محمد حنیف خان
جمہوری نظام میں کبھی آواز پر قدغن نہیں لگایا جاتا ہے اور جب بھی آواز پر بندش لگے گی تو یہ صرف ایک فرد کی آواز پر نہیں ہوگی بلکہ اس کو جمہوریت کے پہلے زینے پر بند لگانے سے تعبیر کیا جائے گا۔ دراصل سرکار کے خلاف آواز کی بلندی، احتجاج اور سوالات جمہوریت کی روح ہیں، ان سے ترقی کے نہ صرف در وا ہوتے ہیں بلکہ اس سے جمہوریت کو آکسیجن بھی ملتی ہے۔یہ علامت ہے آزادی کی، یہ نشانی ہے اس بات کی کہ ہندوستان ایک ایسا ملک ہے جہاںآواز اور سوالات پر پابندی نہیں ہے،مگر حالات تو یہ ہیں کہ توہین عدالت اور حکومت کے خوف سے لوگ زبان نہیں کھول رہے ہیں،ایسا نہیں ہے کہ آمرانہ انداز میں تعذیب کا شکار کیا جاتا ہے بلکہ اس کے دیگر قانونی راستے ہیں جیسا کہ ڈاکٹر کفیل اور تبلیغی جماعت سے متعلق عدالتوں نے اپنے حالیہ فیصلوں میں حکومتوں کے رویوں پر تنقید کرتے ہوئے تبصرے کیے۔ بالکل اسی انداز میں اب یہ سلسلہ عوام سے پارلیمنٹ تک پہنچ گیا ہے جہاں عوامی نمائندوں کے بولنے پر قدغن کا اعلان کردیا گیا ہے حالانکہ حکومت نے کووڈ-19کا حوالہ دیا ہے جو کوئی ایسا اور اتنا اہم سبب نہیں ہے جومنطقی طور پر اپوزیشن کو خاموش کردے۔14ستمبر سے پارلیمنٹ کا اجلاس شروع ہورہا ہے،جس میں ملکی معاملات طے ہوں گے لیکن ایوان بالا اور ایوان زیریں دونوں نے ایک نوٹس کے ذریعہ اپوزیشن/ملک کو مطلع کیا ہے کہ اس بار مانسون اجلاس میں سوالات کا وقفہ ختم کردیا گیا ہے۔ جب اپوزیشن نے سخت احتجاج کیا تو اب محض غیرستارہ سوالات کی اجازت دی گئی ہے جس میں ممبر پارلیمنٹ کو تحریری طور پر جواب دیا جائے گا، جس کا وقفہ محض نصف گھنٹہ رکھا گیا ہے۔ اسی طرح کسی بھی ممبر پارلیمنٹ کو ضمنی سوالات کی بھی اجازت نہیں ہوگی یعنی کسی بھی طرح کے بحث و مباحثہ کا راستہ ہی بند کردیا ہے۔ دراصل ایوان میں چار طرح کے سوالات ہوتے ہیں، ستارہ دار سوالات جس میں متعلقہ وزیر کو زبانی جواب دینا ہوتا ہے، غیرستارہ دار سوالات، ضمنی سوالات اور قلیل اطلاعی سوالات۔ ابتدائی دو طرح کے سوالات کے لیے ممبر پارلیمنٹ کو دس دن قبل اپنا سوال متعلقہ افسر کو دینا ہوتا ہے جب کہ آخری الذکر کا فیصلہ چیئرمین کرتا ہے۔ ستارہ دار اور قلیل اطلاعی سوالات سب سے زیادہ اہم ہیں، اسی لیے ترنمول کانگریس کے ممبر پارلیمنٹ ڈیرک اوبرائن نے غیر ستارہ دار سوالات کی اجازت کو ٹکڑے پھینکنے سے تعبیر کیا ہے، جس کامطلب ہے کہ سرکار کا فیصلہ صرف اپوزیشن کا منھ بند کرنے کے لیے ہے۔ ورنہ وہ ستارہ دار یا قلیل اطلاعی سوالات کی بھی اجازت دے سکتی تھی مگر اپنے منصوبے کے تحت ایسا نہیں کیا۔جب سے کووڈ-19نے ہندوستان میں اپنے پاؤں پسارے ہیں ملک کے معاملات سب الٹ پلٹ ہوگئے، زندگی پٹری سے اتر گئی۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے جس طرح انسانی زندگی متاثر ہوئی ہے، اب تک ملک کی تاریخ میں تقسیم ہند کے علاوہ ایسا کبھی نہیں ہوا۔ایسے میں حکومت کو بھی معلوم ہے کہ اس کے فیصلوں کی وجہ سے جس طرح انسانی زندگی تعذیب کا شکار ہوئی ہے، اس سے متعلق پارلیمنٹ میں سوالات ہوں گے۔ جن کا جواب دینے کے لیے حکومت آئینی سطح پر مجبور ہے۔
ہندوستانی پارلیمنٹ میں 68برس بعد یہ تاریخ دہرائی جارہی تھی۔ 13مئی1952 سے26مئی تک ایوان بالا میں دوسرے اہم امور کی وجہ سے وقفہ سوالات نہیں ہوسکا تھا۔ یہ ہندوستانی پارلیمنٹ کا ابتدائی دور تھا۔جس پر19مئی کو دوران اجلاس سخت تنقید کی گئی اور کہا گیا کہ ایسا لگتا ہے کہ آرٹیکل 118(2)کے تحت ان کو جو اختیار ملا ہے، اس کا استعمال کرتے ہوئے چیئرمین نے ممبران کے سوالات پوچھنے کے حق کو نقصان پہنچایا ہے۔جس کے بعد20مئی کو چیئر مین نے اعلان کیا کہ 27مئی سے وقفہ سوالات کا انتظام کردیا گیاہے،اس وقت سب سے پہلا سوال کرشنا مورتی راؤنے کیا تھا۔اس طرح اسی اجلاس میں ممبران نے اپنا وہ حق حاصل کر لیا تھا جسے کھو دیا تھا۔ضابطہ اور روایت کے مطابق پارلیمنٹ کا پہلا گھنٹہ سوالات کا ہوتا ہے، جس میں ممبران پارلیمنٹ متعدد امور خواہ ان کا تعلق نظریاتی ہو یا عملیاتی ان سے متعلق سوالات پوچھتے ہیں،یہ تحریری بھی ہوتا ہے اور زبانی بھی، پارلیمنٹ ممبران پارلیمنٹ کے سوالات کے جوابات کے لیے جواب دہ ہے۔اس لیے متعلقہ وزیروں کو جواب دینا ہوتا ہے۔
سوالات دراصل سرکار کی مانیٹرنگ کا طریقہ ہے جس کے ذریعہ اپوزیشن /ممبران پارلیمنٹ اس کے کاموں پر نہ صرف نظر رکھتے ہیں بلکہ وہ مجبور کرتے ہیںکہ حکومت ایسا کام نہ کرے، جس کا جواب وہ پارلیمنٹ میں نہ دے سکے۔ یہ ایک طرح کا حق اطلاع ہے جس کے توسط سے آفیشیل معلومات حاصل کی جاتی ہیں۔سوالات کے ذریعہ وزراء کی توجہ بھی متعلقہ معاملے کی طرف مبذول کرائی جاتی ہے تاکہ عوام کو ہو رہی دشواری کا خاتمہ ہو یا اگر دشواری ہونے والی ہو تو اس کو ختم کیا جائے۔یہ عوامی دشواریوں اور پریشانیوں کے ازالہ کا بڑا سبب بھی ہے۔
لاک ڈاؤن کی وجہ سے جس طرح سے معاشی گراوٹ آئی اور عوام نے اپنی نوکریوں سے ہاتھ دھویا ہے، وہ نہایت دلدوز ہے،لاک ڈاؤن میں در پیش تکالیف اور دشواریاں وقتی تھیں جو کم تو نہیں تھیں مگر ان کو حالات کی وجہ سے جھیلا جاسکتا تھا اور عوام نے جھیلا بھی،اس نے پیدل اور سائیکل سے ہزاروں کلومیٹر کا سفر بھوکے پیاسے کیا،اس دوران جانیں بھی گئیں مگر ان وقتی حالات سے نکلنے کے بعد جو طویل مدتی دشواری سامنے آئی ہے حکومت نے اس کے ازالہ کے لیے کیا کیا ہے؟یہ سب سے اہم سوال ہے۔
ایشین ڈیولپمنٹ بینک(اے ڈی بی ) اوربین الاقوامی لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او)کی18اگست کومشترکہ طور پر جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق 41لاکھ نوجوانوں نے پینڈمک کووڈ-19کی وجہ سے اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھویا ہے۔یہ کوئی چھوٹی تعداد نہیں ہے،یہ وہ افراد ہیں جن کا تعلق منظم شعبہ سے ہے وہ افراد الگ ہیں جن کا تعلق غیرمنظم سیکٹر سے ہے۔ممبئی،دہلی،چنئی اور کولکاتا جیسے بڑے شہروں میں محنت مزدوری کرکے اپنے بچوں کی پرورش کرنے والوں کی تعداد ان کے علاوہ ہے جو اس سے دس گنا زیادہ ہے۔ممبئی معاشی راجدھانی ہے جہاں ملک کے ہر کونے سے لوگ محنت مزدوری کے لیے پہنچتے ہیں جو بہت کم مزدوری پر کام کرتے ہیں، لاک ڈاؤن میں سب سے زیادہ ان ہی افراد کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔گھر واپسی کے بعد آج بھی یہ لوگ اپنے گھروں پر ہیں جہاں ان کے پاس کوئی کام نہیں ہے۔جہاں تک بات منریگا کی ہے تو اس کے دستاویز اور حقیقی ڈاٹا میں بھی بہت فرق ہے۔اس کے جائزہ کے لیے اس سے بہتر کوئی عمل ہو ہی نہیں سکتا کہ جو شخص جہاں ہے وہ منریگا کے تحت اس لاک ڈاؤن میں ہونے والے کاموں کا جائزہ لے لے، حقیقت کھل کر سامنے آ جائے گی۔اس لیے آتم نربھر بھارت/خود کفیل ہندوستان کی حکمراں پارٹی کی بنیادیں ہل چکی ہیں،حکومت نے پانچ ٹریلین کی معیشت کا خواب دکھایا تھا مگر شرح نمو مائنس23تک پہنچ چکی ہے۔ ایسے میں پارلیمنٹ میں سب سے زیادہ معاشی محاذ پر ہی اس کی ناکامی سے متعلق سوالات کا اس کو خوف ہے۔اسی طرح سے ہند اور چین کے مابین ہوئی جھڑپ میں ہندوستانی فوجیوں کی شہادت، وزیراعظم کے بیان اور دونوں ممالک کے مابین ہونے والی گفتگو کے ساتھ ہی حالیہ جھڑپ سے متعلق بھی حکومت سے سوالات ہوسکتے تھے کیونکہ مرکز کی بی جے پی کی حکومت ملک کی سلامتی کو جس طرح سے پیش کرتی رہی ہے اس کی وجہ سے اس سے اتنے اہم محاذ پر ناکامی اور فوجیوں کی شہادت سے متعلق سوالات تو ہونے ہی تھے۔ تعلیم کے محاذ پر حکومت اس وقت اپوزیشن کے نشانے پر ہے کیونکہ ایک طرف وبائی امراض کی وجہ سے وہ اجلاس سے وقفہ سوالات تک ختم کر رہی ہے تو دوسری طرف وہ امتحانات کو بھی نہیں ٹال رہی ہے جب کہ طلبا کا مطالبہ ہے کہ حالات میں سدھار کے بعد امتحانات کرائے جائیں۔یہ تو چند اہم امورہیں جن کی جانب اشارہ کیا گیا ہے ورنہ اس طرح کے امور کی ایک طویل فہرست ہے۔
اس تناظر میں جب حکومت کے فیصلے کو دیکھا جائے تو لگتا ہے کہیں ایسا تو نہیں کہ حکومت ان سوالات سے بچنا چاہتی ہے؟حوالہ تو اس نے وبائی امراض کا دیا ہے مگر اس کے پس پردہ کیا ہے اس سے متعلق اپوزیشن رہنما گفتگو کررہے ہیں اور حکومت کے اس قدم کی تنقید کر رہے ہیں۔ کانگریسی ممبر پارلیمنٹ ششی تھرور کا کہنا ہے کہ میں نے چار ماہ قبل ہی کہا تھا کہ طاقتور حکمراں وبائی امراض کا بہانہ بنا کر نہ صرف جمہوریت کو ختم کرنے کی کوشش کریں گے بلکہ اختلاف کی آواز کو بھی دبائیں گے اور وقفہ سوالات میں کتر بیونت اسی کا ایک حصہ ہے۔ان کے مطابق جمہوریت کو مودی نے نوٹس بورڈ تک محدود کردیا ہے۔
بحیثیت ایک شہری سب کا حق ہے کہ وہ جانیں کہ حکومت ایسا کیوں کر رہی ہے؟اگر پارلیمنٹ کا اجلاس ہوسکتا ہے،بل پیش کیے جاسکتے ہیں،حکومت اپنی بات رکھ سکتی ہے تو پھر ممبران پارلیمنٹ جو عوام کے نمائندے ہیں ان کو سوال کرنے کے حق سے محروم کیوں کیا جا رہا ہے؟اس طرح کی اجازت کالعدم کے نام سے ہی تعبیر کی جائے گی اس سے زیادہ اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔مرکز میں حکمراں پارٹی کی حکومت ایک مضبوط حکومت مانی جاتی ہے،وہ جو فیصلے چاہتی ہے کرلیتی ہے اور اس کا نفاذ بھی کرتی ہے،ایسے میں اتنی مضبوط حکومت سوالات سے کیوں بچنا چاہتی ہے ؟کیا اس کو اپنے کیے گئے فیصلوں پر اطمینان نہیں یا پھر ان کے نتائج سے وہ خائف ہے ؟
وبائی امراض کے بعد سے لاک ڈاؤن سے لے کر حکومت کے دیگر فیصلوں اور اس کے نتائج کا اگر جائزہ لیا جائے تو وہ مثبت سے زیادہ منفی ہیں،ایسا ممکن ہے کہ فیصلہ درست مان کر کیا گیا ہولیکن اس کے نتائج امید کے مطابق نہ آئے ہوں جیسا کہ حالیہ سہ ماہی میں شرح نمو کے اعداد و شمار سے واضح ہوتا ہے۔حکومت میں اتنی اخلاقی جرأت ہونی چاہیے کہ وہ اپنے فیصلوں کا دفاع کرے اور اپوزیشن کو مسکت جواب دے۔کوئی ضروری نہیں کہ ہر فیصلہ درست ہی ہو، انسان سے غلطیاں بھی ہوتی ہیں ممکن ہے ایسی غلطیاں سرکار سے بھی ہوئی ہوں۔غلطی ہونا غلطی نہیں ہے بلکہ اس پر اٹھنے والے سوالات کا جواب نہ دینا،ان کو نظر انداز کرنا یا پھر اٹھنے والی آوازوں کو دبانا یہ غلط ہے۔جب تک حکومت جمہوریت کی روح کو نہیں سمجھے گی، اس وقت تک اس کو وہ اعتبار حاصل نہیں ہوگا جو ایک جمہوری حکومت کو ہوتا ہے اور حکومت کا فیصلہ جمہوری روح کے منافی ہے کیونکہ یہ فیصلہ صرف اپوزیشن کا منھ بند کرنے کے لیے کیا گیاہے۔حکومت کو معلوم ہونا چاہیے کہ سوالات پارلیمانی جمہوریت کا آکسیجن ہے جسے کسی بھی صورت میں بند نہیں کیا جاسکتا ہے۔اس نے جس طرح سے سوالات کی اجازت دی ہے وہ ایسا ہے جیسے جاں بلب مریض کے منھ میں اکسیجن لگا کر اس کا سوئچ بند کردیا گیاہو،اس لیے حکومت کو اپنے اس عمل پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔
[email protected]