سوشل میڈیا: نفرت کا کاروبار

0

ہرجندر
(مترجم: محمدصغیر حسین)

سوشل میڈیا کسی ملک کے حالات کو کس حد تک اور کس قدر تیز رفتاری سے پراگندہ کرسکتا ہے، اسے سمجھنا ہو تو ہمیں ایتھوپیا جانا ہوگا۔ بس ایک سال پہلے تک اس مشرقی افریقی ملک کے حالات اتنے اچھے دکھائی دے رہے تھے کہ اس سے پورے افریقہ میں ایک نئی امید وابستہ کی جانے لگی تھی۔ مزید برآں اس ملک کے وزیراعظم ابی احمد کو گزشتہ سال امنِ عالم کے لیے نوبل انعام سے سرفراز کیا گیا تھا۔ انعام تو انہیں مل گیا لیکن کچھ ہی مہینوں کے اندر اندر چاروں طرف سے گھرے اس ملک سے امن و آشتی غائب ہونے لگی۔ اس سال جون میں جب ایتھوپیا کے ہر دلعزیز گلوکار اور مدنی حقوق کے علمبردار ہَچلوہَندبسا کا قتل ہوا تو اس کے بعد تشدد کا جو دور شروع ہوا، وہ ابھی تک رُکا تھما نہیں ہے۔ تب سے اس ملک میں نہ جانے کتنے دنگے اور نہ جانے کتنے فساد ہوچکے ہیں۔ لاتعداد عمارتیں جلاکر خاکستر کردی گئیں اور موت کا یہ ہولناک رقص جاری ہے، اور کسی طور رکتا نظر نہیں آرہا ہے۔
آخر اِن سب کا مجرم کون ہے؟ بے شک ہم وہاں کی ذات پات کی تفریق اور اُن بنیادوں پر چلنے والی سیاست کو مجرم قرار دے سکتے ہیں لیکن سچ یہ بھی ہے کہ یہ تفریقی خطوط وہاں ہمیشہ سے ہی موجود تھے۔ مگر اس بار جیسا اور جس قدر تشدد برپا ہے، اس قدر تو گزشتہ کئی دہائیوں میں بھی وہاں دکھائی نہیں دیا تھا۔ اس بار جو چیز فرق ڈال رہی ہے، وہ سوشل میڈیا ہے۔ کئی ماہرین اور ڈاٹا سائنسدانوں نے تمام مثالوں کے ساتھ واضح کیا کہ وہاں کا پورا سوشل میڈیا نفرت آمیز اور اشتعال انگیز تقریروں اور تشدد بھڑکانے والے مواد سے بھرا پڑا ہے۔ تمام شکایتوں کے باوجود یہ قابل صد اعتراض مواد وہاں سے ہٹایا نہیں گیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اسے بڑھاوا دینے میں ایتھوپیا کی سرکار بڑا رول ادا کررہی ہے۔ یہ ممکن ہے کیوں کہ اس تشدد میں سرکار بھی ایک فریق ہے، اور ان تمام ہنگاموں کا سب سے بڑا سیاسی فائدہ بھی اُسی کو مل رہا ہے۔ لیکن ایسا نہیں لگتا کہ سوشل میڈیا چلانے والی کمپنیوں کو اس تشدد اور نفرت سے کوئی فائدہ مل رہا ہے، پھر وہ اسے روکنے کے لیے قدم کیوں نہیں اٹھا رہی ہیں؟
یہ سوال صرف ایتھوپیا کو لے کر نہیں، بہت سے دوسرے معاملوں میں بھی کیا جاتا ہے۔ میانمار کے روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ہوا، اس پر اسی طرح کے سوال اٹھائے جاتے رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں میں ہمارے ملک میں بھی سوشل میڈیا کے مسئلے کی بازگشت میڈیا میں سنائی دے رہی تھی۔ یہاں بھی فیس بک نے نفرت پھیلانے والے مواد کو ہٹانے میں کافی حیلہ حوالہ کیا تھا۔ ایسا آخر کیوں ہوتا ہے کہ سوشل میڈیا چلانے والی کمپنیاں نفرت پھیلانے والے مواد کو ہٹانے کے لیے آسانی سے تیار نہیں ہوتیں؟ اگرچہ وہ ہر وقت میل جول اور آپسی یگانگت کی باتیں زور شور سے کرتی رہتی ہیں۔
اس کا ایک سبب تو اچھی اور بری چیزوں پر ہمارا الگ الگ ردعمل ہے یعنی جب ہمیں سوشل میڈیا پر کوئی اچھی چیز، شیریں گفتاری یا محبت بڑھانے والی پوسٹ دکھائی دیتی ہے تو ہم اسے پسند کرتے ہیں اور کئی بار تو اسے فارورڈ بھی کردیتے ہیں اور پھر اسے بھول جاتے ہیں۔ ایسی پوسٹ بہت زیادہ ہوجائیں تو ہم انہیں نظرانداز کرنا شروع کردیتے ہیں۔ اس کے برعکس جب کوئی اشتعال انگیز پوسٹ نظر آتی ہے تب ہمارا ردعمل ایسا نہیں ہوتا۔ اس وقت ہمارا ردعمل اس بات پر منحصر ہوتا ہے کہ ہم اس نفرت کے کس جانب کھڑے ہوئے ہیں؟ اگر وہ ہمارے افکار و خیالات سے میل کھاتی ہے، تب ہم اُسے لائک تو کرتے ہیں، اسے بڑھ چڑھ کر فارورڈ بھی کرنے لگتے ہیں۔ دوسروں کو بھیجتے بھی ہیں اور دکھاتے بھی ہیں۔ اس کا استعمال مخالف نظریات رکھنے والوں کو چڑھانے کے لیے بھی کرتے ہیں۔ اور اگر وہ اشتعال انگیز اور نفرت آمیز پوسٹ ہمیں ناپسند ہوتی ہے تو ہم اس پر سخت ردعمل کا مظاہرہ بھی کرتے ہیں۔ ہم اس پر جو بھی ردعمل کا اظہار کریں، آگے ردعمل کا سلسلہ دراز ہوتا چلا جاتا ہے۔اچھی پوسٹ کو بھلے ہی کچھ عرصے بعد نظرانداز کرنے لگتے ہوں، لیکن نفرت، سوشل میڈیا پر ہماری سرگرمی کو تیزتر کردیتی ہے۔
اگر اسے سوشل میڈیا کے کاروبار کی زبان میں کہیں تو نفرت جتنی زیادہ ہوتی ہے، اتنا ہی ٹریفک پیدا ہوگا۔ جتنا ٹریفک پیدا ہوگا اتنا ہی زیادہ ڈاٹا پیدا ہوگا۔ سوشل میڈیا کا سارا کاروبار درحقیقت ڈاٹا کا ہی کاروبار ہے۔ اسی لیے جتنا زیادہ ڈاٹا تیار ہوگا اتنا ہی زیادہ منافع بھی بڑھتا ہے۔ صاف لفظوں میں کہیں کہ جسے ہم نفرت کہتے ہیں وہ سوشل میڈیا کے کاروبار میں کمائی کا سب سے اچھا وسیلہ ہے۔ اسی لیے جب نفرت پھیلانے والی پوسٹ کو ہٹانے کی بات آتی ہے، تو سوشل میڈیا چلانے والی کمپنیاں یا تو آناکانی کرنے لگتی ہیں یا پھر بہانے کرنے لگتی ہیں۔
یہ نفرت کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ نئی چیز ہے، اس کا بڑے پیمانہ پر کاروباری منافع کے لیے استعمال۔ یہ کچھ ایسا ہی ہے جس طرح ہمارے سماج کے کئی فضلات ہماری ندیوں کو ایک طویل عرصے سے آلودہ کرتے رہے ہیں۔ تب ندیوں کا خود اس کا داخلی نظام، اس کے جاندار، اس کے قرب و جوار کے جنگلات ندی کو صاف کرتے رہنے کے قابل تھے، لیکن جب سے بڑی بڑی فیکٹریوں نے ندیوں کو آلودہ کرنا شروع کیا تو انہیں صاف کرنا اور صاف رکھنا کسی کے بس میں نہ رہا۔ ندیوں کا جو برا حال ہماری فیکٹریاں کررہی ہیں، ہمارے سماج اور سیاست کا وہی برا حال بڑی حد تک سوشل میڈیا کررہا ہے۔ یہ بات الگ ہے کہ ہمارے سماج کے لیے اس کی افادیت بھی کم نہیں ہے۔ بالکل ویسے ہی، جس طرح سماج کو آلودہ کرنے والی فیکٹریاں بھی بہت مفید ہیں۔ اسی لیے ہم انہیں مکمل طور پر مسترد نہیں کرپاتے۔ دنیا ندیوں کی آلودگی سے نجات کے راشتے تو تلاش کررہی ہے لیکن سوشل میڈیا کے ذریعہ بڑے پیمانہ پر پھیلائی جانے والی نفرت کی آلودگی پر اس کی توجہ، فکر اور تشویش دور دور تک دکھائی نہیں پڑرہی ہے۔
(بشکریہ: ہندوستان)
(صاحب مضمون ایک سینئر صحافی ہیں)
 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS