آلوک جوشی
کورونا کے عتاب کے بعد کسے امید تھی کہ ہندوستان کی معیشت سال ختم ہونے سے قبل ہی پٹری پر لوٹتی نظر آنے لگے گی۔ ریٹنگ ایجنسی اسٹینڈرس اینڈ پوئرس(ایس اینڈ پی) کا کہنا ہے کہ اگلے مالی سال میں ہندوستان دنیا کی سب سے تیزی سے بڑھنے والی معیشتوں میں سے ایک ہوگا۔ رواں سال کے لیے اس نے جی ڈی پی میں کمی کے اعدادوشمار(-)9فیصد کی جگہ (-)7.9 فیصد کردیا ہے۔ جاپان کی مشہور بروکریج نومرا کا تو اندازہ ہے کہ رواں مالی سال میں ہندوستان کی جی ڈی پی میں کمی صرف6.7فیصد رہے گی اور اگلے سال معیشت میں 13.5 فیصد کا اضافہ درج ہوگا۔ یہ اعدادوشمار بھارتیہ ریزرو بینک کے اندازہ سے بھی بہتر ہیں، جسے اس سال جی ڈی پی میں 7.7 فیصد کی کمی اور اگلے سال 10.5فیصد اضافہ کی امید ہے۔
اسی ہفتہ حکومت کی جانب سے جی ڈی پی گروتھ کے سہ ماہی اعدادوشمار جاری ہونے کی امید ہے۔ زیادہ تر ماہرمعاشیات یہی مانتے ہیں کہ دو سہ ماہی کی تیز گراوٹ کے بعد یہ سہ ماہی معمولی کمی دکھا سکتی ہے۔ لیکن یہ امید ظاہر کرنے والوں کی گنتی میں بھی اضافہ ہورہا ہے کہ اسی سہ ماہی کے اعدادوشمار ہندوستان میں کسادبازاری کے ختم ہونے کی خبر لے کر آسکتے ہیں۔
نومرا نے تو اس سے قبل ہی اپنے ایشیا پورٹ فولیو( اس میں جاپان شامل نہیں ہے) میں ہندوستان کی ریٹنگ بدل کر نیوٹرل سے اوورویٹ کردی ہے۔ اس کا سیدھا مطلب ہے کہ اب وہ ہندوستان کے شیئر بازار میں زیادہ پیسے لگانے کی صلاح دے رہی ہے۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ یعنی آئی ایم ایف اور ایشیائی وکاس بینک بھی ہندوستان کی جی ڈی پی میں اضافہ کی شرح کا اپنا اندازہ تبدیل کرچکے ہیں۔ معاشی سیکٹر میں پیش گوئی کرنے والے آکسفورڈ اکنامکس نامی گروپ کی حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2021میں ہندوستان کی بڑھت کی رفتار 10.2فیصد رہے گی، جو پہلے 8.8فیصد ظاہر کی گئی ہے۔
ملک کے سب سے بڑے اکنامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ نیشنل کونسل فار اپلائڈ اکنامک ریسرچ یعنی این سی اے ای آر کا کہنا ہے کہ دسمبر میں معیشت کسادبازاری کی گرفت سے باہر آجائے گی اور 0.1فیصد کا اضافہ دکھائی دے گی۔ اس کے ساتھ ہی رواں مالی سال میں جی ڈی پی میں 7.3فیصد کی ہی گراوٹ رہے گی۔ کونسل نے سابقہ اندازوں میں 12.6 فیصد کی گراوٹ کا خدشہ ظاہر کیا تھا۔ ادھر سینٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکنامی یعنی سی ایم آئی ای کا بھی کہنا ہے کہ روزگار کے بازار میں زبردست اصلاح نظر آرہی ہے۔ جنوری میں بے روزگاروں کی گنتی تیزی سے کم ہوئی ہے اور برسرروزگار لوگوں کی گنتی میں بہتری آئی ہے۔ دسمبر میں بے روزگاری کی شرح 9.1فیصد تھی، جو جنوری میں کم ہوکر 6.5فیصد رہ گئی اور اس کے سامنے برسرروزگار لوگوں کے اعدادوشمار 36.9سے بڑھ کر 37.9فیصد ہوگئے ہیں۔
روزگار کے کاروبار میں لگی ملک کی سب سے بڑی کمپنی ٹیم لیز کے ایک سروے کے مطابق کمپنی نئے لوگوں کو نوکریاں دینے سے زیادہ دلچسپی کا اظہار کررہی ہیں۔ دوسری طرف آئی ٹی اور فائنانشیل سروسیز میں بڑی تعداد میں نئے روزگار آنے کی خبریں مل رہی ہیں۔ شیئربازار میں لسٹڈکمپنیوں کے شاندار سہ ماہی نتائج اور سینسیکس کی زبردست چھلانگ بھی یہی دکھاتی ہے کہ معیشت کا حال بہتر ہے اور آگے بھی بہترہوتے رہنے کی امید ہے۔
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ تو پہلے ہی کہہ چکا ہے کہ اس سال ہندوستان میں ترقی کی رفتار چین سے بھی تیز ہوگی۔ لیکن یہاں پر یہ دھیان رکھنا ضروری ہے کہ کورونا کے باوجود رواں مالی سال میں چین نے2.1 فیصد کی ترقی کی شرح حاصل کرلی ہے، جب کہ ہندوستان تقریباً 7فیصد کی گراوٹ جھیل رہا ہے۔ ادھر پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے بھی دعویٰ کیا ہے کہ ان کی معیشت میں بہتری کی علامات نظر آرہی ہیں۔ آئی ایم ایف کا بھی ماننا ہے کہ اس سال پاکستان میں 1.5فیصد اور اگلے سال 4فیصد کے آس پاس کی ترقی کی شرح رہ سکتی ہے۔ حالاں کہ اس کی معیشت کا سائز ہندوستان کے دسویں حصہ کے برابر بھی نہیں ہے۔ ویسے یہ خدشہ بھی ختم نہیں ہوا ہے کہ ہندوستان کی راہ میں اب بھی کچھ روڑے اٹک سکتے ہیں۔ سب سے بڑی تشویش تو یہ ہے کہ کہیں کورونا کی ایک اور بڑی لہر تو نہیں آرہی ہے؟ جس رفتار سے مہاراشٹر، کیرالہ و کرناٹک میں نئے معاملے بڑھ رہے ہیں، اس سے اس ڈر میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ ممبئی میں حکومت کے بارہا انکار کے بعد بھی لاک ڈاؤن کے خدشہ سے پوری طرح انکار کرنا مشکل ہے۔ اس خطرے کو اگر کنارے بھی رکھ دیں، تب بھی گاؤوں سے تکلیف کی خبر آرہی ہے۔ کھیتی نے معیشت کو بری طرح ڈوبنے سے بچایا تھا، لیکن اب کسان بھی پریشانی میں ہیں اور مزدور بھی۔ مہنگائی کے اعدادوشمار قابو سے باہر نظر آرہے ہیں، لیکن سی ایم آئی ای کے مطابق جہاں کھانے پینے کی چیزوں کی مہنگائی کی رفتار کم ہوئی ہے، وہیں باقی چیزوں کی مہنگائی میں اضافہ کی رفتار برقرار ہے۔ اور کھانے پینے کی چیزوں میں بھی سبزی کی قیمت میں بھی تیزی سے کمی آئی ہے، وہیں اناج کی قیمتوں میں بہت کم اضافہ ہوا ہے یا اضافہ نہیں ہوا ہے۔ لیکن دال، کھانے کے تیل اور گوشت-مچھلی کی قیمتوں میں اضافہ جاری ہے۔ کسانوں کی نظر سے دیکھیں تو کھیتی سے ہونے والی کمائی کا 56فیصد سے زیادہ حصہ پھل، سبزی اور اناج کی فروخت سے ہی ہوتا ہے۔ مطلب صاف ہے، مہنگائی بڑھنے سے بھی کسانوں کو زیادہ فائدہ نہیں ہوگا۔ گاؤوں میں مزدوری کی شرح بھی گزشتہ چار ماہ سے مسلسل کم ہورہی ہے اور شہروں میں مزدوروں کی ڈیمانڈ میں کمی آنے سے بحران گہرا ہوسکتا ہے۔
ریزرو بینک کا موریٹوریم ختم ہونے کے ساتھ ہی وہاں بھی تکلیف نظر آنے والی ہے۔ جب تک تصویر صاف نہ ہو، کہنا مشکل ہے، لیکن اتنا تو نظر آہی رہا ہے کہ قرض نہ ادا کرنے یا ادا کرنے والوں کی گنتی ابھی تک خطرے کے نشان سے اوپر ہی ہے۔ اور سب سے بڑی تشویش یہ ہے کہ پرائیویٹ سیکٹر کی طرف سے سرمایہ آنے کی امید ابھی تک پوری ہوتی نظر نہیں آرہی۔ نئی سرمایہ کاری کی رفتار میں اضافہ ہونا تو دور، اس کے گرنے کی رفتار تیز ہورہی ہے۔
یہ بڑی تشویشات ہیں جو صرف یہی یاد دلاتی ہیں کہ ابھی آرام سے بیٹھنے کا وقت نہیں آیا ہے۔ حکومت کو ان سب کا ایک ساتھ مقابلہ کرنا ہوگا اور حوصلہ افزائی کا کام جاری رکھنا پڑے گا، تبھی جس اصلاح کی امید ظاہر کی جارہی ہے، وہ پوری ہوپائے گی۔
(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں)
(بشکریہ: ہندوستان)