دل ملے یا نہ ملے ہاتھ ملاتے رہیے

0

دلیپ منڈل
(مترجم: محمد صغیر حسین)

ذاتیں اور ذات پات کا نظام، شہر کاری اور جدید سازی سے زیادہ مضبوط ثابت ہوئی ہیں۔ اب تک یہ تصور عام تھا کہ شہر کاری اور جدید سازی کے ساتھ ذات اور گوتر کی قدیم اور روایتی شناختیں از کار رفتہ ہوجائیں گی لیکن اس بارے میں ایک تحقیقی مقالہ بتا رہا ہے کہ شہروں میں بھی بستیاں، ذات پات کی بنیاد پر بسی ہوئی ہیں اور اعلیٰ ذات والوں کے محلوں میں دلتوں کو اکثر و بیشتر ٹھکانہ نہیں ملتا۔
یہ تحقیق نوین بھارتی، دیپک ملگن اور عندلیب رحمن نے کی ہے۔ اس تحقیقی مقالے کا موضوع ہے: "Isolated bycastes: Neighbourhood scale Residential Segregation in Indian metros"اسے انڈین انسٹی ٹیوٹ آف بنگلورو نے شائع کیا ہے۔ اس تحقیق کو انجام دینے والی ٹیم کے رکن نوین بھارتی نے دی پرنٹ کو دئے گئے ایک انٹرویو میں اپنے اعداد و شمار کے بارے میں معلومات فراہم کرتے ہوئے کچھ چونکا دینے والے حقائق سامنے رکھے۔
1- دلتوں کو شہری محلوں سے باہر رکھنے کا سب سے زیادہ چلن گجرات میں ہے۔ مثال کے طور پر راج کوٹ شہر کی 80فیصد بستیوں میں کوئی دلت نہیں رہتا۔
2-کولکاتہ شہر میں جس کے بارے میں یہ غلط تصور عام ہے کہ وہاں متعدد اصلاحی تحریکیں برپا ہوئیں، تقریباً60فیصد محلوں میں کوئی دلت نہیں رہتا۔
3- بنگلورو شہر میں آئی ٹی انقلاب کے بعد بسی جدید بستیوں میں بھی دلتوں کے نہ ہونے کا چلن صاف نظر آتا ہے اور ان جدید اپارٹمنٹوں میں بھی دلت بے حد کم ہیں۔
یہ سارے حقائق اس لئے سامنے آپارہے ہیں کیونکہ 2011کی مردم شماری میں پہلی بار مردم شماری بلاک کی بنیاد پر اعداد وشمار جمع کئے گئے۔ ایک مردم شماری بلاک میں 900کے آس پاس لوگ رہتے ہیں۔ اس سے پہلے کی مردم شماری میں، مردم شماری وارڈ کی سطح پر اعداد و شمار جمع کئے جاتے تھے۔ ایک مردم شماری وارڈ میں 30,000سے لے کر دو لاکھ تک لوگ رہتے ہیں۔
مردم شماری وارڈ کے اعداد وشمار میں ذاتوں کی بنیاد پر محلوں کے بسے ہونے کا پتہ نہیں چلتا کیونکہ وارڈ ایک بڑی اکائی ہے اور اُس میں عام طور پر تنوع نظر آجاتا ہے جب کہ مردم شماری بلاک کی بنیاد پر سماج کی سچائی صحیح طریقے سے سامنے آجاتی ہے۔
مردم شماری نے بتائی شہروں کی حقیقت: ابھی تک یہ مفروضہ دہرایا جاتا تھا کہ شہروں میں مذہب کی بنیاد پر لوگوں کی الگ الگ بستیاں اور محلے بسے ہوئے ہیں۔ اس مفروضے پر تنقید بھی ہوتی رہتی ہے۔ حالانکہ اس تفریق کو صحیح اور فطری بتانے والوں کی کمی نہیں رہی ہے۔ اس کے لئے یہ دلیل دی جاتی ہے کہ مذہب در اصل کلچر اور خورد ونوش کا بھی تعین کرتا ہے اور اس بناء پر جو لوگ الگ ہیں، ان کے الگ رہنے میں کوئی بڑی بات نہیں ہے۔
لیکن نئے اعداد و شمار اور اس بنیاد پر ہونے والی تحقیق بتارہی ہے کہ شہروں میں تفریق وتقسیم صرف مذہب نہیں، بلکہ ذات کی بنیاد پر بھی ہوتی ہے:
اس تحقیق سے کئی مفروضے زمیں بوس ہوئے ہیں، مثلاً:
–    شہروں میں ذات پات کی تفریق کم ہے۔
–    ذات پات کا مسئلہ گائووں سے متعلق ہے۔
–    جدید سازی اور شہر کاری کے ساتھ ذاتیں ختم ہوجاتی ہیں۔
–    شہروں میں امیری، غریبی، تعلیم اور ملازمت کی بنیاد پر تفریق ہوتی ہے، یہاں کوئی ذات پات نہیں پوچھتا۔
شہری بستیوں میںذات کی بنیاد پر تفریق کے بارے میں کی گئی اس تحقیق سے اس پہلو کو ایک نئے زاویے سے دیکھنے اور پرکھنے کی بنیاد ملی ہے۔ یہ تحقیق یہ تو بتاتی ہے کہ شہروں میں دلتوں کو اعلیٰ ذات والوں کی بستیوں میں جگہ نہیں ملتی، لیکن اس تحقیق کے دائرے میں یہ سوال نہیں تھے کہ اس کام کو کس طور پر انجام دیا جاتا ہے۔ آخر وہ کون سے طریقے ہیں جن کو بروئے کار لاکر شہروں میں کالونیاں بسانے والوں سے لے کر کرایے پر مکان دینے والے تک سب یہ جان لیتے ہیں کہ یہ شخص دلت ہے۔ ساتھ ہی یہ جاننا بھی دلچسپ ہوگا کہ اِس طرح الگ الگ رہ رہے فرقوں میں، ایک دوسرے کے بارے میں کیا خیالات اور مفروضے کام کرتے ہیں۔
جن دو مقامات پر سب سے زیادہ توجہ مرکوز کی گئی وہ تھے کولکاتہ اور گجرات۔ کولکاتہ کے بارے میں لوگوں کی عام رائے ہے کہ یہ جدیدیت کی سرزمین ہے اور یہاں کے لوگ کافی جدید ہیں۔ یہ سماجی بیداریوں کا مرکز بھی رہا ہے۔ طویل عرصے تک وہاں کمیونسٹوں کی حکومت رہی ہے۔ پھر ایسی کیا وجہ ہے کہ کولکاتہ کے بھدر لوک محلے میں دلت غیر حاضر ہیں۔ تحقیق کا موضوع یہ بھی ہے کہ کولکاتہ میں صرف پانچ فیصدی دلت کیوں ہیں جب کہ مغربی بنگال میں 23فیصدی سے زیادہ دلت رہتے بستے ہیں۔
وہیں گجرات میں یہ دیکھا جانا چاہیے کہ جس ریاست کے بارے میں یہ مفروضہ عام ہو کہ وہاں ہندو اور مسلمان الگ الگ رہتے ہیں، اُسی ریاست میں دلتوںکو شہر کے محلوں سے دور رکھنے کا چلن سب سے زیادہ کیوں ہے۔ گجرات کی ذات پات پرستی اتنے طویل عرصے سے پوشیدہ کیوں رہی ہے؟
حالانکہ شہرو ںمیں ذات پات پرستی کے نہ ہونے کی غلط فہمیوں کا ازالہ ایک اور تحقیق نے پہلے بھی کیا ہے۔ سکھدیو تھوراٹ اورپال اٹویل کی تحقیق نے یہ دکھایا تھا کہ جدید اور کثیر ملکی کمپنیوں کو اگر ایک ہی بایو ڈاٹا اعلیٰ ذات اور دلت خاندانی ناموں کے ساتھ ارسال کیا جائے تو اعلیٰ ذات کے لاحقے والے بایو ڈاٹا کو انٹرویو کے لئے کال آنے کے امکانات زیادہ ہوں گے۔
اسی طرح تعلیم کے جدید مراکز یعنی یونیورسٹیوں میں بھی ذات پات پرستی کی بندشیں عائد ہیں اور وہاں بھی دلتوں، آدی باسیوں اور پسماندہ تعلیم یافتہ افراد کے استاذ بننے کے راستے کم و بیش مسدود ہیں۔
اب شہری محلوں کے بارے میں کی گئی تحقیق سے اس خیال کو اور تقویت ملی ہے کہ ذات پات پرستی کے خاتمے میں جدید سازی اور شہرکاری، دونوں ابھی تک مفید اور اہل ثابت نہیں ہوئے ہیں۔
(صاحب مضمون سینئر صحافی ہیں اور مذکورہ بالا افکار وخیالات ان کے نجی ہیں)
 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS