اودھیش کمار
زرعی قوانین کی مخالفت میں جاری تحریک ایسے موڑ پر آکر کھڑی ہوگئی ہے، جہاں سے مستقبل کا اندازہ مشکل ہے۔ 11ویں دور کی بات چیت میں حکومت نے بالکل واضح رُخ اپنایا کہ قوانین کو رد کرنا چھوڑ کر اگر تحریک کار دیگر متبادل پر بات کرنا چاہتے ہیں، تبھی خیرمقدم ہے۔ وزیرزراعت نریندر سنگھ تومر نے واضح طور پر کہہ دیا کہ ہم نے کسانوں کا احترام کرتے ہوئے ان سے بات چیت کی، تجاویز بھی دیں لیکن چوں کہ وہ قانون واپسی کے مطالبہ پر بضد ہیں، اس لیے بات چیت نہیں ہوسکتی۔
ہم نے پہلے بھی کہا کہ رد کرنے کا کوئی دوسرا متبادل ان کے پاس ہے تو لے کر آئیں حکومت غور کرے گی۔ وگیان بھون کی بات چیت میں تومر نے کہہ دیا کہ ہم بات چیت بند کررہے ہیں کیوں کہ آپ قانون رد کرنے پر بضد ہیں اور ملک میں بڑی تعداد اس کے حامیوں کی ہے۔ کسان لیڈران کی عزت رہے، اس کے لیے ہم اتنے وقت تک چرچہ کرتے رہے۔ جو لوگ تحریک کی حمایت میں ہیں، وہ وزیرزراعت کے بیان کی حمایت نہیں کریں گے، لیکن جو زرعی قوانین کی حمایت میں ہیں تحریک کو صحیح نہیں مانتے، وہ کہیں گے کہ وزیرزراعت نے بالکل صحیح بولا ہے۔ آپ دیکھ سکتے ہیں سوشل میڈیا اور علاقائی اخبارات کے صفحات پر حکومت کے ذریعہ بات چیت سے الگ ہونے کے قدم کی حمایت کی جارہی ہے۔
جن لوگوں نے آرڈیننس اور پارلیمنٹ میں پاس ہونے کے بعد ان قوانین پر ہورہے ردعمل اور دلّی تک پہنچی تحریک پر غیرجانبداری اور گہرائی سے نظر رکھی ہے، انہیں یہ قبول کرنے میں کوئی گریز نہیں ہے کہ تحریک چلانے والی تنظیموں نے اتنا سخت رُخ اپنایا، جس میں درمیان کا راستہ نکالے جانے کی گنجائش ختم ہوگئی۔ پہلے ضد تھی اور آہستہ آہستہ یہ ہٹ دھرمی میں بدل گئی۔ جمہوریت میں ہر موضوع پر آر یا پار نہیں ہوتا۔ حکومت کو لچیلا اور نرم رُخ اپنانا چاہیے۔ اس کے متوازی تحریک چلانے والوں کو بھی اس طرح بضد نہیں ہونا چاہیے کہ بات چیت بے مقصد ہوجائے۔ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ تحریک خصوصی طور پر پنجات، ہریانہ اور مغربی اترپردیش کے کچھ حصوں کی کسان تنظیموں کی ہی تحریک ہے؟ دوسرے حصوں کی بھی نمائندگی تحریک میں ہے۔ مگر ان کی تعداد نہ کے برابر ہے۔ جہاں جہاں آپ مظاہرہ دیکھ رہے ہیں، ان کا اصل کردار سیاسی ہے۔ پورے ملک کی ایسی تنظیموں، ایکٹیوسٹوں کا گروپ تحریک میں شامل ہوتا رہا ہے جو مودی حکومت کے مخالف ہیں یا کچھ ایشوز یا زرعی قوانین پر ان کے الگ خیالات ہیں۔ کوئی حکومت کل کسانوں کی آبادی کی اتنی چھوٹی تعداد کے مطالبہ پر اپنا قدم واپس نہیں لے سکتی۔ ہم نے دیکھا وزیراعظم نریندر مودی نے کئی پروگراموں میں کسانوں سے زرعی قوانین پر بات چیت کی، جن میں کسانوں کو ان کی حمایت کرتے دیکھا سنا گیا۔ بی جے پی نے تحریک کے متوازی زرعی قوانین کی حمایت میں پورے ملک میں اجلاس اور پریس کانفرنس منعقد کیں۔ پنجاب اور ہریانہ کے کچھ مقامات کو چھوڑ کر انہیں کہیں مخالفت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔
کوئی حکومت حمایت اور مخالفت کا اندازہ کس بنیاد پر کرتی ہے؟ سرکاری ڈھانچہ میں خفیہ رپورٹ اہم بنیاد ہوتی ہے، میڈیا کی رپورٹ کھنگالی جاتی ہے، پارٹی سے فیڈبیک لیتی ہے۔۔۔! مودی حکومت نے ان سب کے ساتھ عوام کے درمیان جانے، کسانوں سے بات چیت کرنے کا قدم اٹھایا۔ اس میں تینوں زرعی قوانین کی حمایت نظر آئی تو وہ کچھ تنظیموں کے ذریعہ تعددی طاقت اکٹھی کرکے راجدھانی میں دھمال مچانے کے دباؤ میں کیسے آسکتی ہے؟ سپریم کورٹ بھی آگے آیا۔ قانون کے حامیوں اور مخالفین سے عدالت نے توقع کی کہ وہ اس کے ذریعہ تشکیل کمیٹی کے سامنے اپنی بات رکھیں گے۔ تحریک چلانے والوں کا خیال رکھتے ہوئے عدالت نے قانون کے عمل پر اگلے حکم تک کے لیے روک بھی لگادی۔ نویں دور کی بات چیت کے بعد وزیرزراعت تومر نے یہی تو کہا تھا کہ سپریم کورٹ کے ذریعہ عمل پر روک کے بعد قانون ہے نہیں، اس لیے کسانوں کو تحریک ختم کردینی چاہیے۔ عدالت کے ذریعہ تشکیل دی گئی کمیٹی جب بھی حکومت کو بلائے گی ہم اپنا موقف وہاں رکھیں گے۔ انہوں نے تجویز دی کہ کسان تنظیمیں چاہیں تو حکومت بھی کمیٹی بناسکتی ہے جس میں ان کے بھی نمائندے ہوں۔ نویں دور کی بات چیت کے بعد تومر نے واضح طور پر کہا تھا کہ اگلے دور کی بات چیت میں ہم چاہیں گے کہ قوانین کے ہر پوائنٹ پر بحث ہو۔
اس کے متوازی تحریک کر رہی تنظیموں کا کیا رویہ رہا؟ پہلے انہوں نے کہا کہ ہم تو عدالت گئے نہیں تھے، ہم کو عدالت سے کوئی لینادینا نہیں ہے۔ انہوں نے کمیٹی کے ممبران کے ارادے پر سوال اٹھاتے ہوئے ان کے سامنے جانے سے بھی انکار کردیا۔ ماحول ایسا بنا کہ کمیٹی کے ایک ممبر نے اپنے کو اس سے علیحدہ بھی کرلیا۔ اسے دیکھتے ہوئے حکومت نے پھر بیان دیا کہ کسان تنظیمیں اس مرتبہ تیاری کرکے آئیں کیوں کہ ہم ہر پوائنٹ پر چرچہ کرنا چاہیں گے۔ دوسری جانب تحریک کار لیڈر یہی کہتے رہے کہ ہم کو صرف تینوں قوانین واپس چاہیے۔ حکومت بارہا واضح کرچکی تھی کہ زرعی قوانین واپس نہیں ہوں گے۔ 9دسمبر کو حکومت کے ذریعہ دیے گئے 20صفحات کی تجاویز تھیں، ان میں ان پوائنٹس پر وضاحت تھی، جنہیں تحریک کار لیڈران نے اٹھایا تھا۔ ان میں کچھ مطالبات میں قانون میں ترمیم و تبدیلی کا وعدہ بھی تھا۔ اسے بھی مسترد کردیا گیا۔ تحریک کار لیڈر 26جنوری کو یوم جمہوریہ کے موقع پر ٹریکٹر پریڈ نکالنے پر بضد رہے۔ ٹریکٹر پریڈ میں جو ہوا اسے بھی ملک نے دیکھا۔ اس طرح کا سلوک سمجھ سے بالاتر ہے۔
بغیر پروویژن پر بات کیے کوئی حکومت کیسے فیصلہ کرے گی؟ دوسرے جب عدالت سامنے آگئی تو اس طرح کا سخت رُخ اپنائے رکھنے کا کیا سبب ہوسکتا ہے؟ عدالت نے بھی اپنے حکم میں اتنا تو کہا ہی کہ ہم تحریک، دھرنا اور مظاہرہ کے حق پر کوئی سوال نہیں اٹھانا چاہتے، لیکن اس تاریخی حکم کے بعد غیرمعینہ مدت کے دھرنے کی بنیاد نہیں رہ گئی ہے۔ کسانوں کو واپس چلے جانا چاہیے۔ تحریک کرنے والی تنظیموں کی جانب سے آئے بیانات نے عدالت کے ارادے پر بھی خدشات کا اظہار کیا ہے۔ کیا یہ اعلیٰ عدالت کی توہین نہیں ہے؟ اچھا ہوگا کہ حقیقی کسان تنظیمیں اور ان کے لیڈر عملی رویہ اپنائیں۔ وہ سمجھیں کہ قانون فوراً نافذ نہیں ہے۔ وہ ان طاقتوں سے خود کو الگ کریں جو سمجھوتہ نہیں ہونے دینا چاہتی ہیں۔ زرعی قوانین کو ختم کرنے کا اڑیل رویہ چھوڑیں۔ حکومت کے ساتھ کمیٹی بناکر بات چیت کی نئی شروعات کریں۔