نشہ خوری سے نوجوان نسل کو بچائیے

0

ششی شیکھر
(مترجم: محمد صغیرحسین)

اگر آج سے ایک صدی بعد کوئی محقق یہ مطالعہ کرنے بیٹھے کہ آج کے ہندوستان میں کووڈ-19وبا کے دوران یہاں کے سماجی اور سیاسی حالات کیا تھے تو اسے کئی تعجب خیز حقائق کا انکشاف ہوگا۔ اگر اس محقق کو مختلف نیوز چینلز کے ویڈیوز دیکھنے کا موقع میسر ہوا تو وہ تصور کرنے میں حق بجانب ہوگا کہ 2020کے دوسرے نصف حصے میں ہندوستان کا سب سے بڑامسئلہ شاید یہ تھا کہ چند فلمی اداکار بظاہر نشہ آور دوائیں یا مشروبات استعمال کررہے تھے۔ عالمی وبا کے نتیجے میں ملک کو جن سنگین مسائل کا سامنا تھا مثلاً بے روزگاری، مہاجر محنت کشوں کی درگت، ہندوستانی قلمرو میں چین کی فوجوں کی دست اندازیاں، معاشی کسادبازاری، نظام طب و حفظانِ صحت کا فقدان وغیرہ وہ سب شاید حاشیۂ زیریں میں ملیں۔
یہ واضح ہے کہ ہمارے ٹی وی چینلز، مختلف قسم کی خبروں، خاص طور پر موجودہ تباہ کن بحران کے مسئلوں سے متعلق خبروں کے درمیان ایک صحت مند توازن بنائے رکھنے کے یا تو اہل نہیں ہیں یا پھر ایسا چاہتے ہی نہیں ہیں۔
میں آج کی نوجوان نسل میں شراب اور منشیات کی عادت کے مسئلوں سے چشم پوشی نہیں کرسکتا۔ سب جانتے ہیں کہ کچھ علاقوں میں منشیات کی آفت نے دیوپیکر شکل اختیار کرلی ہے۔ اس کا حلقۂ اثر سرحدوں کو پار کرگیا ہے اور متعدد ملکوں میں یہ آفت کئی دہائیوں سے قہر برپا کررہی ہے۔ سابق صدر امریکہ، رونالڈ ریگن جو ایک وطن پرستانہ پلیٹ فارم سے ایوان اقتدارمیں پہنچے تھے، انہوں نے اپنے ملک میں منشیات اور نشہ خوری کے بحران سے نمٹنے کے لیے انتہائی جرأت مندانہ کوششیں کی تھیں۔ درحقیقت انہوں نے منشیات کے خلاف جنگ چھیڑ دی تھی۔ اُن کی اہلیہ نے ایک مہم کا آغاز کیا تھا جس کا مشہور ومعروف نعرہ تھا ’’بس نا کہو‘‘(Just say no)۔ امریکہ نے ایک خصوصی دستہ تیار کیا جس کا واحد مقصد منشیات کے کولمبیائی سرغنہ پیبلو ایسکوبار(Pablo Escobar) کو موت کے گھاٹ اُتارنا تھا۔ اس وقت امریکہ نے اس کو ہلاک کرنے کے لیے اسی قدر وسائل صرف کیے جس قدر اس نے کمیونسٹ انقلابی چی گُوے وارا (Che Guevara) کو ہلاک کرنے کے لیے صرف کیا تھا۔ یاد رہے کہ چی ہی متعدد لاطینی ملکوں میں ہونے والے انقلابات کا روح رواں تھا۔ کئی لوگ کرشماتی شخصیت چی اور ایسکوبار کے مابین موازنے کو ناقابل قبول سمجھتے ہیں لیکن امریکی منصوبہ سازوں کے نزدیک دونوں ہی ناپسندیدہ تھے۔
کیا ایسکوبار کی موت کے ساتھ ہی ساتھ امریکہ میں منشیات کا ناجائز کاروبار ختم ہوگیا؟ منشیات کا سرغنہ دراصل، اس ہیجان خیز بدی کی علامت تھا۔ اس کی موت سے کاروبار نہ رکا اور نہ ہی ختم ہوا۔ متعدد جنوب امریکی ملکوں سے نشہ آور دواؤں کا سیل رواں امریکہ سمیت دنیا کے دوسرے حصوں تک جاری رہا۔ ایسکوبار کی تلاش بسیار اور اس کے بعد اس کے قتل سے امریکہ نے اس مہلک بیماری کی علامت کا علاج تو کردیا لیکن اس مرض کی بیخ کنی نہ ہوسکی۔ چنانچہ ایسکوبار کی ہلاکت سے پاؤں کا کانٹا تو نکل گیا لیکن مسئلہ بدستور باقی رہا۔ ایسکوبار ایک آسان ہدف تھا کیوں کہ وہ عیش و عشرت کی زندگی گزارتا تھا، اونچی سوسائٹی میں اٹھتا بیٹھتا تھا، اپنی ناجائز دولت کی نمائش پسند کرتا تھا، کئی رسالوں کے سرورق کی زینت بنا تھا اور اپنے ملک میں رابن ہُڈ جیسا بننا چاہتا تھا۔ منشیات کے دوسرے پرانے فیشن والے سرغنوں کے برعکس، ایسکوبار یہ آرزو کرنے لگا تھا کہ وہ اپنے ملک کا صدر بن جائے۔ اس کی شہرت اور نام آوری کے سبب، اس کی ہلاکت کی خبر، انہائے عالم میں شاہ سرخیوں کی صورت میں شائع ہوئی۔ امریکہ بس ایک بدنام زمانہ ڈرگ مافیا کو صفحۂ ہستی سے مٹادینا چاہتا تھا، سو وہ اپنے مقصد میں کامیاب رہا۔
یہاں بہت سے ایسے لوگ ہیں جو یہ محسوس کرتے ہیں کہ فلمی اداکار سیاست کے شکار ہوئے ہیں۔ لیکن ہم کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ فلمی اداکار کئی طریقوں سے ہماری نوجوان نسل کے رول ماڈل ہیں۔ میری کم سنی کے دنوں میں، بہت سی جوان عورتوں کو اُن کے چہرے مہرے یا اسٹائل کی وجہ سے انہیں مختلف اداکاراؤں کے نام سے موسوم کردیا جاتا تھا مثلاً سادھنا، نوتن، میناکماری، ہیمامالنی یا ریکھا۔ اسی طرح نڈر نوجوانوں کو دھرمیندر اور کچھ زیادہ ہی چاق و چوبند لوگوں کو دیوآنند کے نام سے پکارا جانے لگتا تھا۔
میرا خیال یہ ہے کہ اداکار اور اداکارائیں نوجوانوں کو متاثر کرتے ہیں۔ چنانچہ یہ کوئی تعجب خیز بات نہیں ہے کہ ان کی عادتوں کو بھی اُن کے پرستار نوجوان اختیار کرتے ہیں۔ چند مہینوں پہلے، ایک ویڈیو وائرل ہوا تھا جس میں یہ دکھایا گیا تھا کہ کئی ہر دلعزیز اداکار کسی تقریب میں حالت نشہ میں بدمست پڑے ہوئے ہیں۔ این سی بی(Narcotics Control Bureau) کے افسران ہوسکتا ہے کہ پورے جوش و خروش کے ساتھ ان اداکاروں/اداکاراؤں سے اس بارے میں تفتیش کررہے ہوں۔ لیکن ہم کو اس نشہ خوری کے خلاف کسی بھی اقدام کی تائید کرنی چاہیے۔ کورونا وائرس وبا ایک نہ ایک دن رخصت ہوجائے گی لیکن منشیات ہمارا پیچھا کبھی نہیں چھوڑیں گی۔
متعدد پلیٹ فارموں پر خبروں کی بہتات نے ہماری یادداشت کو کند کرنا شروع کردیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم یہ بھلا بیٹھے ہیں کہ 2017 میں پنجاب کا انتخاب نشہ خوری کے مسئلے پر لڑا گیا تھا۔ شروع میں اس مسئلے کو عام آدمی پارٹی نے اٹھایا تھا لیکن کانگریس لیڈر، امریندر سنگھ نے اس مدعے کو اُچک لیا۔ آج وہ پنجاب کے وزیراعلیٰ ہیں۔ اس مسئلے کی سنگینی کا اندازہ، گزشتہ 25جون2019 کو لوک سبھا میں پیش کیے گئے اعدادوشمار سے لگایا جاسکتا ہے۔ 2017میں منشیات کے ناجائز دہندوں کے 47,344معاملات درج ہوئے تھے۔ پنجاب میں سب سے زیادہ یعنی 12,439معاملات درج ہوئے تھے۔ کیرالہ سے 8,440اور اترپردیش سے 6,693 معاملات تھے۔
این سی آر بی(National Crime Records Bureau) کے مطابق، اسی سال نشہ خوری کے سب سے زیادہ معاملات مہاراشٹر میں پائے گئے۔ وہاں پائے گئے 14,634معاملات میں 96%ذاتی طور پر نشہ خوری سے متعلق تھے۔ نشہ خوری کی دوڑ میں مہاراشٹر نے پنجاب کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔
اور اگر ذاتی نشہ خوری معاملات میں مہاراشٹر سرفہرست ہے تو این سی بی جو کچھ ممبئی میں کررہی ہے، وہ صحیح قدم ہے۔ لیکن یہ تب ہی موثر ہوگا جب این سی بی کا عملہ اپنے آپریشن کا دائرہ وسیع کرلے۔ ملک کے طول و عرض میں منشیات کے خلاف ایک مستقل مہم کی شدید ضرورت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔
(بشکریہ: دی ہندوستان ٹائمز)
(صاحب مضمون ہندی روزنامہ ہندوستان 
کے مدیراعلیٰ ہیں) 
 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS