کسانوں کے مسائل اور سیاسی قوت ارادی

0

صبیح احمد

مرکزی حکومت کے3نئے زرعی قوانین کے خلاف گزشتہ 3ہفتوں سے جاری کسانوں کے احتجاج اور دھرنا میں جہاں روز بروز مظاہرین کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے، وہیں اس میں شدت بھی آتی جا رہی ہے۔ دہلی کی پڑوسی ریاستوں ہریانہ، پنجاب اور اترپردیش کے علاوہ اب مہاراشٹر جیسے دور دراز علاقوں سے بھی مظاہرین کی حمایت میں کسان سامنے آ رہے ہیں۔ کسانوں نے اپنے تیور مزید سخت کر دیے ہیں۔ مرکزی وزیر زراعت کے خط کو بھی مسترد کر دیا ہے۔ ادھر سماج کے مختلف طبقات کے ذریعہ کسانوں کی مدد کے لیے مختلف مقامات سے راحت کے سامان پہنچانے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ اگر یہی صورتحال رہی تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ تعطل مزید طول پکڑ لے گا۔ تعطل کو ختم کرنے کے لیے حالانکہ اب تک سرکار اور مظاہرین کے درمیان بات چیت کے کئی دور ہوچکے ہیں لیکن تمام ادوار ناکام ثابت ہوئے ہیں۔ اس ناکامی کے پیچھے اصل سبب یہ ہے کہ دونوں ہی فریق اپنے اپنے موقف سے ذرا سا بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہیں۔ کسانوں کا موقف ہے کہ ان قوانین سے زرعی شعبہ میں ایسی تبدیلی آئے گی کہ کسان بڑے بڑے کارپوریٹ گھرانوں کے رحم و کرم پر جینے کو مجبور ہو جائیں گے جبکہ دوسری جانب حکومت کا کہنا ہے کہ ان قوانین سے کسانوں کو بڑا فائدہ ہوگا۔ یہاں تک کہ خود وزیراعظم نے مذکورہ زرعی اصلاحات پر ایسوچیم کے ایک پروگرام میں دعویٰ کیا ہے کہ 6 ماہ پہلے ہی زرعی شعبہ میں اصلاحات کا فائدہ کسانوں کو ملنا شروع ہو گیا ہے۔ یہ بات کوئی اور نہیں بلکہ ملک کے وزیراعظم ایک عوامی پلیٹ فارم سے کہہ رہے ہیں جبکہ زمینی حقیقت کیا ہے وہ کھیت کھلیانوں اور کھیتی باڑی سے وابستہ عوام بخوبی جانتے ہیں۔ 
درحقیقت ’راشٹرکی ریڑھ کی ہڈی‘ کسان طبقہ کے مسائل کو حکمراں طبقات نے کبھی بھی سنجیدگی سے لیاہی نہیں۔ جو بھی پالیسی بنائی جاتی ہے وہ بند ایئرکنڈیشن کمرے میں طے ہوتی ہے، مسائل سے نبرد آزما کسانوں کی رائے تک لینے کی زحمت نہیں کی جاتی۔ ابھی ملک کے کسان اس ریکارڈ ساز سردی میں کھلے آسمان کے تلے اپنی جان پر کھیل کر جو احتجاج کر رہے ہیں، یہ تو ایک ہنگامی مسئلہ ہے اور یہ فوری توجہ طلب مسئلہ ہے۔ اس کے علاوہ کئی دیرینہ مسائل ہیں جن پر کبھی سنجیدگی سے غور کیا ہی نہیں گیا۔ اگر موجودہ مسئلہ کو حل کرنے کے لیے حکومت نئے متنازع قوانین کو واپس بھی لے لے تب بھی ہندوستان کے کسانوں کو درپیش بے شمار مسائل ختم نہیں ہوں گے۔ ملک کے زرعی شعبہ اور کسانوں کے حالات کا بغور جائزہ لیا جائے تو زیر غور  مسئلہ کے علاوہ ان کے کئی اور اہم مسائل جو فوری طور پر حل طلب ہیں۔ اول، ہندوستان کی روزافزوں ضرورتوں کی تکمیل کے لیے فی ہیکٹیئر پیداوار میں اضافہ کی فوری ضرورت ہے۔ دوم، کاشتکاروں اور بازار میں رابطے کا بہت زیادہ فقدان ہے۔ ایک طرف جہاں گوداموں میں غذائی اجناس کا حد سے زیادہ بفر اسٹاک ہے، وہیں دوسری جانب صارفین کو اکثر پیاز جیسی ضروری اشیا کی قلت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سوم، کسانوں کو درپیش سنگین ماحولیاتی مسائل کے حل کے لیے شاید ہی کبھی کوئی سیاسی قوت ارادی دیکھنے کو ملتی ہے۔ کسی بھی سیاسی پارٹی نے پانی کی سطح میں مسلسل گراوٹ، جراثیم کش دوائوں کا حد سے زیادہ استعمال اور سیلاب اور اس کے نتیجے میں زمین کے کٹائو جیسے مسائل کے حل کے لیے کوئی پالیسی وضع نہیں کی۔ خصوصاً میدانی دیہی علاقوں میں جہاں ندیوں کی بہتات ہے، سیلاب اور کھیتی کی زمین کے کٹائو کا مسئلہ بہت ہی سنگین ہے اور یہ مسئلہ بہت پرانا ہے۔ دہائیوں سے اس مسئلہ پر سیاسی پارٹیوں اور لیڈروں کی توجہ مبذول کرائی جاتی رہی ہے لیکن کھوکھلی یقین دہانی کے سوائے ابھی تک اس مسئلہ کے حل کے لیے کوئی ٹھوس لائحہ عمل تیار نہیں کیا گیا۔ چہارم، کاشتکاری کا شعبہ ہمیشہ شدید معاشی دبائو میں رہتا ہے کیونکہ جس قیمت پر کسانوں کی پیداوار فروخت ہوتی ہے، وہ اس شعبہ میں سرمایہ کاری کی روز افزوں ضرورتوں سے میل نہیں کھاتی، یعنی پیداوار کی قیمت کے مقابلے لاگت بہت زیادہ ہوتی ہے، اس میں تواز ن قائم کرنے پر کبھی دھیان نہیں دیا گیا۔ اس کے علاوہ ہر پیڑھی کے بعد فی کس زمین کی ملکیت میں کمی ہوتی جارہی ہے۔ اس سے حالات اور بھی خراب ہوتے جا رہے ہیں اور ملک کی غذائی ضرورتوں کی تکمیل پر منفی اثر پڑ رہا ہے۔ پنجم، گودام، کولڈ اسٹوریج کی سہولتیں اور پروسیسنگ یونٹس جیسے دیہی بنیادی ڈھانچے ضرورت کے حساب سے انتہائی ناکا فی ہیں یا دیہی علاقوں میں یہ سہولتیں سرے سے ہیں ہی نہیں۔ اس صورتحال سے دیہی کاشتکاری اور شہری بازار کے درمیان دوریاں بڑھتی جا رہی ہیں جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر پیداواروں کی بربادی ہو رہی ہے۔ دیہی علاقوں میں اسٹوریج کی مناسب سہولتیں نہ ہونے سے کسانوں کے پاس اکثر اس کا کوئی متبادل نہیں ہوتا کہ جیسے ہی ان کی پیداوار تیار ہوتی ہے وہ اسے فوری طور پر کم قیمت پرفروخت کر دیتا ہے۔ 
اس کے علاوہ کئی اور سنگین مسائل ہیں جس کا ہندوستان کے کاشتکاروں کو سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہندوستان کے تمام قابل زراعت علاقوں کی سینچائی کے لیے پانی کی حالانکہ کوئی کمی نہیں ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ان پانی کے وسائل کے ارزاں اور صحیح طریقے سے استعمال کا ابھی تک کوئی بندوبست نہیں کیا جا سکا ہے۔ انہی وجوہات کے سبب کسانوں کو یا تو مناسب مقدار میں پانی نہیں ملتا یاکھیتوں تک پانی کی سپلائی صحیح وقت پر نہیں ہوپاتی۔ کسانوں کی اکثریت کو آج بھی سینچائی کے لیے بارش کے پانی پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ زیادہ تر علاقوں میں آج کی تاریخ میں بھی کسان روایتی طریقے سے کاشتکاری کرتے ہیں۔ حل بیل اور دیگر مقامی آلات ان کی ترجیحات میں شامل ہیں۔ جدید آلات اور مشینری کی کوئی کمی نہ ہونے کے باوجود بہت ہی کم پیمانے پر ان کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ ہندوستانی زرعی سیکٹر میں ایک بہت بڑا مسئلہ مدتوں سے محسوس کیا جا رہا ہے کہ ٹرانسپورٹیشن کا کوئی بہتر اور سستا وسیلہ نہیں ہے۔ چھوٹے کسان اب بھی اپنی پیداواروں کے ٹرانسپورٹیشن کے لیے بیل گاڑی پر منحصر رہتے ہیں۔ حالانکہ آج کے دور میں لاکھوں گائوں کو کچی سڑکوں کے ذریعہ شاہراہوں اور بازاروں سے جوڑ دیا گیا ہے لیکن برسات کے موسم میں یہ سڑکیں کیچڑ میں تبدیل ہوجاتی ہیں اور استعمال کے لائق نہیں رہتیں۔ نتیجہ کے طور پر کسان اپنی پیداواروں کو بڑے بازاروں تک نہیں لے جاپاتے اور مجبوراً انہیں اپنی پیداواروں کو مقامی مارکیٹ میں کم قیمت پر فروخت کرنا پڑتا ہے۔ 
نئے زرعی قوانین میں ان میں سے کسی بھی مسئلہ کے حل پر دھیان نہیں دیا گیا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ نئے قوانین کو واپس لیے جانے سے بھی مذکورہ بالا مسائل حل نہیں ہوں گے۔ یہ مسائل کئی دہائیوں سے حل طلب ہیں لیکن کسی بھی سیاسی پارٹی یا حکمراں طبقہ نے ان کے حل کے لیے کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا ہے۔ کسانوں اور سرکار کے درمیان یہ لڑائی دراصل ایک کلیدی شعبہ جس کی ملک کی مجموعی گھریلو پیداوار (جی ڈی پی) میں 15 فیصد حصہ داری ہے، کے سنگین ساختی مسائل کی عکاسی کرتی ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جو بازار کی طاقتیں ہیں ان کا دیہی ڈھانچہ جاتی ترقیات، ماحولیاتی اصلاحات اور سیاسی ارادے کے ساتھ تال میل نہیں ہے۔کسانوں کے مظاہروں کے پیچھے یہ خوف کارفرما ہے کہ ان نئے قوانین سے وہ نظام ختم ہو جائے گا جس کے تحت سرکار کے ذریعہ طے کردہ کم از کم قیمت (ایم ایس پی) پر کسانوں سے اس کی پیداوار خریدی جا تی ہے۔ سرکار کا جواز ہے کہ نئے قوانین سے خریداروں کو کسانوں سے راست طور پر فصلیں خریدنے کی اجازت ہوگی اور اس کے نتیجے میں درمیان میں کام کرنے والے بچولیوں کا کردار ختم ہوجائے گا۔ اس طرح قومی سطح پر ایک کھلا بازار تیار ہوگا جس سے مسابقت کا ماحول بنے گا اور اس سے کسانوں کو ان کے پیداوار کی زیادہ قیمت ملے گی۔ بہرحال ابھی تک سرکار نے ایم ایس پی کی گارنٹی دینے کے حوالے سے عملی طور پر کچھ بھی نہیں کیا ہے، صرف زبانی یقین دہانی ہی کرا رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مظاہرے ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے ہیں۔  
[email protected]
 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS