داراشکوہ: ایک مغل شہزادہ جو درویش بننا چاہتا تھا

0

عارف محمد خاں
(مترجم: محمد صغیرحسین)

مشرق اور مغرب سب اللہ کے ہیں۔ جس طرف بھی تم رخ کروگے، اُسی طرف اللہ کا رخ ہے۔ اللہ بڑی وسعت والا اور سب کچھ جاننے والا ہے۔ (2:115)
دارا شکوہ، مغل شہنشاہ شاہ جہاں کا بیٹا اور متوقع جانشین شہزادہ تھا۔ دیگر شہزادگان کے برعکس دارا شکوہ کے دل میں یہ خواہش موجزن تھی کہ اسے ایک صوفی فقیر کی حیثیت سے جانا پہچانا جائے۔ تاریخی نگارشات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اوائل عمری میں اُسے ایک روحانی بحران کا سامنا کرنا پڑا اور ایسی حالت میں اُسے اس وقت سکون واطمینان نصیب ہوا جب وہ صوفی سلسلۂ قادریہ کے حلقۂ ارادت میں 1640میں شامل ہوگیا۔ وہ دینی عقائد و منطقی استدلال اور شرعی اصول پرستی سے بے زار ہوگیا تھا اور اُس نے وحدۃ الوجود اور صلح کل جیسے صوفی نظریات میں سکون تلاش کیا۔
سلسلۂ قادریہ میں شامل ہونے کے بعد اس نے تصوف کا گہرا مطالعہ کیا اور مراقبوں واذکار نیم شبی میں منہمک ہوگیا۔ اُس نے ابن عربی، الہجویری، حافظ، جامی، رومی اور دیگر ممتاز صوفیاء کی تخلیقات ونگارشات سے اکتساب فیض کیا اور تقریباً 13سال کی مدت میں پانچ اہم کتابیں قلمبند کیں: سفینۃ الاولیاء (1641)، سکینۃ الاولیاء (1643)، رسالۂ حق نما، طریقۃ الحقیقت (1647)اور حسنات العارفین (1653)۔ پہلی دو کتابوں میں متعدد صوفیاء عظام کی سوانحی تفصیلات مرقوم ہیں اور دیگر تین کتابوں میں نظریاتِ تصوف سے بحث کی گئی ہے۔ وہ مشہور صوفیاء کی تخلیقات سے اس قدر مسحور تھا کہ اس نے لکھا: ’’اگر کسی کو ان حضرات گرامی سے بالمشافہ ملاقات کا شرف نہ حاصل ہوا ہو تو بھی وہ ان کے گراں مایہ شاہ کاروں سے فیضیاب ہوسکتا ہے۔‘‘
اس کے ادبی شہ پاروں نے طبقۂ علماء میں سخت ناراضگی پیدا کردی اور اس کے خلاف درپردہ پروپیگنڈہ شروع ہوگیا۔ داراشکوہ نے بذات خود تحریر کیا ہے کہ ’’کینہ پرور زبانوں نے اسے کفر والحاد کے لئے موردِ الزام ٹھہرانے کی شروعات کردی ہے۔‘‘ اس نے اپنے بدنام کرنے والوں کے بارے میں کہا کہ ’’وہ لوگ خود نادان ہیں اور نادانوں سے ہی انہوں نے سیکھا ہے۔ اللہ کے ہرنبی اور ولی کو ان کے سرکش ہاتھوں سے ایذا پہنچی ہے۔‘‘
1653میں، داراشکوہ کی ملاقات ایک ہندو سادھو بابا لال داس بیراگی سے ہوئی۔ دونوں کے مابین ہندو مذہب کی مخصوص روایات واساطیر، رہبانیت، جوگ اور تپسیا اور روحوں کے آواگون (تناسخ) پر مفصل تبادلۂ خیال ہوا۔ بابائے یوگا اور اذکار تصوف کی مشقوں کے تقابلی مطالعے میں داراشکوہ کی مدد کی۔ ان مطالعات کے نتیجے میں، داراشکوہ نے بھگوت گیتا اور یوگا وشسٹا دونوں کا ترجمہ فارسی میں کیا۔ یہ ایک اہم حصولیابی تھی کیونکہ اکبر کے دور میں گیتا کا جو ترجمہ ہوا تھا، وہ ناپیدا ہوگیا تھا۔
مذاہب کے تقابلی مطالعے کے حقیقی ثمرات 1656  میں، مجمع البحرین کی شکل میں ظاہر ہوئے۔ یہ ادبی شہ پارہ، ہندو دھرم اور اسلام کے آفاقی، فلسفیانہ، دینی وشرعی اور روحانی تصورات میں اقدار مشترکہ تلاش کرنے کی ایک شاندار کوشش ہے۔ اپنی ادبی کاوش کا مقصد بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں‘ ’’یہ (مجمع البحرین) دو حق شناس گروہوں کی سچائی او رحکمت کا مجموعہ ہے۔‘‘
1657میں، داراشکوہ نے بنارس کے چند اصحاب علم کی مدد سے اپنشدوں کا ترجمہ فارسی زبان میں ’سرِّ اکبر‘ کے نام سے کیا۔ داراشکوہ نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اس نے متعدد مذہبی عقائد کا مطالعہ اس لئے کیا تاکہ وہ دینی اور فلسفیانہ نظریات کو مکمل طور پر سمجھ سکے۔ اس نے مزید کہا کہ اس نے ویدوں میں توحید کا جوہر اصلی تلاش کرلیا ہے اور یہ کہ وہ اپنشدوں کو الوہی راز ہائے سربستہ کا امین سمجھتا ہے۔ اس نے دعویٰ کیا کہ اُس نے اپنشدوں کا ترجمہ ’’خود اپنے روحانی فائدے اور اپنی آل اولاد، احباب اور جویانِ حق کے فائدے کے لئے کیا ہے۔‘‘
یہی وہ فارسی ترجمہ تھا جسے فرینکوئس برنیئر یوروپ لے گیا جہاں کم وبیش ایک صدی بعد اِن کا ترجمہ فرانسیسی اور لاطینی زبانوں میں ہوا۔ یہ ایک ٹھوس حقیقت ہے کہ داراشکوہ کے فارسی ترجمے کی معرفت یوروپ ہندو مذہب کے افکار وخیالات اور فلسفے سے آشنا ہوا اور ہاں، اسی ترجمے کی پاداش میں اورنگ زیب نے داراشکوہ پر کفر والحاد کا الزام لگاتے ہوئے اُس کے موجب قتل ہونے کا ایک فتویٰ حاصل کرلیا۔ دارا کو انتہائی سفاکی سے قتل کردیا گیا لیکن مذہبی ہم آہنگی کے لئے اس کا بیش بہا تعاون ہمیشہ یاد کیا جاتا رہے گا۔
(صاحب مضمون سردست ریاست کیرالہ کے عزت مآب گورنر ہیں)
 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS