کسا نوں کی فریاد حکومت کی ضِد

0

انجینئر خالد علیگ

 جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی
اس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دو
علامہ اقبال کی یہ مشہور ر نظم انیسویں صدی کی تیسری دہائی میں لکھی گئی تھی جس میں موصوف نے کسانوں کی حالت زار بیان کرتے ہوئے کسانوں کی ترجمانی بڑے خوبصورت انداز میں کی جس کی کوئی دوسری مثال ملنا مشکل ہے۔اس وقت ملک میں انگریزوں کی حکومت تھی۔ لوگ سمجھتے تھے کہ کسانوں کی اس بدتر حالت کی ذمہ دار انگریز حکومت اور اس کا بے لگام لگانی نظام ہے ا ور ملک آزاد ہونے کے بعد یہ صورت حال تبدیل ہو جائے گی۔ ملک آزاد ہو گیا، غلامی کی زنجیریں ٹوٹ گئیں، ملک میں سوراج قائم ہوا اور یہ سمجھا جانے لگا کہ اب کسانوں کا استحصال ختم ہوجائے گامگر آزادی کے بعد بھی کسانوں کی حالت میں کوئی خاطر خواہ تبدیلی نہیں آئی۔ ایک زمانہ تھا جب کسانوں کا سارا دارومدار بیلوں پر ہوتا مگر اکثر کسانوں کو بیل بھی بڑی مشکل سے میسر آتے تھے اس کو کبھی کبھی خود ہی بیل کی جگہ ہل میں جت جانا پڑتا  اس کی بہت خوبصورت ترجمانی محبوب خاں کی مشہور فلم مدر انڈیا میں کچھ ان الفاظ میں کی گئی ہے۔
دنیاں میں اگر آئے ہیں توجینا ہی پڑے گا……
یہ صرف ایک فلمی گانا نہیں تھا اس دور کی کڑوی حقیقت یہی تھی کہ بیل کسان کا سرمایہ عظیم ہوا کرتا تھا اور اگر کسی کسان کا بیل مر جائے تو اس کو خود بیل کی جگہ ہل میں جتنا پڑتا تھا۔
اس دور میں عام تاثر یہ تھا اگر کسی کسان کا بیل مرجاتا تو وہ بھی مر جاتا، اس کے بعد مشینوں کا دور آیا، بیل کی جگہ ٹریکٹر نے لے لی، نئی قسم کی مشینیں بازار میں آ گئیں، ملک کی بنجر زمینیں آباد ہو گئیں مگر کسانوں کی حالت شاید علامہ اقبال کے دور سے بھی بدتر ہو گئی۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2019میں اقتصادی بد حالی کی وجہ سے سیکڑو ںکسانوں کو خودکشی کرنے پر مجبور ہونا پڑا جو اس بات کا زندہ ثبوت ہے کہ بے پناہ ترقی کے باوجود کسانوں کے لیے زندہ رہنا اتنا مشکل ہو گیا ہے کہ وہ جان دینے کے لئے مجبور ہے ۔ ہر دور کی حکومت نے کسانوں کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی اور یہ دعویٰ بھی کیا کہ اس حکومت نے سابقہ حکمت کی نسبت کسانوں کی زیادہ خدمت کی ۔موجودہ حکومت بھی یہی دعویٰ کر رہی ہے لیکن کسانوں کی خستہ حالی دوسری کہانی بیان کر رہی ہے۔
گزشتہ تقریباً 20 دنوںسے کسان اسی داستاںکو لئے دسمبر کی سرد راتوں میں کھلے آسمان کے نیچے بیٹھنے کو مجبور ہیں ۔ وہ حکومت کے ایوانوں کو یہ بتانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ان کوکسی نئے قانون کی ضرورت نہیں ہے۔ دوسری طرف حکومت ہے جو پہلے تو یہ ماننے کو تیار نہیں تھی کہ اس سے کوئی غلطی ہوئی ہے۔ شروع کے دنوں میں وزیر اعظم کہتے رہے کہ ان معصوم کسانوں کو سیاسی جماعتوں نے ورغلا رکھا ہے اس کے بعد کچھ لوگوں نے اس تحریک کو پنجاب تک محدود کرنے کی کوشش کی ،کچھ لوگوں نے اسے خالصتان سے منسوب کر دیا بالکل اسی طرح جیسے  CAA کی عوامی تحریک کو پاکستان سے جوڑ دیا گیا تھا ،اتنا ہی نہیں اقتدار کے نشے میں مد ہوش حکومت کے ایک وزیر نے اس تحریک کو چین ا ور پاکستان سے جوڑ دیا اور حکومت اس بات پر مصررہی کہ اس نے جو قوانین بنا دیئے ہیں وہی کسانوں کے حق میں ہیں، بالکل وہی رویہ اختیار کیا جا رہا ہے جو تین طلاق ، CAA ،نوٹ بندی اور GST کے معاملے میں اپنایا گیا تھا، مان نہ مان میں تیرا مہمان،راتو رات سرکار کو خیال آیا کہ مسلمان عورتیں تین طلاق کی اذیت کا شکار ہیں، لاکھوں تین طلاق سے پریشان ہیں اور باوجود مسلمان عورتوں کے اعتراض اوراظہار ناراضگی کے جس میں وہ کہتی رہیں کہ ہم اپنے موجودہ قوانین سے خوش ہیں ہمیں کسی نئے قانون کی ضرورت نہیں مگر حکومت نے زبردستی قانون بنایا بھی اور نافذ بھی کر دیا اسی طرح کسان بھی چلا رہے ہیں کہ ان کو کسی قانون کی ضرورت نہیں ہے مگر حکومت ان کے لئے قانون بنانے پر بضد ہے، کسانوں کی رائے مشورہ کے بغیر قانون بنا دیے گئے اور کہا جا رہا ہے کہ یہ قوانین کسانوں کی فلاح کے لیے بنائے گئے ہیں اور ان کی مخالفت غیر ضروری اور سیاست پر مبنی ہے، حکومت کی پوری مشینری یہ ثابت کرنے پہ تلی ہے کہ دہلی کے بارڈر پر احتجاج کر رہے یہ کسان کسی کے بھڑکانے سے گمراہ ہو گئے ہیں، وہ اس سنگین صورت حال کی سنگینی کو جان بوجھ کر نظر انداز کر رہے ہیں۔مقصد صاف ہے کہ کسانوں کو ضرورت ہو یا نہ ہو کسی کو ان قوانین کی سخت ضرورت ہے۔
جو ہنگامہ بپا ہے وہ CAA اور NRC قوانین کے خلاف مظاہروں کی یاد تازہ کرا ر ہا ہے۔ یہ کسان تحریک بھی پورے ملک میں پھیلتی جا رہی ہے جس طرح CAA کے خلاف ملک میں ایک کے بعد ایک شاہین باغ بن گئے تھے، اسی طرح کسان قوانین کے خلاف ہر روز مختلف سیاسی اور سماجی گروپس اپنی حمایت کا اعلان کر رہے ہیں اور حکومت کی لاکھ کوششوں اور تہمتوں کے باوجود یہ سلسلہ آگے بڑھتا ہی جا رہا ہے، کبھی سرکار اور گودی میڈیا اس عوامی تحریک کو پنجاب کے امیر کسانوں کی تحریک ثابت کرنے کی کوشش کررہی ہے تو کبھی اس کاخالصتان تحریک سے رابطہ بتا کر کمزور کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔  وہ تو اقتدار کے نشہ میں مدہوش ہیں جو بھی سامنے آئے اسے کچلتے چلو نتیجہ کی پرواہ کئے بغیر۔
 CAA مخالف تحریک میں ان کوصرف ٹوپیاں دیکھائی دیتی تھیں اور اب صرف پگڑیاں نظر آ رہی ہیں، ان کو دسمبر کی سردی میں اپنے گھروں سے دور سڑک پر بیٹھے کسان خالصتانی لگنے لگے جیسے CAA کی مخالفت میں اپنے آئینی حقوق کا مطالبہ کرنے والے معصوم عوام جہادی لگ رہے تھے، اس قدر شدید احتجاج کے باوجود حزب اقتدار کو یہ یاد نہیں کہ کس غیر جمہوری طریقہ سے راجیہ سبھا میں ان بلوں کو آناً فاناً پاس کرایا گیا تھا۔ روی شنکر پرساد کو یہ تو یاد ہے کہ کانگریس بلوںکی مخالفت کر رہی تھی جن کو وہ خود لانا چاہتی تھی لیکن وہ یہ بھول گئے کہ بی جے پی آج انہی پالیسیوںپر گامزن ہے جن کی وہ مخالفت کیا کرتی تھی چاہے وہ خارجہ پالیسی کی بات ہو ریلوے کے privatization کی، غیر ملکی سرما یہ کاری ہو یا چین کو آنکھیں دکھانے کا معاملہ ہو یا وہ منریگا ہو جس کی پارلیمنٹ کے اندر مودی جی کانگریس کی ناکامیوں کا (اسمارک) شاہکار بتایا کرتے تھے اچھا ہوتا اگر روی شنکر پرساد یہ بھی بتا دیتے کہ مودی سرکار آج ان سب  پالیسیوں کو کیوں اپنا رہی ہے جن کی وہ ہمیشہ مخالف رہی ۔آج سوال یہ نہیں کہ کون کیا چاہتا ہے، سوال صرف یہ ہے کہ کسان کیا چاہتے ہیں ۔ہونا تو یہ چاہئے کہ وہ حکومت جو 130 کروڑ عوام کی حکومت ہونے کا دعویٰ کرتی ہے ۔اگروہ سماج کے کسی بھی طبقہ کے لیے قانون بنانا چاہتی ہے  تو کیا اس اس طبقہ کا اعتماد حاصل نہیں کرنا چاہیے جس کے لیے قانون بنایا جا رہا ہے، لیکن گزشتہ کئی سالوں سے ایک عجیب سا چلن چل رہاہے اورہورہا ہے کہ حکومت جس کے لیے قانون بناتی ہے وہی ناراض ہو جاتا ہے۔ تین طلاق مسلمان عورتوں کے لیے مسلمان ناراض، نوٹ بندی عوام کے لیے عوام ناراض، 370 کشمیریوں کے لیے کشمیری ناراض، GST تاجروں کے لیے تاجر ناراض، اور فرض کیجیے کہ اگر کسی غلط فہمی کے چلتے ایسا کوئی قانون بن بھی گیا جس سے عوام ناراض ہیں تو حکومت کو وہ قانون واپس لینے میں تردد نہیں ہوناچاہئے ۔ لیکن حکومت اچھی طرح جانتی ہے کہ یہ قانون کسی غیر فہمی کا نتیجہ نہیں بلکہ حکومت کی سوچی سمجھی پالیسی کا حصہ ہے جو سرمایہ داروں کے اشارے پربنایا گیاہے اور اسی لیے حکومت اس کو واپس لینے کو تیار نہیں۔ دوسری طرف کسان ہیں جو ٹس سے مس ہونے کو تیار نہیں، وہ حکومت کی ترمیم کی شطرنجی چال میں پھنسنا نہیں چاہتے۔ اس لیے ان قوانین کو مکمل طور پہ منسوخ کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے، عوام کے مختلف طبقوں سے کسانوں کوحمایت کا نہ صرف اعلان ہو رہا ہے بلکہ لوگ بڑی تعداد میں ان کے ساتھ شامل ہو رہے ہیں ،حکومت کو بھی اب صورت حال کی سنگینی کا احساس ہونے لگا ہے، گزشتہ تین دنوں سے مسلم علاقوں میں سیکورٹی فورسیز کی تعیناتی اس اعتراف کا ثبوت ہے حکومت کو خدشہ ہے کہ سماج کے دوسرے گروپس اگر کسانوں کے ساتھ شامل ہو گئے تو یہ تحریک ایک زبردست عوامی تحریک کی شکل اختیار کر سکتی ہے ،جس کودبانا ناممکن ہو جائے گا۔ دنیا جانتی ہے کہ کوئی بھی تحریک جب عوامی تحریک کی شکل اختیار کرتی ہے تو اقتدار بہت دنوں قائم نہیں رہتا۔ وہ کتنا بھی طاقتور کیوں نہ ہو مختصراً یہ کہ موجودہ صورت حال حکومت کے لیے گلے کی ہڈی بن گئی ہے ۔ اگر وہ کسانوں کی مانگ کے آگے جھک جاتی ہے تو آنے والے دنوں میں نہ صرف یہ کہ اس کی ناقابل شکست امیج پہ داغ لگ جائے گا بلکہ اس کو  لیبر قانون اورprivatization کی موجودہ پالیسی پرنظر ثانی کرنے کا دباؤ بڑھ سکتا ہے، CAA کی تحریک جو آسام میں دوبارہ شروع ہو چکی ہے اس کوبھی طاقت مل سکتی ہے۔ اگر حکومت کسانوں کی مانگ ماننے سے انکار کرتی ہے جس کا اشارہ دیاجار ہاہے تو اس کو مظاہرین پر سختی کرنی ہوگی جس کا انجام ملک گیر عوامی تحریک کی شکل اختیار کر کے حکومت کے لیے خطرہ پیدا کر سکتا ہے۔
ابتداے عشق ہے روتا ہے کیا
آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا
 [email protected]
 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS