کلدیپ رتنو
ہندوستان میں زرعی بحران نیا نہیں ہے۔ لیکن گزشتہ دو دہائیوں میں دیگر شعبوں میں شرح نمو کے مقابلہ میں زراعت کی شرح نمو بہت پیچھے رہ گئی ہے۔ چوں کہ زراعت پر منحصر آبادی بڑی ہے اس لیے زرعی بحران سارے دیہی ہندوستان کا مسئلہ بن چکا ہے۔ غریبی، بے روزگاری اور انتظامیہ کی عدم دلچسپی سے بے حال دیہی ہندوستان شہروں میں نقل مکانی کے لیے مجبور ہوتا ہے اور اس بڑھتی آبادی میں اضافہ کی شرح کے سبب شہروں میں بھی متعدد مسائل کھڑے ہورہے ہیں۔
زرعی بحران کا بنیادی سبب ہے زراعت کا غیرفائدہ مند ہوتے جانا۔ ایک طرف زراعت کے لیے ضروری بیج، کھاد، دوا-کیمیکل، بجلی، ڈیژل، آلات و مزدوروں کی لاگت میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے، وہیں زرعی پیداوار کی قیمتوں میں اضافہ کی شرح برائے نام رہی ہے۔ اس کے ساتھ ہی کسان پریوار کے لیے ضروری تعلیم، صحت، رہائش، آمدورفت، معاشرتی اقدار، شادی وغیرہ کے لیے ہونے والے خرچ میں انتہائی اضافہ ہونے سے کسان پریوار کی آمدنی اور خرچ کا توازن بری طرح سے بگڑ چکا ہے۔ کسان پریوار کے پڑھے لکھے نوجوان موٹرسائیکل، ٹی وی، موبائل، فریج جیسی سہولتیں بھی چاہتے ہیں۔ یقینی طور پر ہندوستان کے 90فیصد کسان پریواروں کے لیے صرف زراعت سے ہونے والی آمدنی کہیں سے بھی کافی نہیں ہوسکتی اور انہیں زمین، زیورات فروخت کرکے، قرض لے کر اپنا گزارا کرنا پڑتا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ زرعی بحران کا حل کیا ہے؟ سوشلسٹ نظریہ سے متاثر لوگوں کا یہ مطالبہ رہتا ہے کہ سرکار ٹیکس دہندگان سے زیادہ ٹیکس وصول کرے اور کسانو ںکو سہولت پہنچانے میں مناسب رقم خرچ کرے۔ اس میں غریب کسانوں کے لیے مقررہ رقم ہر ماہ ان کے اکاؤنٹ میں ڈالنے کا مطالبہ بھی شامل رہا ہے اور مودی حکومت نے اس مطالبہ پر عمل کرتے ہوئے ملک بھر کے تقریباً دس کروڑ کسانوںکو 6ہزار روپے فی سال دیے بھی ہیں۔
دوسرا بڑا مطالبہ زرعی پیداوار کی منیمم سپورٹ پرائس طے کرنے کی ہے۔ ہندوستان میں اناج کی پیداوار کو بڑھاوا دینے کے لیے گیہوں و دھان کی سرکاری خرید کے لیے منیمم سپورٹ پرائس دینے کا انتظام کیا گیا تھا اور اس وجہ سے پنجاب اور ہریانہ میں کسانوں کی آمدنی میں خاطرخواہ اضافہ ہوا اور دیہی علاقوں میں خوشحالی نظر آئی۔ کسانوں کے مطالبہ پر مودی حکومت نے نہ صرف منیمم سپورٹ پرائس میں وقت وقت پر اضافہ کیا ہے، بلکہ کچھ دیگر فصلوں کو بھی سپورٹ پرائس دینے کی شروعات بھی کی ہے۔
لیکن منیمم سپورٹ پرائس سسٹم کا فائدہ ملک کے صرف 6فیصد کسانوں کو ہی ملا ہے اور تقریباً 94فیصد کسان اپنی پیداوار کو ہر دن بدلتی قیمتوں پر خریداروں، جن میں خاص طور پر آڑھتی ہوتے ہیں، کو فروخت کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ چوں کہ کسان کو دیگر اسباب سے اپنی فصل فروخت کرنے کی جلدی رہتی ہے تو اسے مول بھاؤ کرنے کا موقع نہیں ملتا اور پورے پریوار کی انتہائی محنت کے بعدبھی زراعت کی لاگت بھی نہیں نکل پاتی، فائدہ ہونے کی بات ہی دور ہے۔
لیکن منڈی میں ایجنٹ، آڑھتی، گودام مالک اور زرعی پیداوار کے کاروباری انتہائی کم قیمت پر زرعی پیداوار خرید کر اسے اچھے فائدہ کے ساتھ مناسب وقت پر صارفین کو فروخت کرتے ہیں اور خوشحال رہتے ہیں۔
چوں کہ کسانوں پر اپنی فصل فروخت کرنے پر متعدد طرح کی حدود ہونے سے ان کے لیے چاہ کر بھی یہ ممکن نہیں ہوتا کہ وہ اپنی مرضی سے ملک وغیرممالک میں کہیں بھی اپنی فصل کا سودا کرسکیں اور معاوضہ کی قیمت وصول کرسکیں۔
اس لیے کسان لیڈروں و زرعی ماہرین کا طویل عرصہ سے یہ مطالبہ رہا ہے کہ زراعت و متعلقہ کاموں میں سرمایہ کاری کو بڑھاوا دینے کے لیے یہ ضروری ہے کہ زرعی پیداوار کے ذخیرہ، ڈھلائی، خرید و فروخت، فروغ، پروسیسنگ وغیرہ پر عائد سبھی طرح کی پابندیاں ہٹاکر ان سبھی طریق کار میں کسانوں کا کردار و مواقع بڑھائے جانے چاہئیں۔ چوں کہ کسان کو اپنی پیداوار کے لیے ملنے والی قیمتو ںاور صارفین کے ذریعہ اسی پیداوار اور اس سے تیارشدہ و پروسیسڈ پروڈکٹ کی قیمتوں میں زبردست فرق رہتا ہے اور بیچ کا زبردست منافع کسانوں کی جیب میں نہ جاکر دیگر لوگوںکی جیب میں جاتا ہے تو اس سے ملک کے کروڑوں کسانوں و ان سے کہیں زیادہ صارفین، دونوں کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔
زراعت کے ساتھ غیرمنافع بخش ہونے کے علاوہ دیگر مسائل بھی وابستہ ہیں، جس میں کیمیائی کھیتی باڑی و دوا چھڑکاؤ سے کسانوں و صارفین دونوں کی صحت پر پڑنے والے برے اثرات سب سے مہلک ثابت ہوئے ہیں۔ بیج کمپنیوں، ایگروکیمیکل کمپنیوں و زرعی سائنسدانوں کی مسلسل حوصلہ افزائی سے کسان قدرتی کھیتی باڑی سے دور ہوتے گئے اور زیادہ سے زیادہ فصل لینے کی خواہش میں کیمیکل کا بھرپور استعمال کرنے لگے۔ اس سے نہ صرف ان کی لاگت میں بے تحاشہ اضافہ ہوا، بلکہ کینسر جیسی مہلک بیماریوں میں مبتلا ہوکر علاج کرانے میں قرض بڑھتا ہی گیا۔ اراضی کی زرخیری بھی متاثر ہوئی اور زیرزمین آبی استحصال میں اضافہ ہوا۔ نتیجتاً ہمیشہ پانی سے بھری ندیوں سے بھرپور پنجاب میں آج متعدد علاقے پانی کی سطح کے لحاظ سے ڈارک زون میں آچکے ہیں۔ غیردوراندیشانہ نگاہ رکھنے والے لیڈروں کے ذریعہ ووٹوں کے لالچ میں مفت بجلی دیتے رہنے سے بجلی کے استحصال کے بحران میں اضافہ ہوا اور بجلی کمپنیوں کے خسارہ کے سبب ریاستی حکومتوں کا معاشی بحران بھی۔
تقریباً 20برسوں سے ہر سال لاکھوں کسان معاشی بحران میں پھنس کر خودکشی کررہے ہیں۔ زراعت میں کوئی مستقبل نہ دیکھتے ہوئے کسان پریواروں کے نوجوان زندگی گزارے کے لیے دیگر وسائل تلاش کرنے لگے ہیں۔ شہروں کی طرف نقل مکانی میں اضافہ ہوا ہے۔
جہاں زیادہ تر غریب کسان و اراضی سے محروم مزدور چھوٹے موٹے کام کرکے اپنی زندگی گزار رہے ہیں، وہیں متعدد سرمایہ دار، بلڈر، سیاستداں، سرکاری افسر، فلمی اداکار، کمپنیاں، بڑے ٹرسٹ وغیرہ زرعی زمین بڑے پیمانہ پر خرید رہے ہیں۔ سرکاری اعدادوشمار میں زرعی اراضی کے یہ نئے مالک بھی ’کسان‘ ہی ہیں۔ چوں کہ زراعت پر کوئی ٹیکس نہیں ہے تو ایسے خوشحال ’کسانوں‘ کے ذریعہ اپنا کالادھن سفید کرنے کے لیے زراعت سے ہر سال زبردست آمدنی دکھانے کے رجحان میں اضافہ بھی ہوا ہے۔
ایسے حالات میں یہ سوچنے کا موضوع ہے کہ بے زمین کسان، حصہ داری پر کھیتی کرنے والے غریب کسان، نمکین، کم زرخیر و غیرہموار زمین پر مزدوری میں کھیتی کرنے والے کسان اپنے پریوار کا پیٹ بھرنے کے لیے کھیتوں میں محنت کرنے والی خواتین و کم زمین پر برسات پر منحصر کھیتی کرنے والے کسان وغیرہ طبقات کے مفادات کا تحفظ کیسے یقینی بنایا جائے۔
سرکاری مدد کے ذریعہ زرعی پیداوار کی قیمت تیزی سے بڑھانے کا جواز دینے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ ملک کا ہر کسان ایک صارف بھی ہے۔ چوں کہ ہر کسان کچھ محدود فصلیں ہی اُگاتا ہے، اس لیے اسے اپنے پریوار کی کفالت کے لیے متعدد زرعی پیداواروں کو بازار سے خریدنا پڑتا ہے۔ وہیں ملک کے کروڑوں غریب شہریوں کی قوت خریداتنی کم ہے کہ ان کے لیے مہنگا راشن خریدنا ناممکن ہے۔ کورونا وائرس کے پھیلاؤ سے پیدا ہوئے بحران میں حکومت کو کئی مہینوں سے تقریباً 80کروڑ شہریوں کے لیے سستے اناج کا انتظام کرنا پڑا ہے۔
دوسری طرف یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ مرکزی حکومت و ریاستی حکومتوں کی معاشی حالت بھی بہت مضبوط نہیں ہے اور انہیں ہر سال قرض لینا پڑرہا ہے۔ کئی ریاستوں میں تو قرض کا سود چکانے و ملازمین کے تنخواہ الاؤنس دینے میں ہی زیادہ ترمحصول خرچ ہوجاتا ہے۔
پھر کھیتی کو فائدہ مند صنعت کیسے بنایا جائے؟اس کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ ہے کسان اور صارف کے درمیان کی متعدد کڑیوں میں کسانوں کا کردار بڑھے۔ اس سمت میں فارمر پروڈیوسر آرگنائزیشن(ایف پی او) ایک اہم کام کرسکتی ہے۔ آس پاس کے گاؤوں کے کسان مل کر اپنا ایک ایف پی او بنائیں اور سرکاری اسکیموں کے ذریعہ انہیں بھرپور مالی، تکنیکی و مارکیٹنگ کی سہولتیں دستیاب کروائی جائیں۔
اپنے ایف پی او کے ذریعہ کسان خود ہی اسٹور سینٹر بنائیں اور آپریٹ کریں، زرعی پیداوار کی پروسیسنگ و فروغ کریں اور کسان پریواروں کے پڑھے لکھے نوجوان چھوٹی صنعتیں لگانے و پیداواروں کی مناسب مارکیٹنگ اور تقسیم کرنے کا کام اپنے ہاتھ میں لیں تو ہی زراعت سے کسانوں کی منافع بخش آمدنی کو یقینی بنایا جاسکتا ہے۔
لیکن ہندوستان کی بڑی کسان آبادی کو دیکھتے ہوئے اور مختلف زرعی پیداواروں کے مختلف مسائل کے سبب پورے ملک کے لیے کوئی ایک چابی سبھی تالے نہیں کھول سکتی ہے۔ حکومت کو سب سے پہلے یہ یقینی بنانا ہوگا کہ کسانوں و زرعی زمین کے بارے میں ایک دم صحیح اعدادوشمار جمع کیے جائیں، ورنہ غریب کسانوں کے لیے دیے گئے سرکاری فائدے خوشحال لوگوں کے ذریعہ لیے جاتے رہیں گے اور بے زمین و حصہ داری والے کسان کے لیے بنائی گئی اسکیموں کا فائدہ زرعی زمین کے مالک لیتے رہیں گے۔
غریب و ضرورت مند کسانوں کے لیے مسلسل سرکاری مدد کے ساتھ ہی اپنی کفالت کے لیے زراعت پر منحصر رہنے والے کسان پریواروں کی آمدنی بڑھانے کے لیے زراعت سے متعلق دیگر معاون کاموں کو سرکاری بڑھاوا دینے کی بہت ضرورت ہے۔ ان میں جنگلات، مویشی پروری، مچھلی پروری، مرغی پروری، شہدکی مکھیوں کا پالن، ڈیری اور سولر پاور اینڈ ونڈ پاور جنریشن، ہینڈی کرافٹ ڈیولپمنٹ جیسی متعدد صنعتیں اہم کردار نبھا سکتی ہیں۔
کسانوں کی آمدنی بڑھانے کے ساتھ ہی ان کی لاگت کم کرنے پر بھی توجہ دینی چاہیے۔ اگر حکومت ہر بار کسان کی لاگت کی قیمت میں فائدہ جوڑ کر منیمم سپورٹ پرائس دیتی رہی تو زراعت کے لیے ضروری کھاد، بیج، دوا، کیمیکل، ڈیژل، آلات کو فروخت کرنے والے اپنی قیمت مسلسل بڑھاتے رہیں گے اور کسان کو زیادہ قیمت ملنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ کیوں کہ حکومت تھوک قیمت کو بنیاد بنائے گی، جب کہ کسان کھدار قیمت پر خریداری کرے گا۔ اس سے زیادہ قیمت کا پورا فائدہ زراعت کے لیے ضروری وسائل، سامان و آلات فروخت کرنے والے لے لیں گے۔
لیکن سب سے زیادہ اہم ہے کسانوں کے ذریعہ قوم کی خدمت میں مسلسل دی جانے والی قربانی کو دیکھتے ہوئے ان کے پریواروں کے لیے خصوصی سماجی تحفظ کا انتظام کرنا۔ کسان پریواروں کے بچوں و نوجوانوں کی اسٹڈی اور اسکل ڈیولپمنٹ کے لیے خصوصی پروگرام بنانے کی ضرورت ہے۔ سبھی کسان پریواروں کے لیے ایک ہیلتھ انشورنس و ایکسیڈنٹ انشورنس اسکیم بھی ہونی چاہیے۔ بزرگ کسانوں کے لیے خصوصی پنشن اسکیم کا التزام بھی کرنا چاہیے۔
آخر میں سب سے پہلے حکومت زراعت و کسانوں کے بارے میں حقیقی اعدادوشمار جمع کرے۔ اس کے بعد بے زمین کاشت کاروں و غریب کسانوں کے لیے مالی مدد دستیاب کرائے۔ زراعت کو فائدہ مند بنانے کے لیے فارمر پروڈیوسر آرگنائزیشن ایک بااثر ذریعہ ہوسکتی ہے۔ حکومت اس کے لیے سبھی طرح کی سہولت دستیاب کروائے اور کسانوں و صارفین کے مابین کی کڑیوں میں کسانوں کے کردار کو بڑھانے کے لیے ضروری حوصلہ افزائی کرتی رہے۔ ان سبھی طریقوں کے ساتھ ساتھ حکومت کی طرف سے کسان پریواروں کے قابل احترام زندگی گزارنے کے لیے خصوصی سماجی تحفظ پروگرام کو یقینی بنایا جائے۔
ان سبھی طریقوں سے ہی ہمارے عظیم ملک کا پیٹ بھرنے والے ہمارے کروڑوں ان داتاؤں کی زندگی میں خوش حالی و عزت آسکے گی۔
rvr