معصوم مرادآبادی
اس وبائی دور میں بڑی بڑی اہم شخصیات ہم سے جدا ہورہی ہیں۔یوں تو ’کووڈ -19‘ نام کی اس جان لیوا وبا نے پوری دنیا میں کہرام مچارکھا ہے، لیکن ہمارے اپنے ملک میں بھی اس کی تباہ کاریاں کچھ کم نہیں ہیں۔ اندرون ملک اس وبا سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد ایک لاکھ سے اوپر ہوچکی ہے اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔بقول شاعر
لوگ جوق در جوق چلے جاتے ہیں
نہیں معلوم تہہ خاک تماشہ کیا ہے
سابق مرکزی وزیر اور ہر دل عزیز عوامی لیڈر قاضی رشید مسعود اس وبا کا تازہ شکار بنے ہیں۔حالانکہ کئی روز قبل وہ صحت یاب ہوکر اسپتال سے گھر آگئے تھے اور ان کی صحت میں سدھار ہورہا تھا، لیکن اچانک 5 ؍اکتوبر کی صبح ان کی طبیعت ایسی بگڑی کہ وہ اپنے مالک حقیقی سے جاملے۔سوشل میڈیا پر ان کے انتقال کی خبر اتنی تیزی کے ساتھ پھیلی کہ ملک و بیرون ملک ان کے چاہنے والوں میں صف ماتم بچھ گئی۔بلاشبہ وہ ایک ہردل عزیز لیڈر تھے اور انھوں نے یہ مقبولیت بے لوث عوامی خدمت کے راستے سے حاصل کی تھی۔ کم ازکم چار دہائیوں تک وہ مغربی یوپی کی سیاست کا ایک لازمی حصہ بنے رہے ۔ انھوں نے اپنے حلقہ انتخاب سہارنپور سے لوک سبھا کا پہلا الیکشن ایمرجنسی کے بعد 1977میں جنتا پارٹی کے ٹکٹ پرجیتا تھا اور اس کے بعد کبھی پیچھے مڑکر نہیں دیکھا۔وہ پانچ مرتبہ لوک سبھا اور تین مرتبہ راجیہ سبھا کے لیے چنے گئے۔1990میں انھیں وی پی سنگھ کی کابینہ میں مرکزی وزارت صحت کا آزادانہ چارج دیا گیا۔2007میں انھیں یوپی اے نے نائب صدر جمہوریہ کے لیے اپنا امیدوار بنایا تھا،لیکن وہ 75 ووٹوں کے فرق سے یہ الیکشن ہارگئے تھے۔
قاضی رشید مسعود نے اپنی سیاسی زندگی کاآغاز 1975 میں مغربی یوپی کے سب سے طاقتور کسان لیڈر چودھری چرن سنگھ کے زیر سایہ کیا تھا۔ 1975 سے 1977تک وہ بھارتیہ لوک دل کے جنرل سکریٹری بھی رہے۔چودھری چرن سنگھ کے انتقال کے بعد انھوں نے ان کے بیٹے چودھری اجیت سنگھ کے ساتھ طویل سیاسی سفر طے کیا، جنھیں وہ’’ بھائی صاحب ‘‘ کہہ کر مخاطب کرتے تھے۔ بعد کو انھوں نے سماجوادی پارٹی میں شمولیت اختیار کی اور2004میں اس کے ٹکٹ پر لوک سبھا کے ممبر چنے گئے۔2010میں انھیں راجیہ سبھا کے لیے چنا گیا ، لیکن 2012میں یوپی اسمبلی کے انتخابات کے پیش نظر انھوں نے سماجوادی پارٹی اور راجیہ سبھا دونوں کی رکنیت چھوڑکر کانگریس میں شمولیت اختیار کرلی۔ ان کی سیاسی اہمیت کے پیش نظر انھیں کانگریس ورکنگ کمیٹی کا خصوصی ممبر بنایا گیا۔لیکن ان کی سیاسی طاقت کو اس وقت دھچکا لگا جب ان ہی کے خاندان کے وہ لوگ جنھیں انھوں نے انگلی پکڑ کر سیاست میں چلنا سکھایا تھا ، ان کے مدمقابل آگئے۔اس تنازع کی وجہ سے انھیں کافی نقصان بھی ہوا ، لیکن وہ اس کوروک نہیں سکے۔ان کی سیاسی زندگی میںبھونچال اس وقت آیا جب ستمبر 2013میں سی بی آئی کی ایک عدالت نے ایک میڈیکل داخلے کے سلسلے میں انہیں چار سال کی سزا سنائی ۔یہ معاملہ ان کی وزارت صحت کے زمانے کا تھا ۔اس سزا کے بعد انہیں راجیہ سبھا کی رکنیت سے بھی محروم ہونا پڑا۔یہ ملک میں کسی ممبر پارلیمنٹ کو سزا سنائے جانے کے بعد نا اہل قرار دینے کا پہلا واقعہ تھا ۔اس چیلنج کا مقابلہ بھی انہوں نے جواں مردی کے ساتھ کیا،لیکن اس دوران ان کی صحت پراس کا منفی اثر پڑا ۔
قاضی رشید مسعود کا انتقال یوں توملک و ملت کے لیے ایک بڑا سانحہ ہے، لیکن یہ میرے لیے ذاتی طور پر ایک صدمۂ جانکاہ سے کم نہیں ہے۔ گزشتہ ساڑھے تین دہائیوں سے ان سے میرا قریبی اور مخلصانہ تعلق تھا۔وہ اکثر خود ہی فون کرکے میری اور اہل خانہ کی خیریت دریافت کرتے تھے۔کورونا جیسی موذی وبا کی زد میں آنے سے قبل وہ بالکل ہشاش بشاش تھے اور پچھلے مہینے ان سے میری تفصیلی گفتگو ہوئی تھی ، لیکن یہ اندازہ قطعی نہیں تھا کہ یہ آخری گفتگو ہے۔ جب ایک دن اچانک مجھے پتہ چلاکہ رشید بھائی کورونا کی زد میں آگئے ہیں اور نئی دہلی کے اپولو اسپتال کے آئی سی یو میں داخل ہیں تو مجھے جھٹکا سا لگا۔میں نے ان کا فون ملایا تو دیر تک گھنٹی بجتی رہی ۔مجھے یقین ہوگیا کہ رشید بھائی واقعی بیمار ہیں کیونکہ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ انھوں نے میری کال کو نظراندازکیا ہو یا واپس فون کرکے حال چال نہ پوچھا ہو۔ میں لگا تار ان کی صحت کے بارے میں جانکاری لیتا رہا اور اسے سوشل میڈیا پر اپنے دوستوں کے ساتھ شیئر کرتا رہا۔پھر گزشتہ ہفتہ جب یہ خوشخبری ملی کہ وہ صحت یاب ہوکر گھر آگئے ہیں تو میں نے اطمینان کا سانس لیا۔ انتقال سے دو روزقبل انھوں نے اپنے ہاتھ سے کھاناپینا بھی شروع کردیا تھا۔ اس طرح مجھے یہ بھی یقین ہوگیا تھا کہ وہ حسب عادت کسی بھی وقت مجھے فون کرکے میری مس کال کا جواب دیں گے اور میرا حال چال پوچھیں گے۔ لیکن آج اچانک ان کے انتقال کی خبر ملی تو دل دہل کر رہ گیا۔
قاضی رشید مسعودکی پیدائش سہارنپور کے قصبہ گنگوہ میں 15 اگست 1947کو ہوئی تھی۔ انھوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے بی ایس سی اور ایل ایل ایم کی تعلیم حاصل کی ۔ تعلیم سے فراغت کے بعد وہ باقاعدہ سیاست میں آئے اور قومی سیاست کا اٹوٹ حصہ بنے۔وہ سہارنپور کے مسلمانوں کی عزت وقار کی زندہ علامت ہونے کے باوجود’مسلم لیڈر‘ نہیں کہلائے۔انہوں نے ہمیشہ سیکولر سیاست کو پسند کیا اور کسی بھی نفع ونقصان کی پروا کیے بغیر سیکولرزم کے نظریے پر قائم رہے ۔وہ ان معدودے چند سیاستدانوں میں سے ایک تھے جنہوں نے ہمیشہ گاندھی کیپ پہنی۔ علی گڑھ کی شیروانی ان کی بنیادی شناخت تھی اور وہ ہمیشہ سفید شیروانی زیب تن کرتے تھے ۔
وہ مسلمانوں کی علیحدہ سیاست کو مضرت رساں سمجھتے تھے۔ اسی لیے اکثر مسلم قائدین سے ان کی کھٹ پٹ رہتی تھی ۔ مجھے یاد ہے کہ30 مارچ 1987کو بوٹ کلب پر بابری مسجد کی بازیابی کے لیے جو عظیم الشان ریلی منعقد ہوئی تھی اور جس میںکم وبیش پانچ لاکھ مسلمان شریک ہوئے تھے ، اس میں بھی انھوں نے مسلمانوں کو خوش کرنے کی بجائے کچھ ایسی باتیں کہیں جو جذباتیت کے خلاف تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی تقریر پر تیکھا ردعمل ہوا اور ان کی باتیںوہاں موجود مسلمانوں کے جم غفیر ہی نہیں بلکہ مسلم قائدین کو بھی ناگوار گزریں۔ ان کی تقریر سے ماحول میں جو ارتعاش پیدا ہوا تھا اسے دور کرنے کے لیے بعض قائدین کو مائک سنبھالنا پڑا تھا۔ دراصل رشید بھائی ہوا کے رخ پر یا عوام کے پیچھے چلنے والے سیاست داں نہیں تھے بلکہ وہ ہر معاملے میں اپنی ایک مضبوط رائے رکھتے تھے اور اس کے اظہار میں انھیں عوامی سطح پر نامقبول ہوجانے کا خوف کبھی دامن گیر نہیں ہوتا تھا۔
وہ مذہبی طور پر ایک سچے اور پکے مسلمان تھے، لیکن مسلمانوں کی نری جذباتیت کے طرفدار نہیں تھے ۔ وہ ہمیشہ حالات اور وقت کے امر کو ملحوظ خاطر رکھنے کی ترغیب دیتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اپنی سیاسی زندگی میں کبھی مسلمانوں کی سیاست نہیں کی اور خود کو قومی سیا ست میں تسلیم کرایا۔آج مسلمانوں میں ایک بھی ایسا لیڈر نہیں ہے جو ہندو ووٹوں کے سہارے الیکشن جیت سکے ، لیکن رشید مسعود کی خوبی یہ تھی کہ انھیں سہارنپور میں ہندو اور مسلمان شانہ بشانہ ووٹ دیتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ حالات کی تمام تر خرابی کے باوجود برادران وطن کو اپنے ساتھ رکھنا ضروری ہے۔ان کا جتنا قریبی تعلق مسلمانوں سے تھا، اتنا ہی وہ اپنے حلقہ انتخاب کے ہندوؤں کوبھی اہمیت دیتے تھے۔ میں نے ان کے علاوہ کسی مسلم رہنما کے یہاں یہ منظر نہیں دیکھا کہ اس کے ملاقاتیوں میں جتنی تعداد مسلمانوں کی ہوتی تھی اتنے ہی ہندو بھی وہاں نظر آتے تھے ۔ رشیدبھائی سب سے یکساں چاؤ کے ساتھ ملتے اور ان کے کام کرتے تھے۔وہ اپنے تمام متعلقین کو جن کی تعداد ہزاروں میں تھی، فرداً فرداًنام سے پکارتے تھے۔
رشید مسعود کو شکار کا بہت شوق تھا اور وہ اکثر اپنے دوستوں کو شکار کی دعوت میں مدعو کرتے تھے ۔ میں نے بارہا دہلی میں ان کی سرکاری رہائش گاہ پر لذیذ کبابوں کا لطف اٹھایا۔یہ ان کی سیاست کے عروج کازمانہ تھا اور بڑے بڑے سیاست داں ان کے ملاقاتیوں میں شامل تھے۔لیکن ان کی بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ خاص و عام میں کوئی تفریق نہیں کرتے تھے۔ہم اکثر بغیر کسی پیشگی اطلاع کے ان کے دولت خانے پر پہنچ جاتے تھے اور وہ اسی والہانہ محبت کے ساتھ خوش آمدید کہتے ۔قاضی رشید مسعود کو یاد کرتا ہوں تو یادوں کا ایک سیلاب امڈتا چلا آتا ہے ۔وہ ایک ایسے عوامی رہنماتھے جو ہمیشہ عوام کے آگے ہی چلے اور انہوں نے کبھی اپنے پیروکاروں کے پیچھے چلنا پسند نہیں کیا۔ایک اصول پسند قائد کا یہی اصل کردار ہوتا ہے۔
[email protected]