کُنالِکا سنگھ
(مترجم: محمد صغیر حسین)
یکم نومبر2020کی رات کو چندور، جنوبی گوا کی ریلوے لائنوں پر ہزاروں لوگ احتجاج کے لیے جمع ہوگئے۔ اس احتجاج کا سبب مورموگاؤ پورٹ ٹرسٹ (MPT) سے پڑوسی کرناٹک کے اسٹیل کارخانوں کو کوئلہ پہنچانے کی رفتار واستعداد بڑھانے کے لیے ایک اور ریلوے لائن بچھانے کا منصوبہ تھا۔ سردست، کرناٹک تک کوئلے کی نقل و حمل میں ریاست ایک اہم کڑی کا فریضہ انجام دیتی ہے۔ تاہم، موجودہ انفرااسٹرکچر کے باوجود، حکومت تین بڑے منصوبوں کے ذریعہ نقل و حمل کی سرگرمیوں کو تیزتر کرنا چاہتی ہے۔ گوا کے مقدر کی خرابی کا ذمہ دار وہ ’’شیطانی گردو غبار‘‘ ہے جو کوئلے کے ذرّات کی شکل میں فضا میں شامل ہورہا ہے۔ اس کی شروعات 2016میں ہوئی جب ایم پی ٹی کے زیرقیادت ’’ساگرمالا‘‘ پروگرام کو مرکز نے ہری جھنڈی دکھا دی جس کے نتیجے میں گوا، کوئلے کے ایک بڑے مرکز میں تبدیل ہوگیا۔
کل ہند لاک ڈاؤن کے دوران مرکزی وزارت برائے ماحولیات، جنگلات اور تبدیلیٔ آب و ہوا(Climate) اور نیشنل بورڈ آف وائلڈ لائف نے ایک ویڈیو کانفرنس پر تین باہم مربوط انفرااسٹرکچر منصوبوں کو ’’Virtual Clearance‘‘ دے دی۔ ان تینوں منصوبوں میں پہلا منصوبہ NH-4A(گوا-کرناٹک شاہراہ) کو چار لین والی شاہراہ بنانا ہے، دوسرا منصوبہ ایک 400KVکی ترسیلی لائن ڈالنے کا ہے اور تیسرا منصوبہ مورموگاؤ سے لونڈا تک موجودہ ریلوے لائن کو ڈبل کرنا ہے۔ یہ تینوں طولی منصوبے محفوظ علاقے کے اندر ہیں۔ جیسا کہ رپورٹ سے ظاہر ہے، ان تینوں منصوبوں کی تکمیل کے لیے مولیم نیشنل پارک (Mollem National Park) اور بھگوان مہاویر وائلڈ لائف سینکچوری (Bhagwan Mahaveer Wildlife Sanctuary) کی 216ہیکٹیئر جنگلی و نجی اراضی منتقل کی جائے گی اور تقریباً 70,000درخت کاٹ گرائے جائیں گے۔ یہ جنگل مغربی گھاٹوں کا حصہ ہے۔ اس کا شمار دنیا کے آٹھ حیاتیاتی تنوع کے اہم مراکز میں ہوتا ہے۔ یہ UNESCO ورلڈ ہیریٹیج سائٹ کا حصہ بھی ہے۔ یہ محفوظ جنگلی علاقہ 721سے زیادہ نباتاتی انواع (Plant Species) ، پرندوں کی 235انواع، تتلیوں کی 219 انواع، تھن دار جانوروں کی 70انواع، رینگنے والے جانوروں کی 45انواع، مچھلیوں کی 44انواع اور جل تھلی جانوروں کی 27انواع کا مسکن ہے۔ ان جانداروں میں مقامی بھی ہیں اور نایاب اور معدوم ہونے کے خطرے سے دوچار جانور بھی شامل ہیں۔ مثلاً ٹائیگر، ڈھولے(دکنی کتے)، دُم کٹے ہرن(Mouse deer)، جنگلی سانڈ(Gaur)، ہندوستانی چیونٹی خور(Indian Pangolin) وغیرہ وغیرہ۔ مزید یہ کہ یہاں چڑیوں کی 18ایسی انواع پائی جاتی ہیں جو صرف مغربی گھاٹوں میں ہی ملتی ہیں۔ چڑیوں کی سات انواع کو معدوم ہوجانے کا شدید خطرہ لاحق ہے۔ مادھو گاڈگل کمیٹی 2012نے اس علاقے کو ماحولیاتی طور پر ایک حساس علاقہ قرار دیا تھا۔
ایک وسیع جنگل سے متصل، بھگوان مہاویر وائلڈ لائف سینکچوری اور مولیم نیشنل پارک نہ صرف نباتیہ و حیوانیہ(Flora and Fauna) کا ایک خزینہ ہے بلکہ گوا اور ملحق کالی ٹائیگر ریزرو (Kali Tiger Reserve) کرناٹک کے درمیان ایک اہم ٹائیگر گزرگاہ بھی ہے۔ 240مربع کلومیٹر رقبے پر پھیلی ہوئی سینکچوری اور نیشنل پارک، گوا کا سب سے بڑا محفوظ علاقہ ہے۔ مغربی گھاٹ کا شمار دنیا کے اہم ترین ٹائیگر مسکنوں میں ہوتا ہے۔ شاہراہ کو چوڑا کرنے اور جنوب مغربی ریلویز کو دوہرا کرنے کے نتیجے میں گھاٹوں کا جنوبی حصہ، شمالی حصے سے کٹ کر رہ جائے گا۔ اس کے نتیجے میں ٹائیگرز اور اُن بے شمار جانوروں کو چوٹ لگنے اور ہلاک ہوجانے کا خطرہ ہے جو اپنے چلنے پھرنے اور گھومنے میں ریلوے ٹریک کو پار کررہے ہوں گے۔ تلاری باندھ اور بے لگام کان کنی نے پہلے سے ہی ہاتھیوں کے مساکن اور گھاٹوں کے دوسرے اہم حصوں کو بہت چھوٹا کردیا ہے۔ مغربی گھاٹوں میں واقع جنگلات جو ہزاروں سال سے موجود ہیں، وہ اگر تباہ ہوگئے تو تلافی ناممکن ہوگی۔ آئی پی سی سی رپورٹ 2019 (Intergovernmental Panel on Climate Change) سے ظاہر ہوتا ہے کہ مغربی گھاٹ دنیاکے بہت زیادہ لچکدار ماحولیاتی نظاموں میں سے ایک ہیں جن سے توقع ہے کہ تبدیلیٔ آب و ہوا سے ہم کو بچانے میں ممد و معاون ہوں گے۔
سڑکیں اور بجلی کی لائنیں جنگلوں کو ٹکڑوں میں تقسیم کرتی رہی ہیں جس کے نتیجے میں نباتیہ اور حیوانیہ بے شمار طریقوں سے متاثر ہوتے ہیں۔ وہ مسکن جہاں ان منصوبوں کو روبہ عمل لانے کی تجویز ہے، وہ ڈریگن فلائی کی ایک نودریافت شدہ نوع کا گھر بھی ہے۔ ڈنڈبلی اور گوا کے درمیان کا علاقہ ہاتھیوں کی گزرگاہ سمجھا جاتا ہے۔ اب ٹائیگر اور تیندوے بھی اس راہ سے گزرنے لگے ہیں۔ تجویز ہے کہ وائلڈ لائف کے لیے آٹھ یا نو زیریں راستے بنائے جائیں گے لیکن یہ نہیں معلوم ہے کہ یہ کہاں بنائے جائیں گے۔ یہ بھی نہیں معلوم کہ ان کے سائنسی اثرات کیا ہوں گے۔ شومئی قسمت سے، یہ منصوبے اس وقت پاس کیے گئے ہیں جب کووڈ-19نے یہ انکشاف کردیا ہے کہ جنگلوں، وائلڈ لائف اور حیاتی تنوع کا نقصان کس طرح حیوانوں کی بیماریوں(Zoonotic diseases)میں اضافہ کرسکتا ہے۔
حکومت کا یہ اقدام ظاہر کرتا ہے کہ ہندوستان کے وائلڈ لائف قوانین کی پامالی، نتائج سے بے پرواہ ہوکر کس دیدہ دلیری کے ساتھ کی جاتی ہے۔ ماہرین کے مطابق، منصوبوں کی تجاویز اور ای آئی اے (Environmental Impact Assessment /EIA) کی تصدیق شاید ہی کبھی جاتی ہو۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ماحولیاتی طور پر حساس علاقوں کی ہماری ریگولیٹریری باڈیز کس قدر حساس ہیں۔ ماحولیاتی انتظام و انصرام کا یہ کس قدر افسوسناک پہلو ہے کہ وزارت برائے ماحولیات، جنگلات اور تبدیلیٔ آب و ہوا اور نیشنل بورڈ آف وائلڈ لائف نے قانونی تقاضوں کو نظرانداز کیا ہے اور ای آئی اے کے مقاصد کی نفی کی ہے۔ فطرت پرستوں، محافظوں اور صدیوں سے ان جنگلوں میں رہنے والوں کی پیش کردہ شہادتوں پر غوروخوض کرنے کی ضرورت ہے۔
کوئلے کی گرد وائلڈ لائف کے لیے بے شمار پریشانیوں کا سبب ہوتی ہے۔ شروعات میں تنفس کے شدید امراض لاحق ہوتے ہیں لیکن ایک عرصے تک کوئلے کی گرد سے پیداشدہ زہریلے مادّوں کی زد میں رہنے کے نتیجے میں جانوروںمیں مہلک بیماریاں اور عارضے پیدا ہوجاتے ہیں۔ نیشنل وائلڈ لائف فیڈریشن کے مطابق: ’’اگر اب بھی ناگزیر اقدامات نہیں کیے گئے تو عالمی حرارت، وائلڈ لائف کو گزند پہنچانے والا سبب بن جائے گی اور یہ نقصان تاریخ انسانی کا سب سے زیادہ خوفناک نقصان ہوگا۔‘‘ تبدیلیٔ آب و ہوا میں کوئلے کا دھواں اور کوئلے سے نکلنے والی گرد اہم رول ادا کرتے ہیں۔ یہ تبدیلیٔ ماحولیاتی نظام کو بڑی حد تک متاثر کرنے اور انواع حیات کو بڑے پیمانے پر ہلاک کرنے کی استعداد رکھتے ہیں۔ زیرزمین اور برسرزمین پانی میں، کوئلے کی گرد، پانی میں گھلی ہوئی آکسیجن کا تناسب کم کرسکتی ہے۔ یہ آبی پودوں کی نشوونما گھٹاسکتی ہے۔ اس تخفیف کے نتیجے میں اُن مچھلیوں اور دوسری آبی مخلوقات کی ہلاکت میں زیادتی ہوسکتی ہے جو آبی پودوں کی خوراک پر منحصر ہوتی ہیں۔
کوئلے کی گرد پیڑپودوں کی ضیائی تالیف (photosynthesis) کی اہلیت کو کم کردیتی ہے۔ اگر قدرتی طریق کار کو دشوار تر بنادیا گیا تو بیشتر پیڑپودے دم توڑنے لگیں گے۔ وہ چند روز تک یا کچھ معاملات میں چند ہفتوں تک خود کو زندہ رکھنے کی جدوجہد کرسکتے ہیں۔ وہ اپنے کو کتنی دیر تک سنبھالے رہیں گے، اس کا انحصار اس بات پر ہوگا کہ انہوں نے اپنے خلیوں میں کس قدر شکر جمع کررکھی ہے۔ بڑے درخت ہوسکتا ہے کہ کئی سال تک موت سے لڑتے رہیں کیوں کہ وہ زیادہ توانائی محفوظ رکھتے ہیں اور ان کے استعمال کی شرح بھی کم ہوتی ہے لیکن زیادہ تر پودے مرجائیں گے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ پودوں پر منحصر جاندار بھی رفتہ رفتہ ہلاک ہوجائیں گے۔ سبزی خور جانوروں کے مرجانے کے بعد گوشت خور اور ہمہ خور بھی جلد ہی ختم ہوجائیں گے۔
کوئلے کی گرد انسانوں کو بھی نقصان پہنچا رہی ہے۔ اس کے سبب تنفس سے متعلقہ امراض بڑھتے جارہے ہیں۔ 2016-17 میں، 12.75ملین ٹن کوئلے کی کھیپ ایم پی ٹی سے لوڈ ہوکر گوا کے پاور اسٹیشن اور ریفائنریوں تک پہنچائی گئی تھی۔ توقع ہے کہ یہ مقدار 2025 تک 19-21 ملین ٹن سالانہ ہوجائے گی اور 2035 تک 34-40 ملین ٹن سالانہ ہوجائے گی۔ یہ سب کچھ گوا کے مقدرکومکمل طور پر تبدیل کردے گا۔ اتنی بڑی مقدار میں کوئلے کی ڈھلائی پورے جنگل، گاؤوں اور شہروں کے لیے خطرناک ہوگی۔ یہ گوا کے ماحولیاتی لچکداری کے لیے ایک شدید دھمکی ہے۔ اگر وقت رہتے اس پر توجہ مرکوز نہیں کی گئی اور اس کا کوئی حل تلاش نہیں کیا گیا تو ہمیں تبدیلیٔ آب و ہوا کے مہیب اور مہلک اثرات کا سامنا کرنے کے لیے آمادہ وتیار رہناچاہیے۔
(مضمون نگار وائلڈ لائف SOSسے وابستہ کمیونی کیشنز ایسوسی ایٹ ہیں)
(بشکریہ: دی پائنیر)