مترجم: محمد صغیر حسین
یکم ستمبر2020
عزت مآب وزیر برائے امور داخلہ، ہندوستان
عزت مآب وزیر برائے انفارمیشن اینڈ بروڈ کاسٹنگ، ہندوستان
چیئرمین، قومی کمیشن برائے حقوق انسانی
چیئرمین، اقلیتی کمیشن
چیئرمین، یونین پبلک سروس کمیشن
چیئرمین، نیوز بروڈکاسٹنگ اسٹینڈرز اتھارٹی
عزت مآب لیفٹیننٹ گورنر، دہلی
عزت مآب وزیراعلیٰ، دہلی
سکریٹری، وزارت امور داخلہ، حکومت ہند
سکریٹری، وزارت برائے انفارمیشن اینڈ براڈکاسٹنگ، حکومت ہند
پولیس کمشنر، دہلی
ہم، آل انڈیا اینڈ سینٹرل سروسز سے وابستہ اُن سابق سول سرونٹس پر مبنی ایک گروپ ہیں جنہوں نے نہ صرف مرکزی حکومت کے ساتھ بلکہ مختلف ریاستی حکومتوں کے ساتھ بھی کام کیا ہے۔ ایک گروپ کی حیثیت سے ہمارا کسی سیاسی پارٹی سے کوئی الحاق نہیں ہے بلکہ ہم غیرجانبدار، غیرمتعصب اورآئین ہند کے پابند رہنے میں مکمل یقین رکھتے ہیں۔
ہم اس مراسلے کے ذریعہ آپ کی توجہ سدرشن ٹی وی چینل کے ایک فرقہ واریت سے بھرپور، سماج کو بانٹنے والی اور سنسنی خیز سیریز کے مجوزہ ٹیلی کاسٹ کی جانب مبذول کرارہے ہیں۔ یہ سیریز دعویٰ کرتی ہے کہ وہ نئی بھرتیوں کے طریق کار میں پوشیدہ اُس سازش کا پردہ فاش کرے گی جس کے نتیجے میں ملک کی دو معزز ترین اور اعلیٰ ترین سروسز، آئی اے ایس(IAS) اور آئی پی ایس(IPS) میں منتخب مسلم افسران کی تعداد میں اچانک اضافہ ہوگیا ہے۔ اس تناظر میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کا نام لیا گیا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ دہلی ہائی کورٹ نے مذکورہ بالا ٹیلی کاسٹ پر عارضی طور پر روک لگادی ہے۔ تاہم ہمارا خیال ہے کہ سخت تر قانونی اور انتظامی اقدامات کی ضرورت ہے۔
یہ الزام تراشی مکمل طور پر کجروی پر مبنی ہے کہ سروس میں مسلم افسروں کے نفوذ کے پیچھے سازش کام کررہی ہے یا اس سلسلے میں ’یوپی ایس سی جہاد‘ یا ’سول سروسز جہاد‘ جیسی اصلاحات گڑھی جائیں۔ یہ فرقہ پرستانہ اور غیرذمہ دارانہ بیانات، ایسی تنفر آمیز تقریروں پر محمول کی جائیں گی جو ایک پورے فرقے کو بدنام کرنے والی ہیں۔
اگر اس پروگرام کو نشر ہونے کی اجازت دے دی گئی تو مندرجہ ذیل اثرات مرتب ہوں گے:
(1)یہ ٹیلی کاسٹ ملک کے سب سے بڑے اقلیتی فرقے کے خلاف بغیر کسی سبب کے تنفر پیدا کرے گا۔ وطن عزیز پہلے سے ہی مسلمانوں کے خلاف نفرت آمیز تقریروں کے سبب سلگ رہا ہے۔ ان نفرت آمیز تقریروں میں کورونا جہاد اور لوجہاد جیسے الزامات بھی شامل ہیں، جن کی نفی کئی عدالتیں کرچکی ہیں۔ زیربحث ٹیلی کاسٹ آگ میں پٹرول ڈالنے کا کام کرے گا۔
(2)ٹیلی کاسٹ کا یہ دعویٰ کہ یونین پبلک سروس کمیشن اپنے ریکروٹمنٹ پروسس میں جانبداری کا مرتکب ہے، سول سروس ریکروٹمنٹ کے اس اہم ترین ادارے کی معصوم نیک نامی کو پارہ پارہ کردے گا۔ یوپی ایس سی کے ریکروٹمنٹ پروسس کے بارے میں عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ انتہائی منصفانہ، ایماندارانہ اور غیرجانبدارانہ ہوتا ہے۔ یہ زبان، علاقہ، مذہب اور دوسرے فرقے کے تئیں تعصبات سے پاک ہوتا ہے۔ یوپی ایس سی کا شمار ملک کے اُن چند اداروں میں ہوتا ہے جو آج بھی بے داغ ساکھ رکھتے ہیں اور جنہیں ہندوستانی حکومت اور عوام کے نزدیک بے پناہ معتبریت حاصل ہے۔ ٹیلی کاسٹ، اس انتہائی مؤقر ادارے پر عوام کے اعتبار واعتماد کو ٹھیس پہنچائے گا۔
(3) یہ ٹیلی کاسٹ ایک جھوٹا مفروضہ پھیلائے گا کہ سرکاری سروسز خاص طور پر آئی اے ایس اور آئی پی ایس میں مسلمانوں کی تعدا د غیرمتناسب طور پر بڑھ رہی ہے۔ انڈین ایکسپریس کی ایک حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ : ’’ملک میں آئی اے ایس اور آئی پی ایس افسروں کی مجموعی تعداد 8,417ہے جس میں مسلم افسران 3.46فیصد ہیں۔ ان292 مسلم افسران میں 160افسران اُن 5,862 افسروں میں شامل ہیں جو UPSCکے ذریعہ منعقدہ سول سروسز امتحانات میں کامیاب ہوئے ہیں۔ باقی 132مسلم افسران اُن 2,555افسران میں شامل ہیں جو ریاستی سول سروسز سے کارکردگی یا سینئرٹی کی بنیاد پر ترقی پاکر آئی اے ایس یا آئی پی ایس بنائے گئے ہیں۔ یوپی ایس سی بھی ایسے ترقی یافتہ افسران کی اہلیت کی جانچ کرتا ہے۔
(https://indianexpress.com/article/india/
india-others/muslims-add-up-to-3-in-ias-ips-list/)
یہ حقیقت بھی محل نظر ہونی چاہیے کہ 3.46فیصد مسلم افسروں کی تعداد مسلمانوں کی مجموعی آبادی 14.2 فیصد سے بہت کم ہے۔ گزشتہ چالیس سالوں سے مسلم امیدواروںکی تعداد گھٹتی بڑھتی رہی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ کئی سال ایسے بھی گزرے ہیں جب ایک بھی مسلمان IAS کے لیے منتخب نہیں ہوا۔ یہی سبب ہے کہ ایسے الزامات مکمل طور پر بے بنیاد اور بے سروپا ہیں۔ ایسا ٹیلی کاسٹ دوسری لسانی، علاقائی اور ذات پات پر مبنی گروہوں کو سول سروسز امتحانات میں اپنی کامیابی کی شرح دیکھنے پر اکسائے گا۔ یہ امتحانات میرٹ پر منحصر ہوتے ہیں اور انہیں ہونا بھی چاہیے۔ اس طرح یوپی ایس سی کی معتبریت معرض خطر ہوگی۔
(4)یہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کی نیک نامی پر بٹہ لگائے گا۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کو حال ہی میں سینٹرل یونیورسٹیوں کی فہرست میں پہلا مقام حاصل ہوا ہے۔ دراصل یہ یونیورسٹی سماج کے پسماندہ امیدواروں (مسلمانوں، دلتوں، آدی باسیوں اور عورتوں) کے لیے بلامعاوضہ کوچنگ کا اہتمام کرتی ہے تاکہ وہ یوپی ایس سی امتحانات میں کامیاب وکامران ہوسکیں اور اس طرح وہ وطن عزیز کے تئیں ایک بڑا سماجی فریضہ ادا کررہی ہے۔ یہ ٹیلی کاسٹ جامعہ ملیہ اسلامیہ اور اسی طرح کے اداروں کو سماجی طور پر پسماندہ اور محروم گروہوں کو خدمات فراہم کرنے کی حوصلہ شکنی کرے گا۔
(5) ’’یوپی ایس سی جہاد‘‘ اور ’’سول سروسز جہاد‘‘ جیسی اصطلاحات کا استعمال، ملک کے سول انتظامیہ کو مذہبی خطوط پر تقسیم کرنے کی ایک مذموم کوشش ہے جو ہندوستان کی ترقی میں منتظمین کی ہمہ گیر اور نہایت شاندار خدمات پر پانی پھیر دے گی۔
چند دنوں پہلے، دہلی ہائی کورٹ میں ایک کیس فائل کیا گیا جس میں عرضی گزاروں نے یہ گزارش کی تھی کہ سدرشن ٹی وی چینل نے درج ذیل جرائم کا ارتکاب کیا ہے: تعزیرات ہند کی دفعہ _153A(1)مذہب، نسل، جائے پیدائش، رہائش، زبان وغیرہ کی بنیادوں پر مختلف گروہوں کے درمیان عداوت بڑھانا، اور ایسے کام کرنا جس سے ہم آہنگی کو خطرہ لاحق ہو، دفعہ_153B(1)تہمت طرازیاں، دعوے جو قومی اتحاد و اتفاق کے لیے ضرررساں ہوں، دفعہ_295A دیدئہ ودانستہ اور کینہ پروری سے کیے گئے کام جن کا مقصد کسی طبقے کے مذہب یا مذہبی اعتقادات کی توہین کرکے اس طبقے کے مذہبی احساسات کو ٹھیس پہنچانا ہو، دفعہ_499ہتک عزت۔ ضرورت ہے کہ ان مبینہ جرائم کی مکمل طور پر تفتیش ہو۔
یکساں معاملے میں سپریم کورٹ نے ایک حالیہ فیصلے میں، پروگرام کے ٹیلی کاسٹ پر اسٹے نہ دیتے ہوئے کہا ہے: ’’ہمیں معلوم ہے کہ قانونی شقوں کے تحت اہل اتھارٹیز کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ قانون کی پیروی کو یقینی بنائیں۔ اس میں فوجداری قانون کی وہ شقیں بھی شامل ہیں جن کا مقصد سماجی ہم آہنگی اور تمام فرقوں کے بقاء باہم کو یقینی بنانا ہے۔‘‘
چنانچہ ہم مرکزی وزارت داخلہ، لیفٹیننٹ گورنر، دہلی، وزیراعلیٰ، دہلی اور پولیس کمشنر، دہلی سے درخواست کرتے ہیں کہ آپ متعلقہ قانونی دفعات کے تحت ایف آئی آرس(FIRs)قلمبند کرنے کی اجازت مرحمت فرمائیں۔ ہم وزارت انفارمیشن اینڈ براڈکاسٹنگ اور نیوز براڈ کاسٹنگ اسٹینڈرڈز اتھارٹی آف انڈیا سے بھی گزارش کرتے ہیں کہ آپ براہ کرم یہ تفتیش کریں کہ کیا یہ شو کیبل ٹیلی ویژن نیٹ ورکس(ریگولیشن) ایکٹ نیز دی کیبل ٹیلی ویژن نیٹ ورکس رولز 1994اور کوڈ آف اتھکس اینڈ براڈکاسٹنگ اسٹینڈرڈز کی خلاف ورزی نہیں ہوگی۔ قومی کمیشن برائے حقوق انسانی، اقلیتی کمیشن اور یونین پبلک سروس کمیشن سے بھی درخواست ہے کہ آپ ایک خاص مذہب اور فرقے کی تصویر مسخ کرنے والی مذموم نفرت آمیز مہم پر توجہ فرمائیں جو ایسی متعصبانہ خبریں نشر کرنا چاہتی ہے جو کسی بھی معروضی پیمانے پر کی گئی تفتیش پر کھری نہ اتریں گی۔