مرے صحیفۂ ہستی کی کچھ تو قدر کرو

0

نریش کمار
(مترجم: محمدصغیر حسین)

مردم شماری 2011کے مطابق ہندوستان میں تقریباً دس کروڑ چالیس لاکھ سن رسیدہ افراد (60سال یا اس سے زیادہ) رہتے ہیں جن میں پانچ کروڑ تیس لاکھ مرد اور پانچ کروڑ دس لاکھ عورتیں ہیں۔ یونائٹیڈ نیشنز پاپولیشن فنڈ(UNPF) اور HelpAgeانڈیا کی ایک رپورٹ کا اندازہ ہے کہ 2026تک ہندوستان میں بوڑھوں کی تعداد 18کروڑ تک پہنچ جائے گی۔ یہ خوفزدہ کرنے والے اعدادوشمار ہمیں آنے والے چیلنجز کے روبرو کرتے ہیں اور بزرگوں کے تئیں ہمارے فرائض کی یاد دلاتے ہیں۔
آج دنیا ایک نظر نہ آنے والے وائرس کی وجہ سے ایک فقیدالمثال بحران کا سامنا کررہی ہے جس نے بزرگوں کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے۔ حالاں کہ یہ اثرپذیری صرف کورونا وائرس تک ہی محدود نہیں ہے کیوں کہ اس عمر میں قوت مدافعت(Immunity) کمزور ہوجاتی ہے۔
چوں کہ میرا تعلق ہماچل پردیش کی خوبصورت ریاست سے ہے، اس لیے میں خاص طور پر وہاں کے بزرگوں کا ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ ہماچل میں بزرگوں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ یو این ڈی پی (United Nations Development Programme) کی ایک رپورٹ کے مطابق ہماچل میں 60سال یا اس سے زیادہ عمر کے بزرگوں کی تعداد سات لاکھ ہے جو ریاست کی مجموعی آبادی کا 10.2%ہے۔ یہ تناسب قومی اوسط 8.6%سے زیادہ ہے۔ تخمینہ لگایا گیا ہے کہ ریاست میں بزرگوں کی تعداد 3.1%سالانہ کی رفتار سے بڑھ سکتی ہے اور 2026 تک 11لاکھ تک پہنچ سکتی ہے جو ریاست کی مجموعی آبادی کا تقریباً 15%ہوگی۔ ہماچل کی 90%آبادی دیہی علاقوں میں رہتی ہے چنانچہ اس سے یہ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ بزرگوں کی بڑھتی تعداد یہاں کے دیہی علاقوں کا ایک بڑا مسئلہ ہے۔
قابل ذکر یہ ہے کہ بزرگوں کی یہ آبادی ان تمام اضلاع میں مساوی طور پر منقسم ہے۔ مردم شماری 2011کے مطابق ہمیرپور میں بزرگوں کی مجموعی آبادی کی 13.8%، بلاسپور میں 11.9%، کانگڑا میں 11.7%اور اَونا میں 11.5%تعداد رہتی ہے۔ سولان اور سرمَور میں بزرگوں کی سب سے کم آبادی یعنی محض8%رہتی ہے۔ بزرگوں کی تین چوتھائی تعداد(71%) اپنے کنبوں کے ساتھ رہتی ہے اور وہ خاندان کے فیصلوں مثلاً سماجی اور مذہبی تقریبات کے انعقاد، گھریلو سامان اور جائداد کی خریداری میں اہم رول ادا کرتے ہیں۔
اگر ہم کورونا وبا سے نمٹنے کی خاطر نافذ کیے گئے لاک ڈاؤن جو100سے زیادہ دنوں تک جاری رہا، کے مثبت پہلوؤں کو نظر میں رکھیں تو یہ محسوس ہوگا کہ اس نے ہمیں اپنے بزرگوں سے ربط و ضبط اور گفتگو کا ایک عدیم المثال موقع عنایت کیا۔
اُن کے ساتھ بیٹھنا، اُن کے تجربات سننا، اُن کے ساتھ کھانا وغیرہ بظاہر چھوٹی باتیں لگتی ہیں، لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ انہیں چھوٹی چھوٹی باتوں نے اس سماجی ادارے کو کہ جسے کنبہ یا خاندان کہتے ہیں مضبوط بنایا ہے۔ دادی دادا فاؤنڈیشن ایک غیرمنافع بخش سماجی تنظیم ہے جو بزرگوں کے حقوق کے لیے کام کرتی ہے۔ حال ہی میں، ایک آن لائن مذاکرات کے دوران، میں نے چند نکتے سامنے رکھے جو بزرگوں کے لیے سماج میں ایک اچھا ماحول پیدا کرسکتے ہیں۔
آپ انہیں اپنا وقت دیجیے: 
پہلا کام یہ کیجیے کہ بزرگوں سے گفتگو کا سلسلہ دراز کیجیے اور اُن کے ساتھ وقت گزاریے۔ اکثر وبیشتر ہم بزرگوں کو اُن کے حال پر چھوڑ دیتے ہیں۔ اگر وہ کچھ کہنا بھی چاہیں تو ہم اسے نظرانداز کردیتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں ایک ترسیلی خلیج حائل ہوجاتی ہے جو اُن میں کئی نفسیاتی عوارض پیدا کرتی ہے اور یہ عوارض سماجی انتشار کا باعث ہوتے ہیں۔
اُن کے تئیں اپنے فرائض ادا کیجیے:
بزرگوں کے تئیں اپنے فرائض پورے کیجیے اور اُن کی دیکھ بھال اور خدمت کیجیے۔ بزرگوں کی اخلاقی اور سماجی ضرورتیں پوری کیجیے۔ یہ مت بھولیے کہ آپ کو زندگی کے اس مقام پر لانے کے لیے انہوں نے نہ جانے کتنے عیش و عشرت سے خود کو محروم کرکے چھوٹی سے چھوٹی تک تمام ذمہ داریاں نبھائیں۔
بزرگوں سے رسم و رواج اور قدریں سیکھئے اور انہیں پوری زندگی اپنائے رہیے:
ہمارے بچے بہت سا وقت اپنے موبائل فون اور دیگر آلات پر صرف کرتے ہیں لیکن اپنے دادا/دادی/نانا/نانی کے لیے وقت نکالنا اُن کی ترجیحات میں شامل نہیں ہے۔ بچوں کو آمادہ کیجیے کہ وہ اپنے بزرگوں سے اچھی قدریں سیکھیں۔ لیکن سب پہلے اِن اخلاقی قدروں کو اپنے اوپر نافذ کریں کیوں کہ بچے الفاظ کے مقابلے میں کردار سے زیادہ سیکھتے ہیں۔
انہیں نمونۂ زندگی بنائیے:
جب آپ اپنے کنبے میں چھوٹوں سے گفتگو کریں تو بزرگوں کی حصولیابیوں کا ذکر کریں۔ آج ہمارے سماج میں ایسے مثالی کرداروں کا فقدان ہے جن کے نقش قدم کی پیروی کی جاسکے۔ ہم اپنے رول ماڈلز فلموں اور کتابوں میں تلاش کرتے ہیں۔ جب کہ ہر گھر میں نوجوان اپنے بزرگوں کی حصولیابیوں، اُن کی زندگی کے حقیقی تجربوں اور اُن کی کڑی محنت سے حوصلہ پاسکتے ہیں۔
زندگی میں ہونے والی تبدیلیوں میں انہیں اپنے ساتھ رکھیں:
ہماری طرز زندگی میں ہونے والی سریع تبدیلیوں کے سبب بسااوقات بزرگ افراد پیچھے رہ جاتے ہیں۔ اس کا علاج یہ ہے کہ انہیں طرز زندگی کی تبدیلیوں میں شامل رکھا جائے۔ اکثر و بیشتر ہم یہ فرض کرلیتے ہیں کہ وہ تکنالوجی، فیشن اور سوشل میڈیا میں دلچسپی نہ رکھتے ہوں گے۔ ایسا نہیں ہے۔ ہمارے آج کے بزرگ اپنے شباب پر اپنی نسل میں ہونے والی تبدیلیوں کے سرخیل تھے۔ اس لیے نئی نسل میں تکنالوجی، طرززندگی، ایجادات واختراعات، سوشل میڈیا اور فیشن میں جو تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں، ہمیں اپنے بزرگوں کو اُن سے متعارف کرانا چاہیے۔
اُن کے تجربات سے فائدہ اٹھائیے:
زندگی کے ہر موڑ پر اُن سے مشورے طلب کیجیے۔ اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ اُن کے مشورے مکمل طور پر مانیں یا نہ مانیں۔ لیکن اُن کے مشورے یقینی طور پر آپ کی فیصلہ سازی کو تقویت دیں گے۔ عمر سے حاصل شدہ تجربات کتابوں سے حاصل نہیں کیے جاسکتے، اس لیے جب کبھی کسی کشمکش میں گرفتار ہوں یا زندگی کا کوئی نیا موڑ ہو، اُن کی رائے ضرور لیں۔ آپ دیکھیں گے کہ جن مسائل سے آپ دوچار ہیں، اُن کا کوئی مثبت حل بزرگوں کے مشوروں کی روشنی میں ضرور نکل آئے گا۔
اُن کو تنہا مت چھوڑئیے:
بزرگوں کے سامنے آج سب سے بڑا چیلنج بڑھتی ہوئی تنہائی اور ذہنی ڈپریشن ہے۔ بڑے شہروں میں، مادّی ترقی کے پیچھے بھاگتی ہوئی نئی نسل والدین اور دادا/دادی/نانا/نانی کے تئیں اپنی ذمہ داریوں کو فراموش کربیٹھی ہے۔
اُن کی نگہداشت کے سلسلے میں اُن کی جانب محض چند سکے اُچھال کر نہ تو آپ صدفیصد اپنا فرض ادا کرتے ہیں اور نہ ہی اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہوجاتے ہیں۔ نوزائیدہ بچہ جب تک چلنے اور بولنے نہ لگے تب تک بچے کے لیے ماں کی موجودگی لازمی ہوتی ہے۔ اسی طرح ایک عمر کو پہنچنے کے بعد بزرگ اپنے بچوں سے اسی شفقت اور قربت کی توقع رکھتے ہیں۔
مالی تعاون لازمی ہے:
جیسے جیسے عمر بڑھتی جاتی ہے، بزرگوں کی ضرورتیں اور ترجیحات بھی بدلتی جاتی ہیں۔ اُن کی ضرورتیں مثلاً دوائیں، علاج، کھانا، کپڑا وغیرہ کے لیے انہیں مالی تحفظ فراہم کیا جانا چاہیے۔ اگر وہ خودکفیل نہیں ہیں تو اُن کی مالی طور پر مدد کیجیے۔ جوپنشن یافتہ ہیں، اُن کے لیے بینکنگ سروسز سے استفادے کا نظم کیجیے۔ اس کے علاوہ حکومت یا دوسری تنظیموں سے اُن کے سماجی تحفظ کے لیے امداد کا انتظام کیجیے۔
یہ ذہن نشیں کرلیجیے کہ بزرگ ہمارے سماج کے ستون ہیں۔ ہم جس قدر اُن کو مضبوط بنائیں گے، ہمارا سماج اور ہمارا ملک اسی قدر مضبوط اور پائیدار بنے گا۔ بزرگوں کی فلاح وبہبود اور نگہداشت کے لیے، ہم کو موجودہ سماجی تعاون کے نظاموں اور روایتی سماجی اداروں کو بچانا ہوگا تاکہ خاندان، احباب و اقارب کے مابین رشتوں، پڑوسیوں سے تعلقات، سماجی ربط و ضبط اور ایک دوسرے کی خوشیوں اور غموں میں شرکت کا چلن جاری و ساری رہے۔
حال ہی میں ہم نے یوم بزرگان اور گنیش چترتھی منائی ہے۔ گنیش کی دیومالائی کہانی کیا آپ کو یاد ہے؟ اپنی برتری ثابت کرنے کے لیے گنیش کا بھائی کارتک تینوں لوکوں کی یاترا پر چلا گیا جب کہ گنیش نے بس اپنے والدین کے گرد پریکرما کرلی۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ انہوں نے ایسا کیوں کیا تو انہوں نے جواب دیا کہ اُن کے ماتاپتا شیو اور پاروتی ہی اُن کے لیے تینوں لوکوں کے سمان ہیں۔ اسی بات پر خوش ہوکر انہیں ثمرعلم و آگہی سے نواز دیا گیا۔ اس لیے اپنے ماں باپ اور دادا/دادی/نانا/نانی کو اپنی زندگی میں وہی مقام دیجیے۔(بشکریہ: دی پائنیر)
(مضمون نگار پاورگرڈ کارپوریشن آف انڈیا سے وابستہ کارپوریٹ کمیونی کیشن کے جنرل منیجر ہیں)
 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS