عاطف ربانی
ہندوستان کورونا وبا کی گرفت میں تو ہے ہی، اب اسے بے روزگاری کی بڑی مصیبت کا بھی سامنا کرنا پڑ رہاہے۔ کورونا وبا کو پھیلنے سے روکنے کے لیے بچاؤ کے سب سے پہلے طریقے کے طور پر ملک بھر میں تقریباً ڈھائی مہینے کی مکمل تالہ بندی کی گئی تھی۔ اس دوران سارے دفتر، صنعتیں، کارخانے بند رہے اور معاشی سرگرمیاں ٹھپ پڑ گئیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کروڑوں لوگوں کا کام دھندا برباد ہوگیا اور نوکریاں چلی گئیں۔ اس وقت معیشت میں مندی کے ساتھ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ لوگوں کے پاس کام نہیں ہے، نوکریاں نہیں ہیں۔ روزگار کے مواقع پیدانہیں ہورہے ہیں۔ ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں، جو پہلے سے بازار میں نوکری کی تلاش میں تھے۔ بے روزگاری کا یہ بحران کوئی نیا نہیں ہے۔ مکمل تالہ بندی سے پہلے بھی بے روزگاری کی شرح پچھلی چار دہائی کی سب سے اونچی سطح پر پہنچ چکی تھی۔مختلف ایجنسیوں کے اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ ملک میں بے روزگاری ڈراؤنی سطح پرپہنچ چکی ہے۔ سینٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکنامی (سی ایم آئی ای) کی تازہ رپورٹ بتاتی ہے کہ بے روزگاری حیرت انگیز طریقے سے بڑھ رہی ہے۔ مارچ سے جولائی کے درمیان ملک میں 1.9کروڑ نوکری پیشہ لوگوں کی نوکری چلی گئی۔ یہ تعداد ان لوگوں کی ہے، جو منظم شعبے میں کام کرتے ہیں۔ غیرمنظم شعبے کی حالت کا تو اندازہ بھی نہیں لگایا جاسکتا ہے۔ بے روزگاری کی شرح 26فیصد کی سطح پر پہنچ چکی ہے۔ آزاد ہندوستان میں ایسا پہلی بار ہوا ہے جب بے روزگاری کی شرح اتنی زیادہ ہے۔
ہاں، اتنا ضرورہوا ہے کہ غیرمنظم شعبے کے بے روزگار، جن میں بڑی تعداد دہاڑی مزدوروں کی ہے، انھیں اب پھر سے روزگار ملنا شروع ہوا ہے۔ سی ایم آئی ای نے پچھلی رپورٹوں میں بتایا تھا کہ صرف اپریل کے مہینے میں ملک میں 12کروڑ سے زیادہ ایسے لوگ بے روزگار ہو گئے تھے۔ جولائی میں یہ تعداد گھٹ کر ایک کروڑ کے آس پاس رہ گئی، یعنی 11کروڑ لوگ واپس کام پر لگ چکے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ غیرمنظم شعبے میں دہاڑی کام پانا اتنا مشکل نہیں ہوتا، جتنا منظم شعبے میں نوکری پانا۔
براحال تو ان بے روزگار نوجوانوں کا ہے، جو کہیں نہ کہیں نوکری کررہے تھے اور ہرمہینے تنخواہ پا رہے تھے۔ لیکن جیسے ہی اس شعبے میں بڑی تعداد میں نوکریاں گئیں، تو لوگوں کو تنخواہ ملنی بند ہوگئی۔ کورونا بحران کے سبب ایشیا اور بحرالکاہل کے علاقے کے ممالک میں روزگار کی حالت کے تعلق سے ایشیائی ڈیولپمنٹ بینک(اے ڈی بی) اور انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) کی حالیہ رپورٹ (ٹیکلنگ دی کووڈ19-یوتھ امپلائمنٹ کرائسس ان ایشیا اینڈ دی پیسیفک) کے مطابق اس سال کے آخر تک ہندوستان کے 41لاکھ نوجوان نوکریوں سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔
مکمل تالہ بندی کے دوران کھڑے ہوئے بے روزگاری کے اس بحران سے ابھرنے کے لیے مرکزی سرکار نے ایک پورٹل ’اسیم‘ (آتم نربھر اسکلڈ امپلائی-امپلائر میپنگ) کا بھی انتظام کیا ہے۔ اس پورٹل پر پچھلے 40دنوں میں 69لاکھ بے روزگاروں نے نوکری کی تلاش میں خود کو رجسٹرڈ کیا۔ کل رجسٹرڈ لوگوں میں صرف 7ہزار 700کو کام ملا۔ مطلب یہ کہ 0.1فیصدلوگوں، یعنی ایک ہزارآدمیوں میں سے صرف ایک آدمی کو کام ملا۔ اس پورٹل پر14سے 21اگست کے درمیان، محض ایک ہفتہ میں 7لاکھ لوگوں نے رجسٹرڈکرایا، جس میں صرف 691 لوگوں کو ہی کام ملا۔ کام ملنے کا تناسب جوں کا توں بنارہا، جو0.1فیصد سے بھی کم ہے۔ اس سے یہ اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ ملک میں جس تیزی سے بے روزگاری بڑھ رہی ہے، اس کے تناسب میں روزگار ملنے کے امکانات بہت کم ہیں، بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ نہیں کے برابر ہیں۔
دلچسپ تو یہ ہے کہ حکومت نے سرکاری طور پر پچھلے کئی سالوں سے روزگار کے اعدادوشمار عوامی نہیں کیے ہیں۔ ظاہرہے، حکومت صارف، روزگار اور دیگر معاشی اعدادوشمار کو دبائے رکھنا چاہتی ہے، تاکہ خطرناک ہوتی حالت سامنے نہ آنے پائے۔ اب تو نیشنل سمپل سروے آفس (این ایس ایس او) کو بھی ختم کردیا گیا ہے۔ اس کا انضمام سینٹرل اسٹیٹسٹک آفس (سی ایس او) میں کرکے نئی تنظیم نیشنل اسٹیسٹک آفس (این ایس او)بنا دیا گیا ہے۔ این ایس او پارلیمنٹ کے تئیں جواب دہ نہیں ہوگا۔ اس سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ یہ ادارہ ایک سرکاری حصہ ہوگا اوراس کی جواب دہی سرکار کے تئیں ہوگی۔
روزگار پرپہلی چپت نوٹ بندی سے لگی تھی۔ اس کے بعد کورونا وبا نے باقی کسر پوری کردی۔ بے روزگاری کے بڑھتے ہوئے اعدادوشمار سرکاری پالیسیوں کی کامیابی پرسوالیہ نشان لگانے والے ہیں۔ ایسے اعداد وشمار کو جاری نہ کرنا اور بغیر اعدادوشمارکے ہی پالیسی بنانا اعدادوشمار کے لحاظ سے قدامت پسندی ہے۔ مشہور صحافی کرس اینڈرسن نے اعدادوشمار کے لحاظ سے قدامت پسندی کے ضمن میں کہابھی تھا: ’دستیاب اعددوشمار ہونے پرتعداد خود اپنی سچائی بیان کرتی ہے۔‘ سرکار نے اس بیان کو لفظ بہ لفظ لیا ہے۔روزگار کی حقیقی حالت کو اگر چھپانا ہے، تو دستیاب اعدادوشمار کا انکشاف ہی نہ کرنا بہتر ہے۔
لیکن دستیاب اعداد و شمار کی حصولیابی مسائل کی روک تھام کا بنیادی قدم ہے۔ مثلاً اگر کوئی شخص کینسر سے متاثر ہے تو اس کا کامیاب علاج تبھی ہو سکے گا، جب یہ پتہ چلے کہ کینسر جسم کے کس حصے میں اور کتنی خطرناک حالت میں ہے۔ اس کے لیے کینسر سے متعلق جانچ ضروری ہے، نہ کہ دوسرے غیر ضروری اعدادوشمار۔ یہی حال موجودہ معیشت کا بھی ہے۔ بیماری سے جوجھ رہی معیشت کا علاج کیسے ہو، اس کے لیے صحیح اعدادوشمار کی انتہائی ضرورت ہے۔
’اسیم‘ جاب پورٹل اصل میں ایک ایسا آن لائن ٹھکانہ ہے جہاں سے امپلائر کومطلوب صلاحیت والے ملازمین مل سکیں اور نوکری تلاش کرنے والوں کو ایمپلائر۔ ظاہر ہے، یہ تب ہی کارگر ہوگا جب لیبربازار میں ملازمین کی ڈیمانڈ ہوگی۔ بازار میں ملازمین کی ڈیمانڈ تب ہوگی، جب معاشی سرگرمیاں مناسب ڈھنگ سے چل رہی ہوں، معیشت میں رفتارہو اور اضافے کے اشارے مل رہے ہوں۔ لیکن ابھی ان میں سے کچھ بھی توہوتا نہیں نظر آرہا ہے۔
مرکزی سرکار نے مکمل تالہ بندی سے پیدا ہوئی کسادبازاری سے ابھرنے کے لیے تمام پیکیجوں کا نظم کیا ہے۔ لیکن سرکار کے یہ سارے اقدامات بنیادی لکویڈٹی بڑھانے پر مرکوز ہیں۔ اس لیے ان کے امید کے مطابق نتائج اس لیے نہیں نکل رہے ہیں، کیوں کہ مسئلہ لیکویڈٹی کا نہیں، ڈیمانڈ کا ہے۔ چونکہ روزگار کا براہ راست تعلق ڈیمانڈ سے ہے۔ ڈیمانڈ ہوگی تو کھپت ہوگی اور اس بڑھی ہوئی کھپت کو پورا کرنے کے لیے پیداوار کرنی ہوگی۔ پیداوار کے لیے سرمایہ کاری کرنی ہوگی، جس سے روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔ اس لیے معیشت کے چکر کوچلانے کے لیے ایسے طریق کار کی ضرورت ہے، جس سے بازار میں ڈیمانڈ بڑھے۔اس کے لیے مالی اقدامات کیے جانے چاہیے۔ مالی اقدامات سے لوگوں کی قوت خرید میں اضافہ ہوگا اور اسی سے کھپت بڑھے گی، جس کا سیدھا اثرپیداوار اور روزگار پر پڑے گا اور دونوں میں اضافہ ہوگا۔
ملک کے کل روزگار میں سرکاری اور عوامی شعبے کابہت کم حصہ ہے، پھر بھی ان میں سالوں سے زیرالتوامیں پڑیں بھرتیوں میں فوری منصوبہ بندی سے کچھ حد تک راحت مل سکتی ہے۔ وہیں پرائیویٹ شعبے کے لیے سیلری سبسڈی جیسے اقدامات بھی متاثرکن ہوں گے۔ پالیسی سازوں کو عوامی ملازمت کے پروگراموں سمیت مجموعی طور پر لیبر مارکیٹ پالیسیوں کے بنانے اور نفاذ پربھی غور کرناہوگا۔ موجودہ روزگار کی پیداوار سمیت بین الاقوامی ضابطے آمدنی مہیا کرانے کی پالیسیاں بھی بے روزگاری سے نمٹنے میں کارگر ہوسکتی ہیں۔
وبا کے بعد کے دور میں عالمی معیشت میں حالات بدلے ہوئے ہوں گے۔ مواصلات اور اطلاعات کی تکنیک کا استعمال بڑھ جائے گا۔ اس لیے نوجوانوں کے ہنرکوڈیولپ کرنے کی تکنیک پربھی دھیان دیناہوگا۔