محمد فاروق اعظمی
دس دنوں کی قلیل مدت تک چلنے والے پارلیمنٹ کے مانسون اجلاس میں گزشتہ20برسو ں میں پہلی بار یکے بعد دیگرے 25 بل پاس کرالیے گئے۔ اپوزیشن کے بائیکاٹ، احتجاج اور جابجا ہونے والے مظاہروں کے باوجود حکومت اپنی منشا میں کامیاب رہی اور اب دھیرے دھیرے یہ بل صدر جمہوریہ کے دستخط کے بعد قانونی حیثیت اختیار کرتے جارہے ہیں۔ 14ستمبر2020کو شروع ہوکر23ستمبر کو ہی ختم ہوجانے والا مانسون اجلاس حکومت کی من مانی اور یک طرفہ کارروائی کا مظہر رہا۔ پاس کیے جانے والے ان 25بلوں میں سے کئی ایک ایسے بل ہیں جن پر حزب اختلاف کبھی متفق نہیں ہوسکتی تھی۔ راجیہ سبھا میں قلت تعداد کے باوجود زراعت اور کاشت سے وابستہ تین بل پاس کیے گئے جن کے خلاف اب تک پورے ملک میں مظاہرے جاری ہیں۔ زرعی بل کے بعد اگلے ہی دن حکومت نے مزدوروں کے تعلق سے کئی ایک متنازع بل پاس کیے جس پرملک کی ٹریڈ یونینیںچراغ پا ہیں اور احتجاج اور مظاہرے کے خدو خال طے کیے جارہے ہیں۔ ان 25بلوں سے ایک دو کو چھوڑ کر کوئی ایسا بل نہیں تھا جس پرپورے ایوان کو اتفاق ہو۔جموں و کشمیر میں سرکاری زبان کا بل ہو یا رضاکار اداروں کو غیر ملکی عطیات کے حوالے سے قانون میں ترمیم کا بل،سبھی پر اپوزیشن کے ساتھ ساتھ عوام کے ایک بڑے طبقہ کو تحفظات ہیں۔ کسان اور مزدوروں کے حوالے سے بل کے خلاف عوامی احتجاج اورا شتعال کا گواہ دہلی کا راج پتھ بن رہا ہے جہاں مشتعل کسانوں نے ٹریکٹر کو نذر آتش کرکے اپنے غم و غصہ کا اظہار کیا ہے۔10دنوں میں 25 بل پاس کراکر اپنی پیٹھ تھپتھپانے والی حکومت کو صرف ایک بل میں ہی اپوزیشن کا ساتھ مل پایا اور وہ ہے ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہ، بھتہ اور پنشن سے متعلق ترمیمی بل 2020۔ اس بل پر پورا ایوان متحد تھااور 15 ستمبر کی صبح کو بڑی ہی خاموشی کے ساتھ بغیر کسی ہنگامہ آرائی اور احتجاج کے یہ بل پاس ہوگیا۔
مانسون اجلاس کے دوران پاس کیے جانے والے بلوں کا جائزہ لینے پر یہ واضح ہوتا ہے کہ ان میں سے اکثریت حکومتی اختیارات اور طاقت کو مزید استحکام دینے کے ساتھ ساتھ سرمایہ دارانہ نظام کی جڑیں مضبوط بنانے اور محنت کشوں کے استحصال کے لیے ہیں۔ اس اجلاس میں حکومت نے صرف ایک ہی ایسا بل پاس کیا ہے جس کی بابت کہا جاسکتا ہے کہ اس سے عوامی مفاد جڑا ہوا ہے اور وہ ہے 16 ستمبر کوپاس ہونے والا بینکنگ سے متعلق قوانین میں ترمیم کابل۔
اس بل کے قانون بن جانے سے عوام کو یہ امید ہوچلی ہے کہ بینکوں بالخصو ص کوآپریٹیو بینکوں میں ان کی رقم محفوظ رہے گی اور ان میں برتی جانے والی بے ضابطگی اور گھوٹالہ پر لگام لگے گا۔ کوآپریٹیوبینکوں میں گزشتہ چند برسوں میں گھوٹالے اور بے ضابطگی کے جو واقعات سامنے آئے ہیں، ان سے عوام میں یہ خدشہ قوی ہوگیا تھا کہ ان بینکوں میں رکھی جانے والی ان کی رقم قطعی محفوظ نہیں ہے اوراس کی وجہ سے پورے بینکنگ نظام پر سوالیہ نشان لگا تھا۔ عوام کے ان تحفظات اور خدشات کے پیش نظر حکومت کو چوکس ہوجانا پڑا اور کورونا بحران کی وجہ سے لگائے گئے لاک ڈائون کے دوران ہی کابینہ نے26جون کو ملک کے 1540 کوآپریٹیو بینکوں کو براہ راست ریزروبینک آف انڈیا(آر بی آئی) کی نگرانی میں دینے سے متعلق ایک آرڈی نینس منظور کیا تھا لیکن آرڈی نینس کی ششماہی حیات کی وجہ سے اسے باقاعدہ قانونی شکل دینا لازمی تھا۔جس کی وجہ سے اسی آرڈی نینس کو بل کی شکل دے کر حکومت نے اسے پاس کرایا اور صدر جمہوریہ کے دستخط کے بعد اب یہ باقاعدہ قانون کی شکل میں نافذ ہوگیا ہے۔ اس بل کے قانونی شکل اختیار کرتے ہی ملک کے تمام کوآپریٹیو بینک جو اب تک ریاستوں کے کوآپریٹیو رجسٹرار کی نگرانی میں تھے اور آر بی آئی کے ساتھ ساتھ ایک متوازی نظام ہونے کی وجہ سے تصادم ہواکرتا تھا، وہ ختم ہوگیا۔ اب اس نئے قانون کے نافذ ہوجانے کے بعدسے ملک بھر کے کوآپریٹیو بینک آر بی آئی کی دیکھ ریکھ میں کام کریں گے۔
ملکی معیشت کو بہتر بنانے اور مواضعات کی سطح پر بینکنگ نظام کی وسعت میں کوآپریٹیو بینکوں کے کردار سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے۔لیکن پیچیدہ اور دوہرے نظام میں بندھے ہونے کی وجہ سے جہاں ان بینکوں کی کارکردگی ناقص ہورہی تھی وہیں غبن، جعل سازی کے واقعات بھی اکثر و بیشتر سامنے آتے رہے تھے۔ اب آر بی آئی کے راست کنٹرول میں آجانے کی وجہ سے ان بینکوں کو دوہرے نظام کی پیچیدگی سے نجات مل جائے گی۔نئے قانون کے مطابق اب آربی آئی کے پاس وہ طاقت ہوگی کہ وہ کسی بھی کوآپریٹیو بینک کی تشکیل نو یا انضمام کا فیصلہ لے سکتا ہے۔ اس کے لیے آر بی آئی کو کوآپریٹیو بینک کے ٹرانزیکشن کو موریٹوریم میں رکھنے کی بھی کوئی ضرورت نہیں ہوگی۔ نیزاکائونٹ ہولڈروں کے مفاد کی حفاظت کے لیے کسی بھی ملٹی اسٹیٹ کو آپریٹیو بینک کے بورڈآف ڈائریکٹرس کو توڑنے کا اختیار بھی آر بی آئی کو تفویض ہوگیا ہے۔بینکنگ سے وابستہ اس قانون میں جو ترمیمات کی گئی ہیں، ان میں ایک اور خوش آئند بات یہ ہے کہ اگر اب کوئی بینک ڈیفالٹ ہوتا ہے تو بینک میں جمع پانچ لاکھ روپے تک کی رقم پوری طرح سے محفوظ رہے گی اورحکومت اس کی ضامن ہوگی۔
ان ہی ایام میں گزشتہ سال پنجاب اینڈ مہاراشٹرکوآپریٹیو بینک میں 14355کروڑ روپے کے گھوٹالہ کا جو سنگین واقعہ سامنے آیا تھا، اس کی وجہ سے اس بینک کے9لاکھ سے زیادہ گاہکوں کی بچت پونجی خطرے میں پڑگئی تھی۔آج تک اس بینک کے گاہک اپنی رقم واپسی کی جدوجہد میں لگے ہوئے ہیں، کئی ایک نے تو اس غم میں خودکشی بھی کرلی تھی۔اس پس منظر میں اگر دیکھاجائے تو بینکنگ قوانین میں ترمیم کا بل پاس کرکے حکومت نے عوام کے ایک طبقہ کو اس کی بچت کی ضمانت دی ہے۔
اس کے ماسوا مانسون سیشن میں پاس کرائے جانے والے دوسرے دو درجن بل میں تلاش بسیار کے باوجود عوامی فلاح و بہبودکا کوئی کارآمد نکتہ کم از کم خاکسار دریافت نہیں کرسکا ہے۔ چاہے وہ ہومیوپیتھی کے لیے قومی کمیشن کے قیام کا بل ہو یا پھر بندرگاہوں کے اختیارات کی تفویض سے متعلق بل ہو۔ان میں عوام کی موجودہ مشکلات اور دکھوں کا کوئی مداوا نہیں ہے۔ اپنی کثرت کار کے باوجود اپنے ثمرات اور عوامی افادیت کے لحاظ سے پارلیمنٹ کا یہ مانسون اجلاس قومی وسائل پر ایک طرح سے بار ہی بنا اور حکومت نے اس اجلاس کو اپنی طاقت کے مظاہرہ کے لیے استعمال کیا۔
[email protected]