راجناتھ سنگھ
پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں دو اہم زرعی بلوں کی منظوری کی بدولت ہم کسانوں کو صنعت کاروں میں بدلنے کے اپنے مشن میں ایک اور قدم آگے بڑھنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ اس طرح کسانوں کی آمدنی میں اضافہ ہوگا اور ان کا معیار زندگی بھی بلند ہوگا۔ اس سے عالمی منڈی میں بھارت کی پوزیشن مضبوط ہوگی اور ’آتم نر بھر زراعت‘ کو یقینی بنایا جاسکے گا۔
ہمارے وزیر اعظم کی دور اندیش اور باصلاحیت قیادت میں گزشتہ 6 برسوں سے حکومت کی انتھک لگن اور عزم کا نتیجہ اس کامیابی کی شکل میں برآمد ہوا ہے۔پارلیمنٹ میں دونوں کی منظوری بھارت کی زراعت کے لیے درحقیقت ایک اہم واقعے کی حیثیت رکھتی ہے۔ میں وزیر اعظم جناب نریندر مودی کا بھارت کی زراعت کو صحیح معنی میں آگے بڑھانے کے ان وژن کے لیے شکر گزار ہوں۔ میں وزیر زراعت جناب نریندر سنگھ تومر کو بھی مبارک باد دیتا ہوں اور ان کی ستائش کرتا ہوں کہ انھوں نے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں بل کے تمام پہلوؤں کی بڑی وضاحت اور اعتماد کے ساتھ تشریح کی ہے۔ پچھلے چند برسوں میں ہماری حکومت نے کسانوں اور زرعی شعبے کیلئے بہت سے جرأتمندانہ اقدامات کیے ہیں۔ ان میں 10 ہزار کسانوں کی مصنوعات سے متعلق تنظیموں ایف پی اوز کے قیام کی 6685 کروڑ روپے کی لاگت والی اسکیم بھی شامل ہے۔ اس کے ذریعے کسان- خود کفیل گروپوں کے تحت منظم ہوجائیں گے اور ان کی منڈیوں، مالیات اور پیداواری ٹیکنالوجیوں تک بہتر رسائی ہوسکے گی۔ ایک لاکھ کروڑ روپے کا زرعی بنیادی ڈھانچہ فنڈ اپنی نوعیت کا اکیلا فنڈ ہے جس سے فصل کی کٹائی کے بعد کے بندوبست کیلئے کمیونٹی زرعی اثاثوں کا قیام عمل میں آئے گا۔ قومی زرعی برآمداتی پالیسی کے ذریعے 2022 تک زرعی برآمدات کو دوگنا کرکے انھیں 60 ارب امریکی ڈالر تک لے جایا جاسکے گا۔
پی ایم کسان کے تحت 90000 کروڑ سے زیادہ روپے کے ذریعے کسانوں کو براہ راست فائدہ پہنچاہے۔ یہ اسکیم کسانوں کو روزی روٹی کی لازمی فراہمی کے معاملے میں بہت اہم ثابت ہوئی ہے۔اب ان تازہ ترین اصلاحات کے ساتھ یعنی کسانوں کی مصنوعات کی تجارت اور کامرس (فروغ اور سہولت) قانون 2020، قیمتوں کو یقینی بنانے کے بارے میں کسانوں (کو بااختیار بنانے اور تحفظ) سے متعلق ایگریمنٹ اور زراعت کی خدمات سے متعلق قانون 2020 کے ساتھ ہم نے ایک ایسے جدید اور عالمی معیار کے زرعی ماحولیاتی نظام (ایگریکلچر ایکو سسٹم) کے قیام کی بنیاد رکھ دی ہے جس سے نہ صرف کسانوں کو بلکہ صارفین، تھوک فروشوں، ڈبہ بندی کا کام انجام دینے والوں اور اسٹارٹ اپس کو بھی فائدہ پہنچے گا۔کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جن کا خیال ہے کہ ان اصلاحات کا نتیجہ مرکزی ایجنسیوں مثلاً ایف سی آئی کے ذریعے ایم ایس پی پر خریداری کے خاتمے کی شکل میں برآمد ہوگا اور موجودہ اے پی ایم سیز بند ہوجائیں گے، کسانوں کی زمین ایم این سیز اور کارپوریٹوں کے پاس چلی جائے گی۔ میں سبھی کسانوں کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ ایم ایس پی کا معاملہ ہو یا اے پی ایم سیز کا، پورا موجودہ نظام برقرار رہے گا اور یہ کہ ہم نے ان قوانین میں ایسے سخت تحفظات کا انتظام کردیا ہے کہ کسانوں کو کسی بھی بدعنوانی سے بچایا جاسکے گا۔موجودہ نظام کو ختم کرنے کے بجائے اصطلاحات سے مسابقت اور اہلیت بڑھنے کا سلسلہ شروع ہوگا اور موجودہ نظام میں مزید بہتری پیدا ہوگی جس سے کسانوں کو اپنی مرضی سے کام کرنے کی آزادی ملے گا۔ اب ہم اپنی بات کسانوں سے شروع کرتے ہیں۔ کسانوں کی مصنوعات سے متعلق تنظیم ایف پی او جو کہ کسانوں کے ایک مجموعے کی حیثیت رکھتی ہے، کسانوںکو مول تول کرنے کا زیادہ اختیار دیتی ہے اور انھیں زیادہ فائدے حاصل کرنے میں مدد دیتی ہے۔ زرعی بنیادی ڈھانچہ فنڈ ا ور منڈی کی اصلاحات سے کسانوں کو زیادہ فائدہ مل رہا ہے اور ان مارکیٹ اصلاحات میں ایف پی اوز کے لیے زیادہ مواقع پیدا کردیئے ہیں۔ کسان اب زرعی سامان اور بنیادی ڈھانچے کے کام میں روپیہ لگا سکتے ہیں اور زرعی کاروبار کے ساتھ سمجھوتے کرکے منڈیوں میں دور تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں۔ ان سمجھوتوں سے یہ لوگ منڈیوں کی مانگ کے مطابق بہتر صلاح ومشورے، ٹیکنالوجی اور سرمایہ کاری حاصل کرسکیں گے۔اس سے ان کی زیادہ آمدنی یقینی بنائی جاسکے گی۔
کامیاب ایف پی او کی سب سے اچھی مثال مہاراشٹرمیں سہیادری فارمرس پروڈیوسر کمپنی لمیٹڈ ہے۔ یہ ایک چھوٹی ایف پی او کے طور پر شروع ہوئی تھی لیکن اب یہ بھارت سے انگوروں اور بہت سی دیگر فصلوں کی سب سے بڑی برآمد کاروں میں ایک کے طور پر ابھر کر سامنے آئی ہے۔ 8000 سے زیادہ چھوٹے کسانوں نے ایف پی او کے تحت اندراج کرایا ہے جو ہر موسم میں 16000 ٹن سے زیادہ برآمد کرتے ہیں۔ اس سے کسانوں کو سرکردہ ایف ایم سی جی کمپنیوں کے ساتھ مفاہمت نامے کرنے اوراعلیٰ درجے کے تکنیکی بنیادی ڈھانچے تک رسائی حاصل کرنے میں مددملی ہے جس سے ان کی آمدنی میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ بہت سے لوگ اکثر پوچھتے ہیں کہ ’سہادری فارمز جیسی 100کمپنیاں کیوں نہیں ہیں‘— اس کی جزوی وجہ یہ ہے کہ موجودہ محدود کرنے والے فریم ورک اور حالات کی وجہ سے زراعت میں سرمایہ کاری کیلئے کافی ترغیبات فراہم نہیں ہوئیں۔ ان اقدامات اور صلاحات کے ذریعے ہمارے پاس اس طرح کی کامیابیوں کی لاکھوں کہانیاں ہوں گی اور ہم نے پورے ملک میں آرڈیننس نافذ کیے جانے کے بعد پچھلے تین چار مہینوں میں جو کچھ دیکھا ہے وہ صرف شروعات ہے۔
منڈیوں کے ساتھ بہتر سلسلے جوڑنے کے ذریعے ہم اپنے کسانوں کی مصنوعات میں بھی تبدیلی دیکھیں گے۔ طویل عرصے سے بھارت بہت سی فصلوں کے معاملے میں خود کفیل رہا ہے، مثلاً چاول اور گیہوں وغیرہ۔اور ہر سال ہمارے پاس ضرورت سے زیادہ چاول اور گیہوں ہوتاہے۔ منڈیوں کی مانگ اور رجحانات کو بہتر طور پر سمجھ کرجو زرعی کاروبار سے براہ راست تعلق کی وجہ سے ممکن ہوسکے گا ہمارے کسان فصلوں میں تنوع پیدا کرسکیں گے اور درآمدات پر ہمارا ا نحصار کم ہوجائے گا۔ مثال کے طور پر، اندرون ملک کم پیداوار کی وجہ سے بھارت اس وقت 10 ارب ڈالر سے زیادہ کے خوردنی تیل درآمد کرتا ہے۔
اسی طرح شہروں میں کیوی اور ناشپاتی جیسی صحت مند خوراک کی زیادہ مانگ دیکھ رہے ہیں اور یہ مانگ بنیادی طورپر درآمدات کے ذریعے پوری کی جاتی ہے۔ اصلاحات کی بدولت سرمایہ کاری میں اضافہ ہوگا اور کسان منڈی سے متعلق ضروری معلومات اور سکیورٹی حاصل کرنے کے ذریعے اپنی فصلوں کو متنوع بناسکیں گے اور اندرون ملک پیداوار بڑھے گی جس سے درآمدات سے نجات ملے گی اور بھارت مکمل خود کفالت حاصل کرلے گا۔
اصلاحات سے زرعی کاروبار کو یہ موقع ملے گا کہ وہ کسانوں سے براہ راست خریداری کے ذریعے مسلسل اور معیاری مصنوعات کی فراہمی حاصل کرسکیں۔ اس سے زرعی کاروبار اپنا کام کاج زیادہ بہتر طریقے پر چلا سکے گا اور برآمدات نیز خوراک کو ڈبہ بند کرنے کے اپنے حصے میں اضافہ کرسکے گا۔ زرعی کاروبار سے نظام کی دوسری خامیوں مثلاً بچولیوں اور لاجسٹک پر آنے والی لاگت کو ختم کرنے میں مدد ملے گی۔ مثال کے طورپر پنجاب، شمالی ہریانہ اور مغربی اترپردیش میں آلو کے بیجوں والے1000 سے زیادہ کسانوں نے ٹیکنکو ایگری سائنسز لیمٹڈ (آئی ٹی سی کی ایک ذیلی کمپنی) کے ساتھ سمجھوتہ کرکے پیداواریت میں 10 سے 30 فیصد تک اضافے کے ذریعے بہت فائدہ حاصل کیا ہے۔ اور انھیں آنے والی لاگت میں بھی 35 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ پورے ملک میں زرعی کاروبار کے ساتھ کسانوں کے شامل ہونے کی ہزاروں مثالیں ہیں جن سے کسانوں کی آمدنی میں اضافہ ہوا ہے اور زرعی کاروبار کو فائدہ پہنچا ہے۔ ایف ایس ایس اے آئی کے کاروبار پر مبنی لائسنس سے متعلق حالیہ اعداد وشمار سے پتہ چلتا ہے کہ درخواستوں میں تقریباً 20 فیصد سال بہ سال اضافہ ہورہا ہے۔ اس طرح کے رجحان کے اور آگے بڑھنے کی امید ہے جس سے زرعی سیکٹر میں بھاری سرمایہ کاری ہوگی۔
روایتی زرعی کاروبار میں سرمایہ کاری کے علاوہ منڈی اصلاحات سے اس شعبے میں اختراعات پیدا ہوں گی اور کاروبار کے نئے نئے طریقے سامنے آئیں گے۔ اس وقت مختلف قسم کے کاروبار مثلاً زرعی بندوبست سے متعلق خدمات، معیار بندی اور جانچ پرکھ کے مراکز، گریڈ اے کی گودام سے متعلق کمپنیاں، ڈیجیٹل منڈیاں وغیرہ ابھر کر سامنے آرہی ہیں۔ زرعی سیکٹر کو آسان بنائے جانے سے اختراعی کاروباری ماڈلوں کے ذریعے زیادہ سرمایہ آسکے گا اور زیادہ اچھا کاروبار ہوسکے گا اس سے لاکھوں کسانوں کو فائدہ ہوگا۔ زرعی بندوبست میں اختراعات سے پیداوار میں اضافہ ہوگا، فصلوں کی کٹائی کے بعد کے بندوبست میں بہتری آئے گی، فصلوں کے ضائع ہونے میں کمی آئے گی اور ڈیجیٹل منڈی سے مارکیٹ تک رسائی میں اضافہ ہوگا۔ اس سے زیادہ یہ کہ مارکیٹ اصلاحات سے زرعی سیکٹر میں نجی سرمایہ آسکے گا جس سے دیہی معیشت کو زبردست فروغ حاصل ہوگا۔ زراعت اور اس سے متعلق صنعتوں میں سرمایے کی آمدمنجمد رہی ہے۔ پچھلے پانچ برسوں میں دوفیصد سے بھی کم سی اے جی آر دیکھی گئی ہے۔ پرائیویٹ سیکٹر کی سرمایہ کاری رسائی میں رخنوں کی وجہ سے مزید کم ہوئی ہے۔ نئی مارکیٹ اصلاحات کے ساتھ ہم پورے زرعی نظام میں پرائیویٹ سیکٹر کی طرف سے سرمایہ کاری میں اضافہ دیکھیں گے۔اس سے متعلقہ سیکٹروں مثلاً لاجسٹک خدمات فراہم کرنے والوں، گوداموں کا کام چلانے والوں، ڈبہ بندی کے کام میں مصروف عملے وغیرہ کے معاملے میں روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے۔ ہم ہمہ نسلی، زرعی ملازمتیں بھی دیکھیں-کھیتی کا کام کرنے والوں کے بچے اب ایف پی او کے ٹی ای اوز یا منیجر بننے کی آرزو کرسکیں گے اور انھیں اس طرح کے مواقع کے لیے شہر جانیکی ضرورت نہیں ہوگی۔ مجموعی طور پر مارکیٹ اصلاحات سے کئی طرح کے سماجی اقتصادی فائدے ہوں گے مثلاً کسانوں کے لیے زیادہ آمدنی، نئے روزگار اور دیہی بنیادی ڈھانچے کی ترقی وغیرہ۔
بھارت زرعی ترقی اور پیش رفت میں ایک نئے محاذ کی چوٹی پر کھڑا ہوا ہے، ایک ایسا محاذ جسے کسان، کاروباری، حکومت اور صارفین مل کر تعمیر کریں گے۔حکومت کی ہمہ جہت کوششیں ہمیں اس راستے پر آگے چلا رہی ہیں اور دونوں قوانین کے پاس ہونے سے اب ہم کسانوں کی آمدنی دوگنی کرنے، بھارت کو دنیا کے لیے خوراک کا ایک مرکز بنانے اور زراعت نیز متعلقہ سیکٹروں میں بامعنی روزی روٹی کو حقیقت میں بدلنے کے اپنے وژن کو پورا کرنے کے لیے اچھی طرح تیار ہیں۔
مضمون نگار:موجودہ وزیر دفاع اور
سابق وزیر زراعت ہیں