اے ایم یو ٹائم کیپسول : ہنگامہ ہے کیوں برپا

0

ڈاکٹر محمد فرقان سنبھلی

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے قیام کی صدی مکمل ہونے کے موقع پر انتظامیہ نے ایک ٹائم کیپسیول کو دفن کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یونیورسٹی کی تاریخ،تہذیب اور اس کی سماجیات سے متعلق اشیاء کو ٹائم کیپسول میںدفن کیا جانا ہے۔اس ہائی پروفائل منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کی کوششیں شروع ہو گئی ہیں۔دفن کی جانے والی اشیاء اور جگہ کے تعین کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔اس منصوبے کو پیش کرتے ہوئے انتظامیہ نے واضح کیا ہے کہ یہ کوئی نئی روایت شروع نہیں کی جا رہی ہے بلکہ خود سر سید نے 8جنوری1877 کو محمڈن اینگلو اورینٹل کالج کی سنگ بنیاد تقریب کے موقع پر ایسا کیا تھا۔اس وقت ٹائم کیپسول میں کیا رکھا گیا؟ کیسے یہ دفن کیا گیا؟اور اس تقریب کی مکمل روئداد میجر جنرل جی ایف آئی گراہم نے اپنی کتاب " The Life And Work Of Sir Syed Ahmed Khan"میںپیش کی ہے۔میجر جنرل گراہم اس تقریب میں بنفس نفیس موجود تھے۔ انھوں نے ص183-184پر لکھا ہے:
"His Excellency then proceeded to the end of the Shamiana  and formally laid the foundation stone, which was lowered to its proper position under the direction of Mr Noyes, Executive Engineer.
A bottle containing scrolls and coins was deposited in a cavity of the foundation, and a metal plate with 
a suitable inscription was placed over this. The stone having  been proved to  be correctly  laid, The
Viceroy tapped it three times with a mallet and said ,"I declare  this stone to be well and truly laid".
کم و بیش اسی طرح کا مضمون سید افتخار عالم کی کتاب’’محمڈن کالج ہسٹریـــ‘‘ میں صفحہ 77 اور ایس کے بھٹناگر کی کتاب "History of The M.A.O College,Aligarh" میںصفحہ59پر بھی ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔ یہی نہیں ایم آئی سی پروفیسر شافع قدوائی، ڈائریکٹر اردو اکادمی ڈاکٹر راحت ابراراور ڈپٹی ڈائریکٹر سرسید اکادمی ڈاکٹر محمد شاہد کے مطابق 12 جنوری 1877 کے علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ میں یہ تفصیلات شائع ہوئی تھیںاور اس تقریب کی ایک تصویر بھی وائرل ہو رہی ہے جس میں وائسرائے لارڈ لٹن اور سرسید احمد خان کو بھی دیکھا جا سکتا ہے۔یہ وضاحت اس لیے پیش کی گئی کہ میڈیا  رپورٹوںمیں ٹائم کیپسول اور اشیا کے دفنائے جانے کی بات کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔اب جبکہ دستاویزی ثبوت موجود ہیں، ایسے میں ٹائم کیپسول تقریب پر اعتراض کرنے کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔یہ بات بھی سچ ہے کہ مورخین ہمیشہ سے ٹائم کیپسول کی اہمیت اور افادیت پر نکتہ چینی کرتے ر ہے ہیںاور وہ اس ڈوائس پر کبھی اطمینان نہیں کر پائے ہیں۔اگر یہ فرض بھی کر لیا جائے کہ ایسا پہلے اے ایم یو میں نہیں ہوا تو بھی یونیورسٹی کی سو سالہ تاریخ کا شاندار جشن منانے اور مستقبل میں اپنی نسلوں کو اس کی اصل تاریخ،تہذیب اور سماجیات سے واقف کرانے کی کوشش انتظامیہ کی جانب سے کی جا رہی ہے تو اس کو قابل ستائش فیصلہ سمجھا جانا چاہیے۔ دوسرے لفظوں میں یونیورسٹی کی تاریخ کو محفوظ کرنے کے لیے اگر یہ اہم منصوبہ عمل میں لایا جا رہا ہے تو اے ایم یو انتظامیہ کے اس امرکوناقابل اعتراض تصور کیاجاناچاہیے۔ ٹائم کیپسول کیا ہے؟اس کی معنویت اور افادیت کیا ہے؟اور کیا پہلی بار ایسا ہونے جا رہا ہے یا پھر اس کی ماضی میں کوئی روایت پوشیدہ ہے؟یہ ایسے سوالات ہیں جو نہ صرف دلچسپ ہیں بلکہ جواب طلب بھی ہیں۔ٹائم کیپسول کو درحقیقت ایک ایسے تاریخی اہمیت والے دستاویز کے روپ میں جانا جاتا ہے جس میں کسی زمانے کے سماجی،سیاسی اور تہذیبی حالات کومحفوظ کیا گیا ہو۔یہ ایک ایسی ڈوائس ہے جس کے ذریعہ آج کے دور کی اہم معلومات سیکڑوں سال بعد کے لوگوں تک پہنچائی جا سکتی ہیں۔مستقبل کے لوگ جب اس کیپسول کا مطالعہ کریں گے تو آج کے دستاویز ان کو حقیقت سے آگاہ کرسکیں گے۔قیاس کیا جا سکتا ہے اگر یہ ڈوائس بابری مسجد کی بنیاد میں رکھ دی گئی ہوتی تو نہ عدالت کو اتنے طویل عرصے تک مقدمہ جاری رکھنا پڑتا اور نہ ہی ہزاروں جانوں کا زیاںہوتا۔
ہندوستان میں پہلے بھی ایسے ٹائم کیپسول مختلف تاریخی اہمیت کی عمارتوں کی بنیاد میں دفن کیے گئے ہیں۔بہت پہلے تک نہ بھی جائیں تو15اگست 1973 کو سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی کے دور اقتدار میں لال قلعہ کی بنیاد میں ایسا ہی ایک ٹائم کیپسول دفن کیا گیا تھا۔حزب اختلاف نے اس وقت بھی تنازع کھڑا کر دیا تھا کہ اس کیپسول میں اندرا گاندھی نے اپنی فیملی کے بارے میں مبالغہ آرائی کی ہے۔ اس کیپسول میں کیا لکھا اور رکھا گیا ہے ،یہ ہمیشہ راز ہی رہا۔ (ماخذ: نو بھارت ٹائمس میں ایس ترپاٹھی کی رپورٹ مورخہ 28 جولائی،2020،آرکیولوجسٹ کے کے محمد نے بھی اس کی تصدیق کی ہے)۔کہا تو یہ بھی جا رہا ہے کہ رام مندر کی بنیاد میں 2000فیٹ کی گہرائی میں ایک ٹائم کیپسول رکھا جائے گا جس میں کورٹ کے فیصلے،تاریخی دستاویز وغیرہ کو دفن کیا جائے گا۔کانپور آئی آئی ٹی میں6مارچ2010کو سابق صدر جمہوریہ پرتبھا پاٹل نے ایک کیپسول دفن کیا تھا جس میںادارے کی مہریں،نقشے،لوگو وغیرہ کو کیپسول میں رکھا گیا تھا۔
دنیا بھر میں ٹائم کیپسول دفنانے کی تقریبات کا انعقاد بہت پہلے سے ہوتا رہا ہے۔یہ طے کر پانا تو ممکن نہیں کہ کب سے اس کا آغاز ہوا لیکن اٹھارہویں صدی سے اس کی مثالیں ملنا شروع ہوجاتی ہیں۔ بوسٹن کے فائن آرٹ میوزیم میں اس کے نمونے بھی دستیاب ہیں۔دعویٰ کیا جاتا ہے کہ جارج ۔ایڈورڈ۔پیندرے نے ٹائم کیپسول کی اصطلاح سب سے پہلے استعمال کی تھی۔
سر سید کے دماغ میں ٹائم کیپسول کا خیال کیسے آیا؟شاید اس پر ابھی وہ گفتگو نہیں ہوئی ہے جس کی ضرورت ہے۔ وکٹورین دورمیں انگلینڈ میں اہم تاریخی یا مذہبی عمارتوں کی تعمیر کے وقت ’’ کورنر اسٹون‘‘ لگانے اور ٹائم کیپسول دفنانے کا رواج تھا۔کورنر اسٹون لگانے کی باضابطہ تقریب منعقد ہوتی تھی جس میں سیکڑوں افراد کی موجودگی میں عمارت کی باہری طرف نارتھ ایسٹ کورنر پر ایک پتھر(جس پر تعمیر وغیرہ سے متعلق معلومات تحریر ہوتی تھیں)نسب کیا جاتا تھا۔ایک خاص طرح کی کننی سے مسالہ پھیلایا جاتا اور پتھر رکھ کر اس پر ہتھوڑی سے تین بار چوٹ کی جاتی تھی۔بنیاد میں جو خالی جگہ چھوڑی گئی ہوتی اس میں ٹائم کیپسول کو دفنایا جاتا تھا۔اس دور میں کیپسول کے اندر تاریخی واقعات، اخبارات،حکومت کے جاری کردہ سکّے،خاص طرز کے برتن وغیرہ رکھے جاتے تھے اور ان کو مقررہ مدت کے بعد تقریب منعقد کرکے کھولنے کا اہتمام بھی کیا جاتا تھا۔تقریباً اسی طرح ایم اے او کالج کی سنگ بنیاد تقریب کے وقت کیا گیا ہے۔ تو کیا سر سید کے ذہن میں ٹائم کیپسول کا خیال وکٹورین ایرا کے مطالعے سے آیا تھا؟
سینٹ اینڈریوز پریسبیٹیرین چرچ وکٹوریہ کی عمارت4 اپریل1869 میں تعمیر ہوئی تھی۔اس کی سنگ بنیاد تقریب 20 اگست1868 کو منعقد ہوئی جس میںمیئر اور معزز شخصیات کی موجودگی میںاسکوچ لاج کے مالک ڈاکٹر پوویل نے پتھر رکھاجبکہ کورنر اسٹون تقریب میںمہمان خصوصی جون روبسن نے پتھر پر چوٹ کرتے ہوئے اعلان کیا"Our architect has pronounced this corner stone well and truly laid" اس موقع پر چرچ کی تاریخ سے متعلق اقوال،کچھ سکّے،شہر کے اخبارات کی کاپیاںاور پریسبیٹیرین جرنل کو ٹائم کیپسول میں رکھ کر اسے بنیاد کی خالی جگہ میں دفنا دیا گیا۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ سرسید4مئی1869 کو لندن پہنچے تھے اور4 ستمبر1870 کو واپسی کا سفر شروع کیا تھا۔بہت ممکن ہے سر سید نے انگلینڈ دورہ پر ان تقریبات کودیکھا ہواور اس کو دل میں بٹھا لیا ہو۔ جب کالج کی سنگ بنیاد تقریب کا منصوبہ تیار کیا جا رہا ہوگا تو انھوں نے ٹائم کیپسول کے دفنانے کوبھی اس میں شامل کر دیا ہوگا۔ نامساعد حالات اور طویل جد و جہد کے بعد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا قیام عمل میں آیا اور اب سو سال مکمل ہو نے کے موقع کوشاندار ڈھنگ سے منایا ہی جانا چاہیے۔آنے والی نسلوں کا یہ حق ہے کہ وہ یونیورسٹی کے لیے کی گئی جد و جہد کو حقیقی طور پر جانیںاور سر سید تحریک کو فروغ دینے میں اپنا تعاون پیش کریں۔
(مضمون نگار ویمنس کالج، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں)
 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS