کمار چیلپّن
(مترجم: محمد صغیر حسین)
سی بی آئی اسپیشل کورٹ کے جج کے سنال کمار نے تھروونتھاپورم میں ہونے والے سسٹرابھیاقتل کے مقدمے میں مجرموں، سیفی اور تھامس کوٹور (Sephy and Thomas Kottoor) کو عمرقید کی سزا سنا کر اس سنسنی خیز قتل کیس کا ایک اہم باب بند کردیا۔ تاہم یہ انصاف محض عارضی ہے کیوں کہ اس بات کے قوی امکانات ہیں کہ مجرمین کیرالہ ہائی کورٹ میں فیصلے کے خلاف اپیل دائر کریں گے اور پھر سپریم کورٹ کے دروازے کھٹکھٹائیں گے۔
سسٹرابھیا، کوٹّایم، کیرالہ میں، Saint Pius Conventمیں زیرتربیت تھیں۔ 27؍مارچ 1992کی صبح وہ کونونٹ کے احاطے میں ایک کنویں میں پراسرار حالات میں مردہ پائی گئیں۔ ابتدائی تفتیش کے دوران کیرالہ پولیس نے اسے خودکشی کا ایک واضح کیس قرار دیا۔ اپنے دعوے کے ثبوت میں، پولیس افسران نے یہ الزام عائد کیا کہ ابھیا ایک ایسے خاندان سے متعلق ہے جو ذہنی انتشار کا شکار رہتی ہے اور جہاں خودکشی کے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ ابھیا کو مرے ہوئے 28سال بیت گئے لیکن کسی صحافی نے کیرالہ پولیس کے خودکشی کے فسانے پر یقین نہیں کیا۔ موت کو خودکشی قرار دینے کے علاوہ مقامی پولیس اور کرائم برانچ یونٹ نے شہادتوں کو مٹانے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی ہرممکنہ کوشش کی۔ ایک مقامی فوٹوگرافر کو ابھیا کی لاش کی تصویریں کھینچنے کے لیے پولیس نے بلوایا تھا۔ اس نے بیشتر تصویروں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ یہاں تک کہ اس تصویر کو بھی برباد کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی جس میں گردن پر ناخن کے نشانات موجود تھے۔
ایک قتل جو 1992میں ہوا، اس کا فیصلہ تقریباً تین دہائیوں بعد ہوا۔ وہ بھی دو افراد کی ثابت قدمی سے جنہوں نے بادِمخالف میں بھی ہار نہیں مانی۔ ان میں سے ایک جوئے مان پوتھین پوریکل (Joeman Puthen purackal)نامی ایک سماجی کارکن تھا اور دوسرا ایک چھوٹا موٹا چور، راجو تھا جس نے کونونٹ میں ایک پیڑ کے پیچھے چھپ کر قتل کا پورا ڈرامہ اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔
ابھیا قتل کیس کے بارے میں بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے لیکن زیرقلم موضوع صرف اس کیس تک محدود نہیں ہوجانا چاہیے۔ ایک شہرۂ آفاق کلیہ ہے ’’انصاف میں تاخیر کا مطلب انصاف سے محرومی ہوتا ہے۔‘‘ اگر ہم اس کلیے کے زاویۂ نظر سے دیکھیں تو کہنا پڑے گا کہ ابھیا کو انصاف سے محروم کردیا گیا۔ نہ صرف ابھیا بلکہ ہندوستان میں ایسے ہزاروں افراد ہیں جنہیں انصاف سے محروم کردیا گیا ہے۔
میں نے نریندر مودی کی تقریر پہلی بار جنوری 2009میں سنی تھی۔ وہ پرواسی بھارتیہ دِوس میں ایک کلیدی خطبہ دینے کے لیے چنئی آئے تھے۔ وہ اس وقت گجرات کے وزیراعلیٰ تھے۔ انہوں نے اپنے خطبے کو اپنی حکومت کے ذریعہ کئے جانے والے ترقیاتی اقدامات پر مرکوز کیا۔ دوران تقریر انہوںنے دعویٰ کیا کہ اُن کا مشن یہ ہے کہ 2010تک گجرات کی تمام عدالتوں میں ’’زیرو بیک لاگ‘‘ (Zero Backlog) ہو یعنی ایک بھی کیس ناتمام نہ پڑا رہے۔ یہ بتانا تو مشکل ہے کہ گجرات کی عدالتوں کی موجودہ صورت حال کیا ہے لیکن ابھیا قتل کیس جیسے واقعات اگر نوشتۂ دیوار ہیں تو ہندوستان کو ’زیرو بیک لاگ‘ کے لیے ابھی کئی نوری سال (Light years) لگیں گے۔ اس تاخیر نے بے شمار لوگوں کی زندگی پر برے اثرات ڈالے ہیں۔
اس کی ایک اہم مثال آنجہانی ایم کے کے نائر کی ہے۔ یہ سینئر آئی اے ایس افسر آزاد ہندوستان کے پہلے بیچ سے تعلق رکھتے تھے۔ کیرالہ میں ایک سی بی آئی افسر نے اُن کے خلاف کئی فرضی مقدمات قائم کردیے جن کی وجہ سے اُن کا شاندار کریئر خراب ہوگیا۔ بالآخر ٹرائل کورٹ نے انہیں تمام الزامات سے بری کردیا لیکن تب تک نائر کے کریئر کو نقصان پہنچ چکا تھا۔ نائر 1977میں کیبنٹ سکریٹری کی حیثیت سے سبکدوش ہوتے لیکن شومئی قسمت سے انہیں 1973میں ملازمت سے معطل کردیا۔ تمام الزامات سے انہیں بری کرنے میں عدالت نے ایک دہائی سے زیادہ کا وقت لے لیا۔ بہرحال یہ تو ہرگز نہیں کہا جاسکتا کہ انہیں عدل و انصاف مل گیا۔ علاوہ ازیں وطنِ عزیز ایک دوراندیش صاحب بصیرت کی خدمات سے محروم ہوگیا جس نے کیرالہ میں اُدّیوگ منڈل کی داغ بیل ڈالی تھی۔ وہ اُدّیوگ منڈل جس نے ریاست میں سبزانقلاب برپا کردیا۔
عدالتی تاخیر کے ایک اور واقعہ پر نظر ڈالئے۔ ماہرقانون داں، منوج پانڈیان نے بحیثیت AIADMK امیدوار 2006 میں چیرن مہادیوی حلقے سے اسمبلی انتخاب میں قسمت آزمائی۔ انہیں انڈین نیشنل کانگریس کے امیدوار پی ویلڈورائی نے شکست دے دی۔ پانڈیان نے انتخابی نتیجے کے خلاف عدالت میں مقدمہ دائر کیا اور عدالت عظمیٰ کو یہ فیصلہ کرنے میں پانچ سال لگ گئے کہ ویلڈورائی کا انتخاب سراسر ناجائز اور کالعدم تھا۔ شومئی قسمت سے یہ فیصلہ اُس وقت آیا جب تمل ناڈو کے عوام نئی اسمبلی کے انتخابات کے لیے ووٹ دینے جارہے تھے۔
ایک اور واقعہ ملاحظہ کیجیے۔ 2009کے عام انتخابات میں، شیوگنا حلقۂ انتخاب سے کانگریس امیدوار پی چدمبرم کی ہار کا ابتدائی طور پر اعلان کردیا گیا۔ ووٹوں کی گنتی چند گھنٹوں کے لیے روک دی گئی اور پھر ریٹرننگ افسر کے ذریعہ اعلان ہوا کہ چدمبرم انتخاب جیت گئے ہیں اور انہوں نے اپنے مدمقابل راجا کنّاین کو 3,000ووٹوں سے ہرا دیا ہے۔ کنّاین نے فوراً ہی مدراس ہائی کورٹ میں اس فیصلے کے خلاف مقدمہ قائم کردیا جس کا فیصلہ ابھی تک نہیں ہوا جب کہ ملک میں 2014اور 2019کے لوک سبھا انتخابات ہوچکے ہیں۔
تاہم، یہ صرف انتخابات سے متعلق مقدمات ہی نہیں ہیں جو عدالتی تاخیر کے شکار ہوئے ہیں۔ ذرا غور فرمائیے کہ 2Gاسپیکٹرم کیس میں کیا ہوا جس کا انکشاف ’دی پائنیر‘ نے 2007میں کیا تھا؟ کول گیٹ اسکیم(Coalgate Scam) کا کیا ہوا؟ سبرامنیم سوامی نے نیشنل ہیرالڈ سے متعلق جس کیس کی شروعات کی تھی یا ٹیلی فون ایکسچینج کیس کا کیاحشر ہوا؟ عدالتوں میں ہونے والی حد سے زیادہ تاخیر کی پریشانیاں کب تک ہم کو ہراساں کرتی رہیں گی؟ یہ انتہائی رنج و افسوس کی بات ہے کہ عدل و انصاف میں تاخیر ہوتی جارہی ہے اور جس کے نتیجے میں عدل و انصاف سے محرومی کے واقعات بڑھتے جارہے ہیں۔ امید ہے کہ نیا سال وطن عزیز کی عدالتوں میں بیک لاگ کو ختم کرنے کی ایک تازہ کوشش کی ابتدا میں ممد و معاون ہوگا۔
(صاحب مضمون ایک کہنہ مشق سینئر صحافی ہیں)
(بشکریہ: دی پائنیر)