم ہوا کہ نہ صرف اُن کی بستی کو کوئی راحت ملی ہے اور نہ ہی ملے گی کیوں کہ سرکاری ریکارڈز کے مطابق یہ بستی تو موجود ہی نہیں ہے۔
لاڈا سانسی ہے جب کہ گلاب اور سکھ لال ببریا ہیں۔ تینوں کا تعلق خانہ بدوش قبیلوں سے ہے۔ گلاب اور سکھ لال نے ہمیشہ جائے قیام بدلنے کی روایت پر عمل کیا ہے اور اُن کے پاس کوئی مستقل جائے سکونت نہیں ہے۔ رپورٹ بتاتی ہے کہ ’’ایسا لگتا ہے کہ لاک ڈاؤن کی منصوبہ بندی میں ’’خانہ بدوش قبیلوں کا‘‘ کا کوئی خیال نہیں رکھا گیا۔ تمام کے تمام دس کروڑ خانہ بدوش توجہ سے محروم ہوگئے۔ اُن کی آبادیاں اور اُن کے اسباب اس قدر نہیں ہوتے کہ کاغذات میں وہ جگہ پاسکیں۔ وہ ایسی زندگی گزارتے ہیں جو اس قدر نگاہوں سے اوجھل ہوتی ہے کہ حقوق آشنا نہ ہو اور حقوق تو بڑی چیز ہے، انہیں خیرات کے مستحق بھی نہ سمجھا جائے۔ وہ شہریوں کے درمیان نہ دکھائی دینے والے بھوت ہیں۔‘‘
خانہ بدوشوں کا وجود تو ہے لیکن شناخت نہیں، کیوں کہ شناخت کی شرط اوّلین ہے کہ وہ ارباب حل و عقد کی نظروں کے سامنے رہیں، اور خانہ بدوشوں کی دیرینہ روایت یہ ہے کہ آج یہاں کل وہاں۔ ایسے میں انہیں پروانۂ شہریت کیوں کردیا جاسکتا ہے۔ خانہ بدوش قبائل کے بیشتر افراد مہاجر مزدوروں کی طرح ملک کے گوشے گوشے میں کام کرتے ہیں۔ خانہ بدوش قبائل کے ریاستی انتظام و انصرام، عادی مجرمین ایکٹ، 1952 (Habitual Offenders Act) کے تحت طے کیا جاتا ہے۔ یہ ایکٹ، نوآبادیاتی روایات کے نقش قدم کی پیروی میں خانہ بدوشوں کو ایک خطرہ یا وبال جاں قرار دیتا ہے اور انہیں حقوق شہریت سے محروم کر دیتا ہے۔ اپنے وجود، اپنی شناخت اور اپنی شہریت سے عاری 5.6کروڑ(مردم شماری 2011) خانہ بدوش مہاجر مزدور اپنے سیاسی وجود سے محروم ہیں۔ ہوسکتا ہے یہی وہ مہاجر مزدور ہو ںجو ہندوستان کے لاک ڈاؤن کے منصوبہ سازوں کی نظر سے اوجھل رہے ہوں۔
کووڈ-19وبا کے نتیجے میں ہونے والے مکمل قومی لاک ڈاؤن کے دوران ہندوستانی اہلکاروں نے مشرقی چمپارن، بہار کے رکسول میں ہند-نیپال سرحد کو کانٹے دار تاروں کی باڑ سے بند کردیا جس کے نتیجے میں مہاجر انتظار میں ایک عرصے تک بیٹھے رہے۔
لاک ڈاؤن نے لاکھوں مہاجروں کو بے گھر، بے در کردیا
رپورٹ کے مطابق ہندوستان کے لاک ڈاؤن کا بہترین موازنہ دوسرے ملکوں میں نافذ لاک ڈاؤن سے کرنا مناسب نہ ہوگا۔ اس کا بہترین موازنہ اس کے ماضی میں ہی پوشیدہ ہے۔ 1896 میں گلٹی دارطاعون(Bubonic Plague) کی ایک وبا آئی تھی۔ اُس زمانے میں اس کی روک تھام کے لیے ایک قانون وبائی امراض ایکٹ، 1897 (Epidemic Diseases Act) وضع کیا گیا تھا جس کے تحت سخت ظالمانہ اقدامات کیے گئے تھے۔ اس ایکٹ کی دفعہ 4’’اس ایکٹ کے نفاذ میں مصروف افراد کو تحفظ دیتی ہے۔ کسی فرد کے خلاف جس نے اس ایکٹ کے تحت کچھ کیا ہو یا جس نے خلوص نیت کے ساتھ کرنے کا ارادہ کیا ہو، نہ تو کوئی مقدمہ قائم کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی دوسری قانونی چارہ جوئی کی جاسکتی ہے۔‘‘ایک سو بیس سال کی مدت مدید کے بعد، اس قانون کے تحت تحفظ یافتہ پولیس والے، اپنے گھروں کو پیدل چل کر واپس ہونے کے لیے بے تاب نہتے مہاجر محنت کشوں پر سفاکانہ حملے کررہے تھے۔ آزاد ہندوستان ایک جمہوری ریاست ہے جس میں جمہور کی حکمرانی ہوتی ہے۔ آج اُسی ہندوستان میں مہاجر محنت کشوں پر وہی مظالم ڈھائے گئے جو گنوار دیش واسیوں نے نوآبادیاتی حکومت کے دوران ڈھائے تھے۔
نوآبادیاتی برطانوی انتظامیہ کی آمرانہ اور جابرانہ مداخلتوں نے چند ایسے مسئلوں کو ہوا دے دی جس کے نتیجے میں دیش باسی ایک ’’قوم‘‘ میں تبدیل ہوگئے اور اسی تبدیلی نے بالآخر 1947 میں ایک نئے قومی اقتدار کی داغ بیل ڈال دی۔ این ڈی اے حکومت کے لاک ڈاؤن نے بھی کئی احتجاجات کو ہوا دی ہے۔
سماجی دوریاں کس طرح دور کی جائیں
لاک ڈاؤن کے دوران ایک کارٹون وائرل ہوا جو صحیح معنوں میں، میٹرو شہروں میں مہاجر مزدورو ںکی نامناسب صورت حال کا عکاس تھا۔ اس میں یہ دکھایا گیا ہے کہ ایک سڑک پر مہاجر مزدوروں کے کنبے اپنے اسباب کا گٹھر اُٹھائے پیدل رواں دواں ہیں۔ سڑک کے دوسری جانب، تھکے ماندے کاروانوں سے کافی اونچائی پر، لوگ اپنی بالکونیوں میں خوش ہو ہو کر تالیاں بجارہے ہیں اور ’’جاکرونا جا‘‘ کے نعرے لگا رہے تھے۔ کارٹون کا عنوان تھا ’’سماجی دوری‘‘۔
چیلنج یہ ہے کہ مہاجر محنت کشوں اور طبقۂ خواص سمیت باقی شہری سماج کے درمیان واقع خلیج کس طرح پاٹی جائے۔ رپورٹ بتاتی ہے کہ ’’ہمارے ملک کی کم آمدنی والی مزدور آبادی کی بڑی تعداد تاریخی طور پر آدیباسیوں، دلتوں اور سماجی طور پر پسماندہ ذاتوں اور مذہبی اقلیتوں سے متعلق ہے۔‘‘ یہ ہندوستان میں ذات اور سرمایہ کی دوبارہ پیداوار کا ایک اہم پہلو ہے۔ چنانچہ اگر ہمارے شہر، غیرمنظم مزدوری کی اساس پر قائم ہوتے ہیں اور اگرمہاجر مزدور دیگر شہریوں کی مانند، اچھی تنخواہ، رہائش اور سماجی تحفظ کا مطالبہ کرتے ہیں تو مہاجر مزدوروں کو منظم ہونا پڑے گا۔ اور اگر ایسا ہوا تو ممکن ہے کہ ارباب اقتدار اس تصور کی مخالفت کریں۔
اپنی زمینوں اور اپنے جنگلات سے دربدری کے نتیجے میں مہاجر مزدوروں کی تعداد میں روزافزوں اضافہ ہوتا ہے۔ پھر شہروں میں صنعتی جھنڈوں میں برائے نام اجرت پر کام کرنا دراصل نادیدہ استحصال ہی تو ہے۔ ہندوستان میں شہری زندگی کو، بیشتر ترقی پذیر معیشتوں کی طرح ترقی کی بھوک ہے جو مہاجر مزدوروں کی بڑھتی تعداد اور ان کے استحصال کے زہریلے مرکب سے مٹتی ہے۔ گزشتہ چند دہائیوں سے یہ سلسلہ دراز ہے۔ لاک ڈاؤن نے اس سلسلے میں ایک زوردار اتھل پتھل پیدا کردی۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اس کاخمیازہ بھی مہاجر مزدوروں کو ہی بھگتنا پڑا۔
(بشکریہ: دی ہندو)
(صاحب مضمون ایک مشہور و معروف صحافی اور کام نویس ہیں)
 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS