وبھوتی نارائن رائے
کیا عمران خان کی اُلٹی گنتی شروع ہوگئی ہے؟ جو خاص طور پر تجزیہ کار پاکستانی معاشرہ اور سیاست پر گہری پکڑ رکھتے ہیں، ان میں سے کچھ کہہ سکتے ہیں کہ ابھی سٹیک اندازہ لگانا جلدبازی ہوگی، مگر زیادہ تر اس سوال کا جواب ’ہاں‘ میں دیںگے ۔ واقعات اسی طرح وقوع پذیر ہورہے ہیں، جیسے ساٹھ کی دہائی سے مختلف منتخب حکومتوں کے معزول ہونے سے پہلے ہوتے رہے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو،نوازشریف اور بے نظیر بھٹو کی حکومتوں کو برخاست کرنے کے پہلے اپوزیشن پارٹیوں کے اتحاد ہوئے، لوگ سڑکوں پر نکلے، فوج اور عدلیہ نے حکومت کو اپنے ہتھکنڈوں سے معذور بنایا اور پھر اسے برخاست کرا دیا گیا۔ اس مرتبہ بھی کچھ کچھ ایسا ہی ہورہا ہے، فرق صرف اتنا ہے کہ پہلے فوج کی حوصلہ افزائی سے گٹھ بندھن بنتے تے اور اس کی مرضی سے ہی لوگ سڑکوں پر نکلتے تھے، مگر اس مرتبہ گٹھ بندھن اس کے باوجود بنا ہے۔ گزشتہ دنوں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ(پی ڈی ایم) کے نام سے بنا گٹھ بندھن ویسے تو ایک دوسرے کے مخالف سیاسی پارٹیوں کا اتحاد ہے، لیکن فوج کے تئیں غصہ انہیں ایک کیے ہوئے ہے۔
تقریباً دو سال پہلے جن حالات میں عمران ملک کے وزیراعظم بنے، اسے سمجھنے کے لیے پاکستان پیپلز پارٹی کے بلاول بھٹو زرداری کے ذریعہ نیشنل اسمبلی کے پہلے ہی سیشن میں استعمال کیا جانے والا ایک جملہ کافی ہوگا۔ نومنتخب وزیراعظم عمران خان کو مبارکباد دیتے ہوئے بلاول نے انہیں ’سلیکٹڈ پرائم منسٹر‘ کہا۔ یہ جملہ عمران کے ساتھ ایسا چپکا کہ آج تک لوگ یہ ماننے کو تیار نہیں ہیں کہ وہ عوام کے ذریعہ منتخب وزیراعظم ہیں۔ عوام کے بڑے طبقہ کاماننا ہے کہ انہیں پاک فوج نے منتخب کیا ہے۔
حکومت مخالف گزشتہ گٹھ بندھن کی ہی طرح پی ڈی ایم نے بھی اہم پروگرام عوام کو سڑک پر اُتارنے کا بنایا۔ چند ماہ قبل پی ڈی ایم کے صدر اور جمعیت علمائے اسلام(ایف) کے لیڈر مولانافضل الرحمن حکومت کے خلاف پورے ملک میں ریلیاں نکال چکے تھے اور کسی ایماندار گٹھ بندھن کی کمی کے سبب ناکام ہوچکے تھے۔ اس مرتبہ بھی امید یہی تھی کہ اوپر سے اتحاد کی بات کرنے والی پارٹیاں اندرون خانہ فوج سے دوستی کے موقع تلاش رہی ہوں گی۔ آخر شریف اور زرداری خاندان کے کئی ممبر جیل میں ہیں اور پاکستان معاشرہ کی حقیقت سمجھنے والے جانتے ہیں کہ فوج کی ہری جھنڈی کے بغیر ان کی آزادی ممکن نہیں ہے۔ پی ڈی ایم کی پہلی ریلی نواز کے گڑھ پنجاب کے گجراں والا میں 16اکتوبر اور دوسری زرداری کے گڑھ کراچی میں 18اکتوبر کو رکھی گئی۔
گجراں والا کی ریلی میں لندن سے نشر نوازشریف کی تقریر نے اس مفروضہ کو زمیں بوس کردیا، جس کے مطابق کئی چینلوں کا ماننا تھا کہ فوج اور آئی ایس آئی نے نواز کے ساتھ صلح کی ایک کھڑکی کھلی رکھ چھوڑی ہے۔ ایک پاکستانی چینل کے مطابق، فوج کے نمائندہ، لاہور کینٹونمنٹ میں واقع ایک مسجد کے امام اور نواز کے قابل اعتبار سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے مابین بات چیت کافی آگے تک بڑھ چکی ہے اور فوج نے عمران خان کو ہٹانے کا ذہن بنالیا ہے۔ کچھ ماہ قبل قیدی نواز کو علاج کے نام پر لندن جانے کی اجازت اسی مصلحانہ بات چیت کا نتیجہ بتایا جارہا تھا۔ مگر 16اکتوبر کو اپنی تقریر میں فوجی سربراہ جنرل باجوا اور آئی ایس آئی چیف لیفٹیننٹ جنرل فیض کے نام لے کر نواز شریف نے جس طرح للکارتے ہوئے کہا کہ ان کی لڑائی عمران خان سے نہیں، بلکہ انہیں سلیکٹ کرنے والوں سے ہے، اس سے کچھ دیر کے لیے اسٹیج پر سناٹا چھا گیا۔ اب تک کہا جاتا رہا کہ عمران خان سلیکٹڈ پرائم منسٹر ہیں، لیکن سلیکٹر کا نام لینے کا حوصلہ نواز شریف نے بھی پہلی بار دکھایا۔ عوام کی نبض پہچاننے والے لیڈر کی طرح نواز نے لوگوں سے پوچھا کہ ان کی حکومت کو کس نے ہٹایا اور سلیکٹڈ پی ایم کو کس نے منتخب کیا، تو بھیڑ کی طرف سے پہلے کچھ سہمی آواز میں جواب آیا-فوج، اور جب انہوں نے للکارتے ہوئے سوال داغنے شروع کیے تو سامعین نے بھی جوش میں ہاتھ اُٹھا اُٹھا کر جنرل صاحبان کے نام لینے شروع کردیے۔
گجراں والا ریلی کی گونج ابھی تھمی بھی نہیں تھی کہ 18اکتوبر کو کراچی کی ریلی کا دن آگیا۔ سندھ میں پنجاب سے اُلٹ پی ڈی ایم کے ایک حلیف پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت ہے اور اندرونی سندھ میں اس کا اثر زبردست ہے، اس لیے امید کے مطابق بھیڑ بھی خوب آئی اور اس میں جوش بھی خوب نظر آیا، لیکن مزیدار بات یہ تھی کہ اس مرتبہ جلسہ لوٹا مریم نواز نے۔ کچھ نامعلوم وجوہات کے سبب لندن میں بیٹھے نوازشریف کی تقریر نشر نہیں ہوسکی، لیکن مریم نے گجراں والا کی لائن کو آگے بڑھاتے ہوئے فوج پر حملہ بولا۔ فرق صرف اتنا تھا کہ انہوں نے دونوں جنرلوں کے نام نہیں لیے۔ اس کی ضرورت بھی نہیں رہ گئی تھی۔ سلیکٹر کہنے سے ہی عوام مطلب سمجھ جاتی ہے۔ مریم نے چالاکی سے کورکمانڈروں کو فوج کے ماتحت افسران سے الگ کرکے یہ پیغام دینے کی کوشش کی کہ ان کی لڑائی فوج سے نہیں، بلکہ ان کے والد کو ہٹانے کا فیصلہ کرنے والوں سے ہے۔ سبھی جانتے ہیں، پاکستان میں بڑے پالیسی ساز فیصلے کابینہ نہیں، کور کمانڈروں کی کمیٹی کرتی ہے۔
مریم سے بھی زیادہ بے باکی دکھائی مولانا فضل الرحمن نے۔ ان کا اب تک کا سیاسی سفر خفیہ ایجنسیوں کی سرپرستی میں طے ہوا۔ مگر انہوں نے بھی فوج پر حملہ کرنے سے گریز نہیں کیا۔ ان کی تقریر کا یہ حصہ میڈیا میں سب سے زیادہ دوہرایا جارہا ہے کہ اگر فوج نہیں چاہتی کہ چوراہوں پر اس کا نام اچھلے تو اسے سیاست میں حصہ لینے سے بچنا چاہیے۔
ان دونوں ریلیوں میں جو کچھ ہوا، وہ پاکستان کی تاریخ میں اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ کچھ برس قبل جب ایم کیو ایم لیڈر الطاف حسین نے فوج کے خلاف بولنے کی جرأت کی تھی، تب فوج نے ان کے ساتھ کیا سلوک کیا تھا، کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ پھر نواز شریف جیسے تجربہ کار سیاستداں نے کیسے ایسی جرأت دکھائی؟ قیاس لگائے جارہے ہیں۔ ایک چینل اس کے پیچھے چین کا اشارہ دیکھ رہا ہے جو سی پی سی کی دھیمی رفتار سے غیرمطمئن ہے تو دوسرے حلقہ عوام میں عمران کے خلاف بڑھتی غیراطمینانی کو وجہ مان رہے ہیں۔ کچھ بھی ہو، فیصلہ کن جنگ شروع ہوگئی ہے۔ فوج نے گجراں والا کے دوسرے دن مریم کے شوہر کیپٹن صفدر کو گرفتار کرادیا، لیکن کیا پی ڈی ایم کے دوسرے لیڈروں کے خلاف بھی تعزیراتی کارروائی ہوسکے گی؟ شاید نہیں، کیوں کہ تب خدشہ ہے کہ ’گو عمران گو‘ نعرہ ’گو باجوا گو‘ میں بدل سکتا ہے۔
(بشکریہ: ہندوستان)
(مضمون نگار سابق آئی پی ایس افسر ہیں)