(قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں (غاؔلِب

0

سنجے ٹھاکر
(ترجمہ: محمدصغیر حسین)

اندازہ ہے کہ سال رواں کے آخر تک عالمی نظام معیشت میں ایک فیصد تک تخفیف ہوسکتی ہے۔ اقوام متحدہ کے اقتصادی اور سماجی امور کے محکموں نے اقتصادی بحران کے اور بھی شدید ہونے کے خدشات کا اظہار کیا ہے۔ پوری دنیا پر قرض کی رقم مجموعی پیداوار کے دوگنے سے بھی زیادہ ہے۔ اس وقت نظام معیشت ایک پرآشوب دور سے گزر رہا ہے جس کے سبب قرض جات کی صورت حال اور بھی تشویشناک ہوگئی ہے۔
پوری دنیا کے نظامہائے معیشت کے تھم جانے سے تجارت اور سرمایہ کاری بہت متاثر ہوئی ہیں۔ اس وقت دنیا کی ایک بڑی آبادی وسائل کے نہ ہونے کے سبب بڑے مالی بحران کا سامنا کررہی ہے۔ یہ صورت حال ترقی یافتہ اور ترقی پذیر دونوں طرح کے ملکوں میں ہے۔ ترقی یافتہ ملکوں میں بھی صارفین کے ذریعہ کیے جانے والے خرچ میں تیزی سے کمی آئی ہے، جس کا اثر ترقی پذیر ملکوں سے اشیاء صرف کی درآمد پر پڑے گا۔ عالمی پیداوار میں کمی آنے سے عالمی فراہمی سلسلہ بری طرح متاثر ہوگا۔
انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل فائنانس (Institute of International Finance) کی ایک رپورٹ کے مطابق عالمی قرض 255ٹریلین امریکی ڈالر کو پار کرگیا ہے۔ عالمی قرض میں بھاری اضافے کی وجہ چین اور امریکہ کے ذریعہ بڑے پیمانے پر قرض لینا ہے۔ پوری دنیا میں مجموعی قرض کا 60فیصد حصہ انہیں دونوں ملکوں کا ہے۔ ان کے علاوہ اٹلی، لبنان، ارجنٹینا،برازیل، جنوبی افریقہ اور یونان بھی زیادہ قرض لینے والے ملکوں کی فہرست میں ہیں۔
عالمی قرض بڑھنے کا ایک سبب عالمی بانڈ بازار پر انحصار بھی ہے۔ انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل فائنانس کے مطابق 2009 میں عالمی بانڈبازار 87 ٹریلین امریکی ڈالر تھا جو 2019میں 115ٹریلین ڈالر تک پہنچ گیا۔ اس زاویۂ نظر سے دیکھیں تو دنیا کی سات ارب 70کروڑ کی کل آبادی میں ہر آدمی پر 32,550امریکی ڈالر یعنی 24لاکھ 41ہزار 250روپے سے زیادہ قرض کا بوجھ ہے۔
یہ بہت گہری تشویش کا مسئلہ ہے کہ مجموعی عالمی قرض میں سے کاروباری قرض کا ایک بڑا حصہ خطرے میں ہے۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ پہلے ہی آگاہ کرچکا ہے کہ دنیا کے بڑے نظام معیشت والے ملکوں میں تقریباً 40فیصد یعنی 19ٹریلین امریکی ڈالر کا کاروباری قرض معرض خطر ہے۔ اس قرض کا بڑا حصہ امریکہ، چین، جرمنی، برطانیہ، فرانس اور اٹلی کے پاس ہے۔
ہندوستان کے غیرملکی قرض میں بھی مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ریزرو بینک آف انڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق ہندوستان پر مجموعی غیرملکی قرض 543ارب ڈالر کی حد پار کرچکا ہے۔ اس قرض میں صرف ایک سال کے درمیان 13ارب 70کروڑ ڈالر کا اضافہ ہوا ہے۔ قرض کی یہ رقم جی ڈی پی(GDP) کی 19.7 فیصد ہے۔ حکومت ہند کو ہر سال لاکھوں کروڑوں روپے صرف قرض کے سود کی شکل میں ادا کرنے پڑتے ہیں۔ 2019-2020 کے بجٹ میں اس قرض کے سود کی شکل میں 27لاکھ80ہزار روپے مختص کیے گئے تھے۔
ہندوستان کے کل قرض میں37.3فیصد کا ایک بڑا حصہ کاروباری قرض کا ہے۔ اس کے علاوہ 26فیصد حصہ غیرمقیم ہندوستانیوں کی جمع رقم کا ہے۔ قرض کی باقی رقم میں 17.2 فیصد قلیل مدتی قرض، 11.1 فیصد کثیر فریقی قرض، 2.2فیصد برآمداتی قرض اور 1.1فیصد انٹرنیشنل مونیٹری فنڈ سے لیا گیا قرض ہے۔ اس مجموعی قرض کا تجزیہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ ہندوستان کے ہر شخص پر 25,251روپے کا اوسط قرض ہے۔
قرض کا بوجھ اسی طرح بڑھتا رہا تو اسے ادا کرنے کے لیے بھی قرض لینے کی ضرورت پڑسکتی ہے۔ اس وقت حکومت ہند کو ہر سال اپنی کل آمدن کا 19% قرض کے سود کی صورت میں چکانا پڑتا ہے جو کہ صحت و تعلیم پر خرچ ہونے والی 6% سے بھی کم رقم سے کہیں زیادہ ہے۔
ہندوستانی نظام معیشت میں ایک بڑا حصہ ملک کی تین ریاستوں، مہاراشٹر، تمل ناڈو اور کرناٹک کا ہے۔ ملک کے معاشی نظام میں ان تین ریاستوں کا مجموعی تعاون 780 ارب ڈالر ہے۔ موجودہ صورت حال میں یہ ریاستیں ملک کی سب سے زیادہ متاثرہ ریاستیں ہیں جس کا اثر ملک کی مجموعی معیشت پر پڑنا یقینی ہے۔ ایسے میں ملک پر عالمی قرض کا بوجھ بھی بڑھے گا۔
ملک میں 2019 تک فی کس آمدنی 10,534 روپے ماہانہ یا 1,26,408روپے سالانہ تھی۔ مالی سال 2020-2021 میں ملکی سطح پر فی کس آمدنی کم ہوجانے کا اندیشہ لاحق ہے۔ اسٹیٹ بینک آف انڈیا کے ایک مطالعے ’’ایکوریپ‘‘ کے مطابق مالی سال 2020-2021کے دوران کل ہند سطح پر فی کس آمدنی 5.4فیصد کم ہوجائے گی۔
اس رپورٹ میں رواں مالی سال کے دوران مہاراشٹر، گجرات، تلنگانہ اور تمل ناڈو جیسی دولت مند ریاستوں کی فی کس آمدنی دس سے بارہ فیصد کم ہوجانے کا اندازہ ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق کل ملاکر 8ریاستوں اور یونین ٹیریٹریز کی فی کس آمدنی میں اس دوران دہائی عدد میں گراوٹ کا خدشہ ہے۔
ان ریاستوں کا ملک کی جی ڈی پی میں 47 فیصد تعاون ہے۔ جن ریاستوں کی فی کس آمدنی، کل ہند اوسط سے اونچی ہے، ایسی دولت مند ریاستیں فی کس آمدنی کے معاملے میں زیادہ متاثر ہوں گی۔ مدھیہ پردیش، اترپردیش، بہار اور اُڈیشہ جیسی ریاستوں میں، جہاں فی کس آمدنی قومی اوسط سے کم ہے، ہر شخص کی آمدنی میں 8فیصد کی گراوٹ آنے کا اندازہ ہے۔ اس رپورٹ میں مالی سال 2020-2021 کے دوران جی ڈی پی میں 6.8فیصد کی گراوٹ کا اندازہ لگایا گیا ہے۔ 
موجودہ صورت حال سے پہلے بھی ہندوستانی معیشت بہت برے دور سے گزر رہی تھی۔ ہندوستان کا نام نہاد جی ڈی پی 45سالوں اور حقیقی جی ڈی پی11سالوں میں سب سے کم تھا۔ بے روزگاری کی شرح گزشتہ 45سالوں میں سب سے زیادہ تھی۔ دیہی سطح پر مانگ گزشتہ 40سالوں میں سب سے نیچی سطح پر تھی۔ ایسے میں معاشی بحران کا تجزیہ صرف موجود پیش منظر میں نہیں بلکہ جامع پس منظر میں کیا جانا چاہیے۔
انٹرنیشنل مونیٹری فنڈ، عالمی بینک، ایشیائی بینک اور موڈیز انوسٹرز سروس جیسے ادارے ہندوستان کی معاشی ترقی کی شرح کے تخمینے میں پہلے سے ہی بڑی کٹوتی کرچکے ہیں۔
عالمی معاشی بحران کے زاویۂ نظر سے دو پہلوؤں پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ پہلا، کسانوں، غیرمنظم سیکٹر کے مزدوروں اور شہروں میں چھوٹا-موٹا کام کرکے روزی روٹی کمانے والے لوگوں پر توجہ دینی ہوگی جو معیشت کے سب سے نچلے پائیدان پر کھڑے ہیں اور دوسرا وہ سیکٹر جو پیداواری سیکٹر کہلاتا ہے۔
دنیا بھر کی حکومتوں کو ان دونوں ہی پہلوؤں پر کام کرنا ہوگا۔ اس کے علاوہ متوسط طبقے پر بھی توجہ دینی ہوگی کیوں کہ معاشی نظام کے بحران میں یہ طبقہ سب سے زیادہ متاثر ہوتا ہے اور حکومتوں کے ذریعہ جاری کیے جانے والے راحت پیکجوں میں اس کا کہیں نام نہیں آتا۔
ہندوستان میں معاشی مسئلوں پر قابو پانے کے لیے موجودہ حالات سے ہٹ کر گزشتہ دو سالوں سے چلی آرہی معاشی سستی کو بنیاد بنایا جانا چاہیے۔ اس بات پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے کہ ملک میں اس وقت کے بحران سے پہلے ہی مانگ پر منحصر، معاشی کسادبازاری آچکی تھی اور ملک اب فراہمی پر مبنی معاشی سستی کا بھی سامنا کررہا ہے۔
(بشکریہ: جن ستّا)
(مضمون نگار ادیب، صحافی، سماجی کارکن اور مشہور کالم نگار ہیں)
 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS