جاں بلب ندیاں

0

دنیش پرساد مشرا
(مترجم: محمد صغیر حسین)

ندیاں تہذیب انسانی کی روح ہیں جو حیات بشری کے ساتھ ساتھ تمام جانداروں اور پیڑ پودوں سمیت تمام تہذیبوں کو زندگی کی بنیاد بخشتے ہوئے انہیں حرکت و حرارت عطا کرتی ہیں۔ لیکن آج یہی ندیاں اپنے وجود کے بحران سے گزر رہی ہیں۔ اگر یہی حالات رہے تو وہ دن دور نہیں جب ندیاں سوکھ چکی ہوں گی اور اُن کا وجود ہی باقی نہ رہے گا۔ اس لیے یہ سوال اٹھتا ہے کہ پانی کی بے انتہا مقدار سے لبریز دنیا کی ان حیات بخش ندیوں کی حالت ایسی کیوں ہوتی جارہی ہے؟ قدرتی طور پر کافی پانی ہونے کے باوجود اِن میں پانی کی کمی کیوں ہوتی جارہی ہے؟ ذرا غور کریں تو ندیوں کی بدتر حالت کے اسباب اور اُن کے اِزالے کی تدبیریں ہمارے سماج اور بندوبست میں ہی موجود ہیں۔
آج ندیاں ملک اور سماج کی بے لگام ترقی کا شکار ہوگئی ہیں۔ جہاں ایک طرف اُن کا پانی بے روک ٹوک اوربلاحدو حساب زرعی زمینوں کی سچائی اور صنعتی ترقی کے نام پر نکالا جارہا ہے، وہیں دوسری جانب، ندیوں کی گزرگاہوں پر ترقی کے نام پر قبضۂ بے جا کے ذریعہ اُن کی روانی کو روکا جارہا ہے۔ ساتھ ہی، ندیوں کے کنارے مستقل بن رہے کنکریٹ کے جنگلوں کی وجہ سے درختوس کی بے لگام کٹائی سے، زیرزمین آبی ذخائر کی کمی کا بحران پیدا ہوگیا ہے۔ ندیوں کی گزرگاہوں میں رکاوٹ پیدا ہوجانے کی وجہ سے ندیاں اپنے ساتھ کنکریٹ کے جنگلوں کے ملبے، مٹی، پیڑپودے وغیرہ خود لاتی ہیں جو اُن کی راہ میں مزید رکاوٹیں پیدا کرتے ہیں۔ یہ ساری چیزیں گاد کی شکل میں روانیٔ آب کو روکتی ہیں اور ندیوں کو اُتھلا بناتی ہیں۔ ندیوں میں آیا یہ بحران پوری طرح انسان ساختہ ہے جس پر قدغن لگاکر ندیوں میں نئی روح پھونکی جاسکتی ہے؟
اترپردیش کی گنگا،جمنا،گومتی، گھاگھرا، کین، راپتی سمیت بہت سی ندیوں میں پانی گھٹ کر برائے نام رہ گیا ہے۔ انہیں دیکھ کر لگتا ہے کہ اب یہ ندیاں اپنے وجود کے بحران سے جوجھ رہی ہیں۔ آج گنگا دنیا کی آلودہ ترین ندیوں میں سے ایک ہے۔ گنگا کو آلودگی سے نجات دلانے کے لیے سرکاری سطح پر طویل عرصے سے کوششیں جاری ہیں لیکن ابھی تک صورت حال میں ذرّہ برابر فرق نظر نہیں آیا ہے۔ مرکزی آلودگی کنٹرول بورڈ نے اپنے مطالعے میں کہا ہے کہ ملک کے 900سے زائد شہروں اور قصبوں کا ستر فیصد گندا پانی ندیوں میں صاف کیے بغیر ہی ڈال دیا جاتا ہے۔ کارخانے بھی ندیوں کو آلودہ کررہے ہیں۔ قومی راجدھانی دِلّی کی جمنا اور اس کے مضافات میں بہنے والی کالی اور ہنڈن ندیاں اِس کی واضح مثالیں ہیں۔
اسی طرح گوالیار کی سورن ریکھا ندی اور مُرار ندی جو کبھی اس شہر کی خطِ زندگی ہوا کرتی تھیں، آج نالے میں تبدیل ہوچکی ہیں۔ یہ صورت حال ملک کی زیادہ تر ندیوں کی ہے۔ گنگا، جمنا، گومتی، نرمدا، راپتی، گوداوری، کرشنا، کاویری، تاپی، برہم پتر، جہلم، چناب، راوی، بیاس، سرجو، رام گنگا، بوڑھی گنڈک ندیاں ہوں یا اِن کی معاون ندیاں، تمام کی تمام بے جا قبضہ و تصرف اور آلودگی سے برسرپیکار ہیں۔
ندیوں کی روانی اور اُن کی زندگی کی حفاظت کے لیے سماج سے لے کر حکومتوں کی سطح تک جو چشم پوشی ہوتی آئی ہے، اسی کا نتیجہ ہے کہ آج ندیوں کا وجود ختم ہوتا جارہا ہے۔ ملک کی تقریباً ساڑھے چار ہزار ندیاں غائب ہوچکی ہیں اور اُن کے نقش قدم پر چل کر دوسری ندیاں بھی اپنا وجود ختم ہونے کی منتظر ہیں۔ ایسی ندیوں کا وجود صرف برسات کے موسم میں سامنے آتا ہے۔ برسات کا موسم گزر جانے کے بعد وہ عام طور پر بے آب ہو کر یا تو سوکھ جاتی ہیں یا پھر صنعتی کچرے اور زہریلے کیمیائی مادّوں کا نالا بن جاتی ہیں۔
ندیوں کی متواتر کم ہورہی سطح آب کی وجہ سے یا تو یہ موسمی بنتی جارہی ہیں یا پھر پوری طرح سوکھ رہی ہیں۔ کیرالہ میں بھارت پوجا، کرناٹک میں کابِل، تمل ناڈو میں کاویری پلار، اڑیسہ میں موسل اور مدھیہ پردیش میں چھپرا سوکھنے کی زد پر ہیں۔ ان کی بہت ساری چھوٹی چھوٹی معاون ندیاں تو غائب ہی ہوگئی ہیں۔ گوداوری کئی جگہوں پر سوکھ چکی ہے۔ کاویری اپنی چالیس فیصد روانی گم کرچکی ہے۔ کرشنا اور نرمدا میں تقریباً ساٹھ فیصد پانی کم ہوچکا ہے۔
آج ملک کے ہر شہر میں متعدد ایسے گندے نالے ہیں جو کبھی ندی کی شکل میں بہا کرتے تھے۔ قومی راجدھانی دلّی میں بہہ رہی جمناندی صنعتی کچرے اور شہری گندگی کے سبب اپنا وجود کھونے کے آخری مرحلے میں پہنچ چکی ہے۔ شہر کے کچرے اور سیور کو ڈھوتا ہوا نجف گڑھ نالا آج باشندگان دلّی کے لیے ایک گندا نالا ہے اور پوری دِلّی اسے گندے نالے کی حیثیت سے ہی جانتی ہے لیکن یہ تو شاید ہی کسی کے علم میں ہو کہ اس نالے کا مصدر کبھی نجف گڑھ جھیل ہوا کرتی تھی جو صاحبی ندی سے جڑی تھی۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اب صاحبی ندی اور جھیل دونوں کا وجود ختم ہوچکا ہے اور بچا ہے تو صرف نجف گڑھ کا نالا۔
اسی طرح لدھیانے کا بوڑھا نالہ بھی اس کی ایک زندہ مثال ہے جو ایک نسل پہلے تک صاف و شفاف پانی سے لبریز، ہردم رواں دواں ’بوڑھی ندی‘ کی شکل میں بہتی تھی، لیکن اب وہ بھی ایک گندے نالے میں تبدیل ہوچکی ہے۔ ہر سال برسات کے موسم میں ممبئی کا جو حال ہوتا ہے وہ کم تشویش کا باعث نہیں ہے۔ پورا شہر ایک وسیع و عریض دریا کی شکل اختیار کرلیتا ہے اور زندگی ٹھہر سی جاتی ہے۔ ممبئی میں کبھی خط حیات سمجھی جانے والی ایک میٹھی ندی ہوا کرتی تھی۔ اس ندی کا وجود اب ختم ہوچکا ہے اور یہ ایک نالا بن چکی ہے۔ اس کا سب ناجائز مداخلت (Tresspass) ہے۔ مداخلتِ بے جا کی وجہ سے ہی موسم باراں میں یہ نالا اُبل پڑتا ہے اور پانی پورے شہر میں سیلاب کی مانند پھیل جاتا ہے۔
ملک کی زیادہ تر ندیاں کافی پانی کی قلت، آلودگی اور صنعتی کچرے کی وجہ سے آج اپنی اصل شکل سے ہاتھ دھوکر گندے نالوں میں تبدیل ہوگئی ہیں۔ ندیوں میں ہورہی یہ تبدیلی محض اُن کی اپنی شکل و صورت کی تبدیلی نہیں ہے بلکہ اُس سے صورت حال میں بھی تبدیلی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ ندیاں اپنے مقام اختتام اور قرب و جوار کے علاقوں کو متاثر کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی گزرگاہوں سے سیکڑوں میل دور کے رقبے کو بھی متاثر کرتی ہیں۔ یہی سبب ہے کہ آبی جاندار تو تقریباً صفحۂ ہستی سے مٹتے جاہی رہے ہیں، اُن کے قرب و جوار میں رہنے والے جاندار اور پیڑ پودوں کے ساتھ ساتھ حیات بشری بھی متاثر ہورہی ہے۔
ایسے پریشان کن حالات میں بچاؤ کا ایک ہی راستہ ہے کہ بڑے پیمانہ پر تحفظ و ذخیرہ اندوزی آب کی سمت میں کام کرکے زیرزمین سطح آب کو بڑھایا جائے۔ مضافاتی علاقوں میں وسیع پیمانے پر شجرکاری ہو اور ندیوں کی گزرگاہوں میں ہونے والی ناجائز مداخلتوں کو فوری طور پر ختم کرتے ہوئے ندیوں میں جانے والے صنعتی کچرے اور آلودہ پانی کو ندیوں میں شامل ہونے سے لازمی طور پر روکا جائے۔ ایسا کرنے سے ہی موت کی جانب بڑھتی ہوئی ندیوں کو حیات بخشی جاسکتی ہے، وگرنہ ناپید ہوچکی بہت سی چھوٹی ندیوں کی طرح، ترقی اور تہذیب و ثقافت کی امین یہ ندیاں بھی ایک دن ماضی کا حصہ بن چکی ہوں گی۔
(بشکریہ: جن ستّا)
(نوٹ: مضمون نگار ایک مشہور کالم نویس ہیں۔ تحفظ ماحولیات پر اُن کے مضامین اکثر و بیشتر اخبار و رسائل کی زینت بنتے رہتے ہیں۔)
 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS