ارچنا دتّا
(مترجم: محمد صغیر حسین)
کیا مرد و زن کی تفریق کی جامد فکر ایک قصہ پارینہ ہوگئی؟ نہیں بالکل نہیں۔ آزادیٔ نسواں کے دور میں بھی ایسے واقعات کی کمی نہیں ہے جو جنسی تفریق کی عکاسی نہ کرتے ہوں۔ ایک مشہور سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر وسیع پیمانے پر وائرل ہونے والے ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ ’’ورک فرام ہوم‘‘ کرنے والا شوہر پھر سے آفس جانے کی شدید آرزو کرتا ہے کیوں کہ وہ گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹانے کے اس مطالبے سے پریشان ہو اٹھتا ہے جو اس کی بیوی دن رات کرتی رہتی ہے۔ یہ ویڈیو واضح طور پر اس فکر کی ترجمانی کرتا ہے کہ عورتوں کی قلمرو گھر کی چہاردیواری کے اندر ہے اور مرد گھر کے باہر کی دنیا کے بے تاج بادشاہ ہے۔
موقع تھا سینیٹ جوڈیشیری (Senate Judiciary) کے ذریعہ جسٹس ایمی کونی بیریٹ (Justice Amy Coney Barret) کی تصدیق و توثیق کا۔ اس موقع پر اُن کے بڑے کنبے اور مادرانہ ذمہ داریوں کے تئیں اُن کے عزم مصمم کا خوب خوب چرچا ہوا۔ لیکن اس کے برعکس جب سابق جسٹس اینٹونن اسکیلیا (Justice Antonin Scalia) کا معاملہ زیرغور آیا تو نہ تو اُن کے بڑے کنبے کا کوئی ذکر ہوا اور نہ ہی اُن کی پدرانہ ذمہ داریوں کی بحسن و خوبی بجا آوری کے لیے لب کشائی کی گئی۔
موجودہ وبا کے دوران معدودے چند خواتین سیاسی لیڈران وبا پر قابو پانے میں اپنی مؤثر حکمت عملی پر دادوتحسین کی حق دار قرار دی گئیں۔ بحران کے دوران اُن کی کسر نفسی، انکساری، قوت فیصلہ، شمولیت اور ہمدردی کے جذبے نے ان کے برادران وطن کے دل جیت لیے۔ ان واقعات نے موجودہ راسخ اعتقاد کہ قیادت اور لیڈری صرف مردوں کی رہین منت ہوتی ہے، کو پاش پاش کردیا۔
کاٹھمنڈو یونیورسٹی اسکول آف مینجمنٹ کی پروفیسر روشی لیمی چھانے (Roshee Lamichhane) قدرے افسوس کرتے ہوئے کہتی ہیں: ’’بچوں کی نشوونما اور پرورش و پرداخت سے ہی جنسی تفاوت کا تخم بچوں کے مزاج میں پیوست کردیا جاتا ہے جو اکثر و بیشتر لڑکیوں کو مطیع، فرماں بردار اور منکسرالمزاج بنادیتا ہے اور لڑکوں کو بالادستی رکھنے والے کردار کا حامل بنادیتا ہے۔‘‘ سائرہ شاہ حلیم ایک سماجی کارکن، مصنفہ اور فلم ساز ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’’اسکولی نصاب اور درسی کتابیں جنسی رول کو مزید سخت و کرخت بناتی ہیں اور معصوم دماغوں میں متعدد تحفظات کو پیوست کردیتی ہیں۔ مثال کے طور پر D for Doctor، اس میں ایک آدمی کو دکھایا جاتا ہے جو آفس جاتا ہے۔ N for Nurse، اس میں ایک عورت کو دکھایا جاتا ہے جو نرس کے فرائض ادا کرنے کے ساتھ ساتھ ایک ماں کی حیثیت سے گھر میں کھانا بھی تیار کرتی ہے۔ مرد و زن سے الگ الگ یہ توقعات بیشتر لڑکیوں کی آرزوؤں، انتخابات اور آزادی کے تصور میں رکاوٹ بنتی ہیں۔‘‘ وہ مزید کہتی ہیں: ’’یہاں تک کہ جذباتی ردعمل بھی جنسی تفریق و تفاوت کے پرتو ہوتے ہیں، مثلاً جارجیت، غصہ اور تشدد مردانہ کردار کی علامتیں سمجھی جاتی ہیں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ عورتوں کے تحفظ کے لیے بنائے گئے متعدد قوانین کے باوجود عورتیں مردوں کی زیادتیاں جھیلتی رہتی ہیں۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ مردوں کو سماجی تعاون بھی حاصل ہوتا ہے۔‘‘
مرد و زن کے مابین تفریق کو مزید تقویت دینے میں سماجی-مذہبی قوتوں کے رول کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ مقدس ہندو گرنتھ ’منواسمرتی‘ جس کے اقوال و احکام پر آج بھی لوگ عمل پیرا ہیں، وہ ’’عورتوں کی خودمختاری پر سخت کنٹرول‘‘ رکھنے کا حکم دیتا ہے اور عورتوں کو ہدایت دیتا ہے کہ زندگی کے مختلف ادوار میں مرد سرپرستوں مثلاً باپ، شوہر اور بیٹے کے زیرتحفظ ونگہداشت رہیں۔ کرواچوتھ، رکشابندھن، شیوراتری وغیرہ جیسے تہوار شاید انہیں فرمانوں کا نتیجہ ہیں۔ ہندوستان کی چند ریاستیں اب بین مذہبی شادیوں یا نام نہاد ’’لوجہاد‘‘ کے خلاف قوانین بنارہی ہیں۔ یہ بھی خاندان کی عزت اور وقار کے نام پر بہنوں اور بیٹیوں پر پدرسری (patriarchal) فرمان تھوپنے کی ایک اور کوشش ہے۔
اسی طرح مشہور تفریحی انڈسٹری بھی تفریق مرد و زن کے واہمے کو اپنی کہانیوں، کرداروں اور ڈائیلاگوں سے زندہ رکھنے کے لیے کم ذمہ دار نہیں ہے۔ 2014 میں اقوام متحدہ کے زیرکفالت دنیا کی دس سب سے زیادہ منافع پیدا کرنے والی فلم انڈسٹریوں پر ہونے والے ایک مطالعے سے معلوم ہوا کہ ہندوستانی فلم انڈسٹری سمیت فلمیں اس تصور کو مزید تقویت بخشتی ہیں کہ مردوں کا کردار اور اُن کی خصوصیات عورتوں کے کردار اور خصوصیات کے مقابلے میں زیادہ اہم ہوتی ہیں۔ آئی بی ایم (IBM) اور دو دہلی مقیم اداروں کے ذریعہ کیے گئے ایک مطالعے کے مطابق جن ہندی فلموں میں مرکزی کردار عورتوں نے ادا کیا تھا، اُن کا تناسب (2015-17) میں محض 11.9%تھا۔ آپ کو یہ جان کر تعجب ہوگا کہ 1970کی دہائی میں یہ تناسب اور بھی کم یعنی صرف7%تھا۔
ہارورڈ بزنس اسکول کی پروفیسر کیتھرین کوف مین کہتی ہیں: ’’جنسی تفریق کا جامد تصور، خود اپنے بارے میں اور دوسروں کے بارے میں لوگوں کے خیالات کا تعین کرتا ہے۔ اگر میں کہوں کہ فلاں عورت میں دو برابر کی خوبیاں ہیں۔ ایک طلاقت لسانی اور دوم ریاضی میں مہارت۔ چوں کہ عام طور پر مرد ریاضی میں بہتر ہوتے ہیں، اس لیے وہ عورت از خود یہ تصورکرنے لگے گی کہ ریاضی میں اُس کی مہارت اور قابلیت کمتر ہے۔‘‘
اِلی نوائے، نیویارک اور پرنسٹن یونیورسٹیوں کو یہ بھی معلوم ہوا کہ چھ سال کی عمر سے ہی لڑکیاں یہ خیال کرنا شروع کردیتی ہیں کہ ذہانت مردوں کی جاگیر ہوتی ہے۔ واروِک یونیورٹی (Warwick University) کے ایک مطالعے سے پتہ چلا ہے کہ ’’لڑکیاں اپنی ذہانت کو اس لیے کمتر دکھاتی ہیں تاکہ لڑکوں کو خوف لاحق نہ ہو۔ وہ اسی لیے جس قدر وہ ذہین ہوتی ہیں اس سے خود کو کسی درجہ کم ظاہر کرتی ہیں، ہراساں کیے جانے کے خوف سے خاموش رہتی ہیں، اور ایسے شوق، کھیل کود اور سرگرمیوں سے خود کو دور رکھتی ہیں جو مردانہ ہوں۔‘‘ بلاشبہ، مردانگی اور نسائیت کے اس غیرحقیقی تصور کو اپنانے کے نتیجے میں نوجوانوں خاص طور پر لڑکیوں کی قوت و توانائی کو زبردست نقصان پہنچتا ہے۔
امریکہ کے محنت کشوں کی نصف تعداد عورتوں پر مشتمل ہے لیکن کمپیوٹر اور ریاضی سے متعلق کاموں میں اُن کا تناسب محض26% ہے۔ اسی طرح C-Suiteمیں بھی مردوں کے مقابلے میں اُن کی تعداد کم ہے خاص طور پر مردوں کی اجارہ داری والے پیشوں مثلاً مالیات اور تکنالوجی میں عورتیں برائے نام ہیں۔ عورتیں اعلیٰ تعلیم کی 60%ڈگریاں حاصل کرنے کے باوجود کم آمدنی گھر لاتی ہیں کیوں کہ مردوں کو عورتوں کے مقابلے میں اعلیٰ مناصب ملتے ہیں۔ تنخواہ و مشاہرہ میں مرد و زن کی تفریق ایک آفاقی حقیقت ہے۔ حال ہی میں یہ بات ظاہر ہوئی کہ پرنسٹن یونیورسٹی اپنی خواتین پروفیسروں کو نسبتاً کم تنخواہ دیتی ہے۔ اس حقیقت نے یہ بات پایۂ ثبوت تک پہنچا دی ہے کہ اس طرح کے معروف ادارے بھی جنسی تعصبات سے پاک نہیں ہیں۔
ہندوستان میں، عورتوں کی کام کی تلاش کی جدوجہد جاری ہے۔ سردست مجموعی لیبرفورس میں اُن کا تناسب محض 19.9%ہے جو عالمی بینک کے مطابق نصف سے بہت کم ہے۔ عورتوں کی نمائندگی معیشت کے اہم سیکٹروں مثلاً تیل اور گیس(7%)، آٹوموٹیو(10%)، دواسازی اور حفظانِ صحت(11%) اور انفارمیشن ٹکنالوجی(28%) میں بہت ہی کم ہے۔ انڈیا اسکل رپورٹ (India Skill) 2020 کے مطابق عورتوں کو مردوں کے مقابلے میں، یکساں کام کے لیے اوسطاً 65.5%کم مشاہرہ ملتا ہے۔
تعلیم گاہوں میں جنسی تفریق کے چلن پر تنقید کرتے ہوئے لیمی چھانے کہتی ہیں کہ عورتوں کی شکل و شباہت اور اُن کے کریئر کے امکانات سے اُن کی شکل و شباہت کا تعلق متنازع فیہ ہے لیکن یہ تصور بسااوقات ملازمات کو جاذب نظر دکھائی دینے پر آمادہ کرتا ہے۔ اس میلان نے علمی قابلیت کے تقدس کو زبردست نقصان پہنچایا ہے اور عورتوں کی شکل و شباہت کو متاعِ کوچۂ و بازار بنادیا ہے جب کہ مرد ملازمین کے بارے میں ایسا کوئی تصور نہیں ہے۔
ان تمام کے باوجود، اینڈیز کوہساروں کی کھدائی کے دوران جو ماقبل تاریخ دور کے ڈھانچے ملے ہیں، اُن پر تجربہ گاہوںمیں جو تحقیقات ہوئی ہیں، وہ کچھ اور ہی حقائق سے پردہ اٹھاتے ہیں۔ اُن سے پتہ چلتا ہے کہ عورتیں بڑی تعداد میں شکار میں حصہ لیتی تھیں اور وہ محض غذا جمع کرنے والیاں نہ تھیں۔ جنسی تفاوت پر یقین رکھنے والوں کے لیے اس انکشاف میں بڑا سبق ہے۔ اس تحقیق نے ہزاروں سال سے ذہنوں پر طاری اُس مفروضے کو پاش پاش کردیا جو کاموں میں بھی مردانہ کام اور زنانہ کام کی تقسیم کا موید تھا۔
افسوسناک بات یہ ہے کہ ڈبلیو ایچ او اور جان ہاپکنز(John Hopkins) یونیورسٹی کے مشترکہ مطالعے نے ’’پوری دنیا میں، خواہ ممالک کتنے ہی ترقی یافتہ کیوں نہ ہوں، جنسی تفریق وتفاوت‘‘ کی موجودگی کی تصدیق و توثیق کی ہے۔ تاہم کئی معروف اور غیرمعروف عورتوں نے موجودہ صورت حال سے انحراف کی جرأت کی ہے اور اپنے لیے ایک نئی راہ ہموار کی ہے۔ جنسی تفریق کے خاتمے کی منزل مقصود ہوسکتا ہے کہ ایک صدی دور ہو، ہوسکتا ہے کہ یہ سفر طویل اور دشوار ہو لیکن یہ منزل آخرکار مل کر رہے گی۔
(مضمون نگار ایک سبکدوش انڈین انفارمیشن سروس افسر ہیں اور ایک میڈیا ایجوکیٹر ہیں)
(بشکریہ: دی پائنیر)