اے۔ آزاد قاسمی
اکیسویں صدی کے اس گلوبلائزیشن کے دورمیںکہ جب سائنس وٹیکنالوجی ہماری زندگی کا ایک حصہ بن چکی ہے، دنیاکی دوسری قومیں اس کے حصول میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے اور آگے بڑھنے کی کوشش میں ہمہ وقت کوشاں ہیں،اس کا مشاہدہ ہم آئے دن کرتے رہتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ہمیںاس تلخ سچائی کااحساس بھی ہے کہ اس میدان میں ہم کہاں کھڑے ہیں اور ہماری حیثیت کیاہے؟
ابھی چند دن پہلے اخباروں میں ملک کی نمائندہ اور انتہائی فعال تنظیم جمعیۃ علماء ہند کے قابل قدر صدر اور بزرگ شخصیت مولاناسیدارشدمدنی کی ایک خبرنظرسے گزری جو ہمیں خواب غفلت سے بیدارکرنے اور ہمارے متمول حضرات کی نسل نوکے تئیں بے توجہی کی شکایت سے عبارت تھی۔انہوں نے اعلیٰ تعلیم کے شعبوں میں ہندوستانی مسلمانوںکے پچھڑنے اوردن بدن تشویشناک ہوتی صورت حال پرجس تعمیری فکر کا اظہار کیا ہے اور مسلمانوں کومتنبہ کرتے ہوئے جو خط امتیاز کھینچا ہے، وہ ان کی مومنانہ فراست اور ملت کی موجودہ صورت حال پر ان کی بروقت گرفت کا مظہر ہے۔ مولانا مدنی ملک کی اس عظیم تنظیم کے سربراہ ہیں،جس کے اکابرین کی قربانیاںآب زر سے لکھے جانے کے لائق ہیں۔میری مراد جمعیۃ علماء ہند کے اکابرین کی بیش بہا خدمات سے ہے، جن کی شب و روزکی محنتیںملک کی آزادی اور یہاں کی مسلم آبادی کی بہبودی اور تعمیر وترقی کے امور میںملک کی سب سے بڑی اقلیت کی حصہ داری کو یقینی بنانے سے عبارت رہی ہیں۔ بالخصوص ملک میں مسلمانوںکے دینی وملی تشخص،تحفظ اور ملک میں سیکولرآئین کے نفاذ کے سلسلہ میںجو خدمات جمعیۃ علماء ہندکے اکابرین نے دی ہیں،وہ ناقابل فراموش ہیں۔
جمعیۃعلماء ہند کے اکابرین کی تحریروں کے مطالعہ سے یہ حقیقت بھی واضح ہوجاتی ہے کہ جمعیۃعلماء ہند کی دوسرے شعبوں کے ساتھ ساتھ تعلیمی میدان میں بھی بے شمارخدمات رہی ہیں۔ ایک پل کیلئے بھی جمعیۃ کے اکابرین اس سے بے پروا نہیں رہے، ملک کی آزادی کے فوراً بعد اکابرین جمعیۃنے دسمبر1954 میں آزاد ہندوستان میں دینی تعلیم کے تحفظ،توسیع اور ترویج واشاعت کے لیے ملک کے صنعتی شہر ممبئی میں ’’آل انڈیا دینی تعلیمی کنونشن‘‘ کا انعقادکرکے ایک دینی تعلیمی بورڈ قائم کیا تھا اور ملک کے طول وعرض میں مسلمانوںمیں دینی تعلیم کے تعلق سے بیداری لانے کیلئے چھوٹی بڑی کانفرنس اور کنونشن کرکے مکاتب ومدارس قائم کئے تھے۔جمعیۃعلماء ہند کی اس آواز پر مسلمانوں نے بھرپورتوجہ دی،حالات اور ضرورتوں کے مطابق یہ کام اب بھی کسی نہ کسی شکل میں پورے ملک میں جاری ہے،جس کے مثبت اورخاطر خواہ نتائج ہمارے سامنے آرہے ہیں۔ اکابرین جمعیۃ کی مخلصانہ کاوشوں کاہی نتیجہ ہے کہ آج ہم بڑی حدتک اپنی مذہبی تعلیم میں خودکفیل ہیںاورالحمدللہ روز بروزاس میں اضافہ ہی ہورہا ہے۔اگر یوں کہاجائے توبیجانہ ہوگاکہ ملک میں مدارس ومکاتب کا قیام جمعیۃعلماء ہند اور اس کی کامیاب قیادت ہی کی مرہون منت ہے۔ مولانا مدنی نے جمعیۃ علماء ہند کی مسندِ صدارت پر فائز ہونے کے بعد سے آج تک ملی مسائل پر جہاں ارباب اقتدار کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سیاسی فہم وتدبر کے ساتھ آواز حق بلند کرنے میں ہمیشہ حیرت ناک پیش قدمی کی ہے،وہیں ان کی حکمتِ عملی کا یہ بھی ایک قابل تحسین رخ رہا ہے کہ مظلوم وبے کس ملت کے افراد کے جذبات کی قدرکرتے ہوئے، ان کے آئینی حقوق کی لڑائی بھی جمعیۃ علما ء ہندکی جانب سے لڑنے کاحوصلہ دکھایاہے۔چنانچہ ارباب اقتدار کی چاپلوسی کی روایات کو چیلنج کرتے ہوئے بروقت تعمیری انداز میں نہ صرف مسائل کی صحیح نشاندہی کی بلکہ اس کے حل کیلئے ارباب اقتدار کے سامنے جرأتمندانہ انداز میں مفید و تعمیری مشورے بھی رکھے ہیں۔
جس طرح جمعیۃ علماء ہندکے صدر محترم نے اب تک مظلوم ملت کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کا مقابلہ آئین کی حدود میں رہ کر کرنے کی ایک نئی راہ ہندوستان کی مسلم قیادت کو دکھائی ہے،وہ یقینا قابل تحسین اور لائق تقلید ہے۔ خواہ دہشت گردی کی آڑ میں مسلم نوجوانوں پر عرصۂ حیات تنگ کرنے کا مسئلہ ہو، تحفظ شریعت کا معاملہ ہو، مدارس کی خودمختاری اور لازمی حق تعلیم کے متنازع قانون میں ترمیم کی دانشوارانہ مہم ہو، یا موجودہ وقت میں متعصب گودی میڈیا پر پابندی لگانے کامعاملہ ہویاپھر لوجہاد جیسے غیر آئینی قانون کی مضررسانیوںپر بروقت گرفت،مولانا موصوف نے ہمیشہ ملت اسلامیہ ہند کی ترجمانی کا فریضہ نبھانے کی کوشش کی ہے۔اب صدرجمعیۃ نے ملت کوتعلیمی میدان میںسرگرم ہونے کی نہ صرف یہ کہ دعوت دی ہے بلکہ اس معاملہ میںلوگوںکو راغب کرنے کیلئے عملی لحاظ سے انہوںنے پیش قدمی کی ہے،جس کا ثبوت ضرورت مند طلبا کے لیے پروفیشنل تعلیمی وظائف کے سلسلوں کو مزید آگے بڑھانے کافیصلہ ہے۔ملک میں مختلف سروے سے یہ بات صاف ہوچکی ہے کہ ہندوستانی مسلمانوںمیں اس وقت پروفیشنل اورمسابقتی تعلیم کا فقدان ہے بلکہ یہ کہنا زیادہ صحیح ہوگاکہ ہمارے بچے اس طرف بہت کم توجہ دیتے ہیں، ایک بڑی افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کی ایک بڑی آبادی اقتصادی طورپر پسماندگی کا شکارہے اوردووقت کی روٹی کا حصول ہی اس کی زندگی کا حقیقی مقصدبن کررہ گیا ہے، پھر یہ بھی ہے کہ آزادی کے بعد سے حکومتوں نے مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا۔ چنانچہ یہ بھی ہواکہ اعلان کے باوجود کسی ترقیاتی پروگرام پر عمل نہیں ہوا۔ مسلمانوں کو سبزباغ تودکھائے گئے مگر عملی طورپر کچھ نہیں ہوا یہی وجہ ہے کہ سچرکمیٹی کی رپورٹ آنے کے بعد بھی مسلمانوں کی فلاح وبہبودکے حوالہ سے کوئی ٹھوس کام نہیں ہوا اور اگرکچھ ہوابھی ہے تو صرف کاغذوں پر۔ مسلمانوں کے پاس وافرتعلیمی ادارے بھی نہیں ہیں ایسے میں بہت سے والدین اپنی غربت کی وجہ سے دوسرے تعلیمی اداروں میں اپنے بچوں کو تعلیم دلوانے کا حوصلہ نہیں کرپاتے۔ چنانچہ مسلمانوں میں ڈراپ آؤٹ کی شرح بھی دوسری قوموں کے مقابلے کہیں زیادہ ہے۔ ایسے میں جمعیۃعلماء ہند کی طرف سے جاری اسکالرشپ کے اعلان سے بہت سے کمزوراورمعاشی طورپر پریشان والدین فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔
[email protected]