خاورحسن
اسلام کا موضوع بحث بننا ناقابل فہم نہیں، البتہ ان مسلمانوں کے حوالے سے اسلام کو موضوع بحث بنانا فہم سے بالاتر ہوتا ہے جن کا اسلامی تعلیمات سے کوئی لینا دینا نہیں۔ ان دنوں فرانس میں اسلام اسی طرح موضوع بحث ہے۔ وہاں مقدس شخصیات کے خاکے بنانے کو اظہار رائے کی آزادی مانا جاتا ہے اور نقاب پہننے کو فرانسیسی ثقافت کے لیے خطرہ۔ فرانس کے موجودہ صدر ایمینوئل میکروں کا کہنا ہے کہ ’مسلم اکثریتی محلوں میں مذہبی آزادی کی آڑ میں انتہاپسندی، نفرت اور تشدد کی تشہیر کرنے والے فرانس کے لیے خطرہ ہیں۔‘ میکروں نے یہ اعلان کر دیا ہے کہ ’فرانس کے گلی محلوں میں انتہاپسندی روکنے کے لیے حکومت ایک نیا قانون لا رہی ہے۔‘ ان کے مطابق، ’نئے اقدامات کے تحت فرانس میں پبلک سیکٹر میں کام کرنے والی خواتین پر حجاب پہننے کی پابندی کو اب نجی شعبے میں بھی لاگو کیا جائے گا۔‘یعنی ایمینوئل میکروں نے یہ اشارہ دے دیا ہے کہ وہ نکولس سرکوزی کے نقش قدم پر چلنا چاہتے ہیں۔ فرانسیسی مسلمانوں کے حوالے سے جو موقف سرکوزی کا تھا، بڑی حد تک وہی موقف ان کا بھی ہوگا۔
میکروں کی پریشانی ناقابل فہم نہیں ہے۔ فرانس میں بے روزگاری ایک بڑا مسئلہ تھی، کورونا کی وبا نے اسے اور سنگین بنا دیا۔ جولائی 2020 تک وہاں 6.9 فیصد بے روزگار تھے۔ 19.7 فیصد لوگ 15 سے 24 سال کی عمر کے تھے۔ 2019 میں فرانس کا شہری قرضہ اس کی جی ڈی پی کا 98.1 فیصد تھا۔ مئی سے جولائی 2020 کے درمیان ایسا لگا تھا کہ فرانس میں کورونا کنٹرول کرلیا گیا ہے، اب فرانسیسی صدر پوری توجہ اقتصادی نمو اور بے روزگاری کے خاتمے پر دے پائیں گے لیکن اگست میں کورونا کی توسیع ایک بار پھر ہونے لگی۔ ستمبر آتے آتے صورت حال پہلے سے زیادہ تشویشناک بن گئی۔ 3 اکتوبر کو 16,972 لوگ کورونا سے متاثر ہوئے۔ یہ تعداد فرانس کی 6.7 کروڑ آبادی کے لحاظ سے بہت زیادہ ہے۔ فرانس اگر 135 کروڑ کی آبادی والا ملک ہوتا تو 3 اکتوبر کو متاثرین کی تعداد 3 لاکھ 41 ہزار سے زیادہ ہوتی ۔ اس سے فرانس میں کورونا کے پھیلاؤ کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے اور ایمینوئل میکروں کی پریشانی کا اندازہ لگانا بھی مشکل نہیں ہے۔ ان کی اس بات کو اسی تناظر میں دیکھے جانے کی ضرورت ہے کہ ’اسلام پوری دنیا میں بحران سے دوچار ہے۔‘
2010 سے 2015 کے درمیان ہر برس 1.2 فیصد کی اوسط سے دنیا کی آبادی بڑھی، اس عرصے میں مسلمانوں کی آبادی 1.8 فیصد کی اوسط سے بڑھی۔ 2010 سے 2015 کے درمیان 49 مسلم اکثریتی ملکوں میں مسلمانوں کی شرح نمو 2.9 فیصد رہی جبکہ 1990 سے 1995 کے بیچ ان ملکوں میں آبادی کی شرح نمو 4.3 فیصد ہوا کرتی تھی لیکن اسلام کے ماننے والے مسلم ملکوں تک ہی محدود نہیں۔ ’خاندانی مسلمان‘ یعنی وہ لوگ جو اس لیے مسلمان ہیں، کیونکہ ان کے ماں-باپ، دادا-دادی اور ان سے پہلے کے لوگ مسلمان تھے، ان کے علاوہ نئے لوگوں کے دائرۂ اسلام میں آنے والوں کی تعداد خاصی ہے۔ 5 جون 2020 کو ’کوورا‘ نے بتایا تھا کہ امریکہ میں سالانہ 20 ہزار سے زیادہ لوگ دائرۂ اسلام میں آتے ہیں۔ برطانیہ میں سالانہ دائرۂ اسلام میں آنے والوں کی تعداد تقریباً 5200، جرمنی میں 4000 اور اسپین میں 2سے 4ہزار کے درمیان ہے۔ ’کوورا‘ کے مطابق، فرانس میں 4 سے 7 ہزار لوگ سالانہ مشرف بہ اسلام ہوتے ہیں۔ وہاں مشرف بہ اسلام ہونے والوں کی تعداد ’شارلی ابدو‘ کے پہلی بار خاکہ تنازع پیدا کرنے کے بعد زیادہ تیزی سے بڑھی ہے۔ اس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ مسلمانوں کی دلآزاری کی کوششوں اور اسلام کے خلاف پروپیگنڈہ نے غیر مذاہب کے لوگوں کی دلچسپی اسلام سے پیدا کر دی۔ انہوں نے قرآن و حدیث کا مطالعہ کیا اور وہ حقیقت اور پروپیگنڈہ کا فرق سمجھ گئے، دائرۂ اسلام میں آگئے۔
امریکہ، فرانس اور دیگر ملکوں میں اسلام کے خلاف پروپیگنڈے کا برعکس اثر دیکھتے ہوئے یہ بات مان لینی چاہیے کہ اسلام کے خلاف ہونے والے پروپیگنڈے ہی اس کی توسیع اور مسلمانوں کی تعداد میں اضافے کی اصل وجہ بن رہے ہیں۔ ان ملکوں میں مشرف بہ اسلام ہونے والوں کی تعداد زیادہ ہے جہاں کے مسلمان اسلامی احکامات پر عمل آوری کی وجہ سے نشانے پر رہتے ہیں، انہیں مذہبی ہدایات پر چلنے سے روکنے کے اقدامات کیے جاتے ہیں، انہیں نشانہ بنایا جاتا ہے، جیلوں میں ڈال کر ڈرایا جاتا ہے، یہ اشارہ دیا جاتا ہے کہ وہ خود کو بدل ڈالیں، ورنہ ان کی دنیا بدل دی جائے گی مگر وہ لوگ جو واقعی مسلمان ہیں، دین کے سامنے دنیا کو اتنی اہمیت ہی کہاں دیتے ہیں کہ اپنی دنیا کے بدل جانے سے خوفزدہ ہوکر خود کو بدل ڈالیں۔ جس نے اللہ کے حکم پر ایک بار سجدے میں سر جھکا دیا، پھر لعنت کے طوق کا خیال اسے کہاں رہ جاتا ہے، اس لیے اکثر غریب مسلمانوں کی خودداری خود ان مسلمانوں کے لیے بھی باعث حیرت بن جاتی ہے جن کے لیے دنیا ہی سب کچھ ہے، جو حلال اور حرام کا فرق نہیں جانتے، جو مسلمان اس لیے ہیں، کیونکہ ان کے ابا مسلمان تھے۔ وقت کے بدلنے پر اس طرح کے مسلمانوں کے ’بحران میں ‘آنے کی بات تو کہی جا سکتی ہے مگر اسلام کے ’بحران میں‘ آنے کی بات سوچی بھی نہیں جا سکتی۔ اس کے باوجود ایمینوئل میکروںکو لگتا ہے کہ ’ اسلام بحران میں ہے‘ تو اسے اسلام کے تئیں ان کی حد درجہ تشویش ہی سمجھا جانا چاہیے۔ کہا جاتا ہے کہ جو زیادہ کسی کے بارے میں سوچتا ہے، وہ اسی کے بارے میں فکر مند رہتا ہے لیکن کورونا کے پھیلتے ہوئے دور میں سوچ کسی ایک مذہب یا مذہب کے ماننے والوں تک محدود نہیں کی جانی چاہیے، سوچ کے دائرے میں سبھی انسانوں کو لانا چاہیے۔ ان کی بہبود، ان کی فلاح کے لیے اقدامات کیے جانے چاہئیں۔ بلا تفریق مذہب و ملت مفاد عامہ کے کام کر کے یہ بتانا چاہیے کہ دنیا کے حالات اچھی باتوں سے نہیں، اچھے کاموں سے بدلیں گے۔
حیرت اس بات پر ہے کہ عالمی لیڈران مسلمانوں کی اتنی فکر کرتے ہیں اور مسلمانوں کی اکثریت کو یہ خیال ہی نہیں کہ ان کی فکر وہ کیوں کرتے ہیں۔ مستقبل کے لائحۂ عمل کے تحت طاقتور ممالک مسلم ملکوں پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں مگر ان ملکوں کے لیڈروں کی توجہ ترقی پر موکوز ہے اور ان کے لیے ترقی اونچی عمارتوں کی تعمیر ہے، اس لیے موضوع بحث یہ لیڈر نہیں بنتے، اسلام بنتا ہے، کیونکہ اسلام ترقی کا کچھ اور مطلب سکھاتا ہے اور دیکھنے والی آنکھیں دیکھتی ہیں، سوچنے والے ذہن سوچتے ہیں کہ اصل ترقی کیا ہے۔ اسرائیل کا شمار دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں ہوتا ہے، فلسطین کی سرحد کا تعین ہی ابھی نہیں ہو سکا ہے۔ ترقی کے معاملے میں اسرائیل اور فلسطین کا کوئی مقابلہ نہیں۔ اسرائیل کے ہیلتھ کیئر سسٹم کا فلسطین کے ہیلتھ کیئر سسٹم سے کوئی مقابلہ نہیں۔ اس کے باوجود اسرائیل میں کورونا کی توسیع بے قابو سی ہو گئی ہے جبکہ فلسطین میں ابھی بھی بڑی حد تک کنٹرول میں ہے۔ یہ سوال فطری طور پر اٹھتا ہے، ایسا کیوں ہے کہ اسرائیل میں پچھلے ایک ماہ سے عام طور پر کورونا متاثرین کی تعداد ڈھائی ہزار سے اوپر رہی ہے اور 23 ستمبر 2020 کو تو 11316 لوگ کورونا سے متاثر ہوئے۔ فلسطین میں پچھلے ایک ماہ میں کبھی بھی متاثرین کی تعداد ایک ہزار تک بھی نہیں پہنچی، زیادہ سے زیادہ تعداد 15 ستمبر 2020 کو 888 رہی جبکہ اسرائیل کی آبادی تقریباً 92 لاکھ ہے تو فلسطین کی آبادی 50 لاکھ، 50 ہزار ہے لیکن سوال و جواب میں ضائع کرنے کا یہ وقت نہیں، یہ وقت مدد کرنے کا ہے۔ مدد کرتے وقت یہ نہیں دیکھا جانا چاہیے کہ مدد کی ضرورت فلسطینیوں کو ہے یا اسرائیلیوں کو، امریکیوں کو ہے یا فرانسیسیوں کو۔ بس مدد کی جانی چاہیے، کیونکہ اس وقت دنیا بھر کے انسان بحران میں ہیں۔ امریکہ اور فرانس جیسے ان ملکوں کے انسان بھی بحران میں ہیں جن کے ہیلتھ کیئر سسٹم کی بڑی شہرت رہی ہے۔ ایک دوسرے کی مدد اگر نہ کی گئی تو پھر انسان بحران سے نکل نہیں پائیں گے اور ایسا ممکن ہی نہیں کہ انسان تو بحران میں ہوں مگر انسانیت نہ ہو، اس لیے توجہ انسانیت کو بحران سے نکالنے پر دی جانی چاہیے مگر فرانس کے موجودہ صدر ایمینوئل میکروں کو فکر اسلام کی ہے اور یہ فکر بے وجہ نہیں ہے۔
[email protected]