سراج حسین/جگل موہاپاترا
(مترجم: محمد صغیر حسین)
جب سے مرکز کے ذریعہ تین زرعی قوانین وضع کیے گئے ہیں، میڈیا کے چند حلقوں نے، غلط یا صحیح، پنجاب اور اُس سے بہت کم درجے میں ہریانہ کو ویلن ثابت کرنے میں زمین و آسمان کے قلابے ملا دیے ہیں۔ اس پروپیگنڈے نے اچھی خاصی تعداد کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ پنجاب کے کسان ایم ایس پی(Minimum Support Price) پر خریداری نظام کا استحصال کرتے آرہے ہیں۔ علاوہ ازیں یہ بات بھی ذہنوں میں گھر کر گئی ہے کہ پنجاب میں پرالی جلانے کا عمل ہی دہلی میں آلودگی کی بنیادی وجہ ہے۔ دوسرے عوامل کو معمولی اشتعال انگیزی کی حیثیت سے دیکھا جاتا ہے۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ گیہوں اور چاول کی پیداوار اور پیداواریت میں اضافہ کرنے اور ایک آسان خریداری سسٹم وضع کرنے میں پنجاب کو جو کامیابیاں ملی ہیں، انہیں دوسرے سیاسی عوامل کی بنیاد پر روزافزوں نظرانداز کیا جارہا ہے۔ جب کووڈ-19کے نتیجے میں لاک ڈاؤن اور بندشیں اپنے عروج پر تھیں تو بھی پنجاب مشعل راہ ثابت ہوا اور اپریل/مئی 2020میں اس نے 12.714 ملین میٹرک (MMT) گیہوں کا نذرانہ پیش کیا۔
تاہم ہندوستان کے غذائی تحفظ کے تناظر میں پنجاب کی گھٹتی ہوئی اہمیت کی خاص وجہ مدھیہ پردیش(گیہوں) اور اڈیشہ، چھتیس گڑھ، آندھراپردیش، تلنگانہ، تمل ناڈو اور مغربی بنگال(چاول) میں خریداری مشینری کے ایک مضبوط نظام کا قیام ہے۔
2007-08میں جب عالمی غذائی بحران اپنے شباب پر تھا تو ہندوستان میں 11.2ملین میٹرک ٹن گیہوں حاصل کیا گیا تھا۔ اس وقت ہندوستان کے مرکزی سکریٹری برائے خوراک کو ریاستوں کا سفر اختیار کرنا پڑا تھا تاکہ انہیں زیادہ سے زیادہ گیہوں حاصل کرنے پر آمادہ کیا جائے تاکہ گیہوں کی درآمد کم سے کم کی جاسکے۔ اُن کی استدعا پر مدھیہ پردیش نے بس 57,000میٹرک ٹن اور اترپردیش نے تو اس سے بھی کم یعنی محض 54,000میٹرک ٹن گیہوں کی خریداری کی جب کہ پنجاب نے 6.78ملین میٹرک ٹن(61%) اور ہریانہ نے 3.35ملین میٹرک ٹن(30%) کی خریداری کی۔ چاول کے معاملے میں بھی پنجاب نے نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ 2007-08 کی خریف خریداری میں چاول کا مجموعی حصول ملک میں 28.77ملین میٹرک ٹن تھا جس میں پنجاب کا تعاون 7.98ایم ایم ٹی یعنی 27.8% تھا۔ چھتیس گڑھ اور اڈیشہ کی خریداری بالترتیب 2.74 ایم ایم ٹی اور 2.36ایم ایم ٹی تھی۔ اس وقت سے متعدد ریاستوں نے اپنے خریداری نظام کو قابل تحسین طور پر بہتر بنایا ہے۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ 2019-20کی خریف کی خریداری میں چھتیس گڑھ نے 5.22ایم ایم ٹی چاول خریدا، وہیں اڈیشہ نے 4.76ایم ایم ٹی کا تعاون دیا۔
غیر روایتی ریاستوں کی خریداری میں یہ زبردست اضافہ، دراصل نیشنل ڈیولپمنٹ کونسل (National Development Council) کے 2007کے فیصلے کا رہین منت ہے۔ اس نے نیشنل فوڈ سیکورٹی مشن کو منظوری دی جس کا مقصد 25ایم ایم ٹی غذائی اجناس پیدا کرنا تھا۔ اس میں دس ایم ایم ٹی چاول، آٹھ ایم ایم ٹی گیہوں، چار ایم ایم ٹی دالیں اور تین ایم ایم ٹی موٹے اناج شامل تھے۔ اس ہدف کو بارہویں پنچسالہ منصوبے کے خاتمے یعنی مارچ 2007تک پورا کرلینا تھا۔ مدھیہ پردیش، اڈیشہ اور چھتیس گڑھ کی ریاستوں نے کوآپریٹیوز کو شامل کار کرکے، کسانوں کا ایک کمپیوٹرائزڈ ڈاٹا بیس بناکر اور ایم ایس پی کو براہ راست کسانوں کے بینک کھاتوں میں ڈال کر خریداری سرگرمیوں کو فروغ دیا۔
اس کوشش کے ثمرات جگ ظاہر ہیں۔ 2020-21 میں، مدھیہ پردیش میں گیہوں کی خریداری 12-935ایم ایم ٹی تھی جو پنجاب کی خریداری 12.714ایم ایم ٹی سے بھی زیادہ ہے۔ 2017-18 میں مدھیہ پریش کی فی ہیکٹیئر پیداوار صرف تین ٹن تھی جب کہ پنجاب کی پانچ ٹن تھی۔ چوں کہ مدھیہ پردیش اور زیادہ علاقوں کو سیراب کرنے کی کوششیں کررہا ہے جس سے توقع ہے کہ وہ آئندہ زیادہ گیہوں پیدا بھی کرے گا اور اس کی خریداری بھی کرے گا۔ اترپردیش میں گیہوں کی خریداری میں اُتارچڑھاؤ دیکھا گیا ہے۔ 2018-19 میں اس نے 5.3ایم ایم ٹی کی خریداری کی جب کہ سال رواں میں یہ محض3.577ایم ایم ٹی ہے۔
اخباری اطلاعات کے مطابق یوپی اور بہار میں گیہوں اور دھان کی قیمتیں ایم ایس پی کے مقابلے میں کم ہیں، اسی لیے یہاں کی پیداوار کا کچھ حصہ مبینہ طور پر پنجاب اور مدھیہ پردیش میں فروخت کیا جارہا ہے۔ رواں خریف 2020-21میں پنجاب میں 13.2ایم ایم ٹی چاول کی خریداری کی گئی جب کہ پنجاب میں چاول کی پیداوار کا تخمینہ محض 11.4ایم ایم ٹی ہے۔ اخباری اطلاعات ہیں کہ پڑوسی ریاستوں میں دھان 800سے لے کر 1,000روپے فی کوئنٹل دستیاب ہے جب کہ اس کی ایم ایس پی 1,888فی کوئنٹل مقرر ہے۔
چوں کہ یوپی اور بہار میں خریداری کی سرگرمیاں بہت سست ہیں، اس لیے یہ عام بات ہے کہ تاجر کسانوں سے کم نرخ پر گیہوں اور دھان خرید لیتے ہیں پھر پنجاب اور ہریانہ میں اے پی ایم سی (Agricultural Produce Market Committee) کمیٹیوں کی ملی بھگت سے یہ دکھاتے ہیں کہ یہ پنجاب اور ہریانہ کی پیداوار ہیں اور پھر اونچی ایم ایس پی پر فروخت کردیتے ہیں۔ پنجاب میں، ریاستی حکومت نے سب یارڈوں میں بنے ہوئے، دھان کے خریداری مراکز بند کرادیے ہیں۔ بحالت مجبوری پیداوار کی فروخت، بہار کا ایک نیا چلن بن گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سال رواں میں اپریل سے جون کے درمیان صرف5,000ٹن گیہوں کی خریداری ممکن ہوئی۔ بہار میں ربیع کی مکئی ایم ایس پی سے 40-50%کم داموں فروخت ہوئی۔ ایسا لگتا ہے کہ کسانوں نے ایم ایس پی پر خریداری کے ذریعہ اچھے دام ملنے کی توقعات فراموش کردی ہیں۔ چنانچہ یہ کوئی تعجب خیز امر نہیں ہے کہ لوک نیتی/سی ایس ڈی ایس (Centre for the Study of Developing Societies) نے بہار اسمبلی انتخابات کا جو قبل ازانتخابی جائزہ لیا، اس میں دس اہم مسئلوں میں زراعت کا دور دور تک کچھ پتہ نہ تھا۔
پنجاب میں کسانوں کی احتجاجی تحریک کا بنیادی مطالبہ، ایم ایس پی پر گیہوں اور دھان کی خریداری کا سلسلہ جاری رکھنا ہے۔ عوامی تقسیم خوراک کے محکمے نے ماضی کی طرح، اے پی ایم سی کمیٹیوں سے خریداری کے بارے میں کوئی تحریری حکم نہیں دیا ہے۔ اس کے علاوہ مرکز نے پنجاب میں ایم ایس پی کی 3%فیس برائے دیہی ترقی دینے سے انکار کردیا ہے۔
آئندہ لائحہ عمل
اس پر عمومی اتفاق رائے ہے کہ پنجاب، ہریانہ اور مغربی یوپی کے ایسے علاقوں میں جہاں پانی کی قلت ہو، دھان کی کاشت کم کی جائے لیکن اس خوفناک چیلنج سے نمٹنے کا ابھی تک کوئی لائحہ عمل نہیں تیار کیا گیا۔ ہندوستان ہر سال آٹھ ایم ایم ٹی غیرباسمتی چاول عام طور پر اس سے مماثل تھائی چاول سے بھی کم نرخ پر برآمد کرتا چلا آیا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ قلت آب والے علاقوں میں بھی چاول کی مطلوبہ مقدار سے زیادہ پیداوار ہوتی ہے۔ اسی طرح ہندوستان میں گیہوں بھی مطلوبہ پیداوار سے زیادہ پیدا کیا جاتا ہے لیکن عالمی منڈی کی مقابلہ آرائی میں ناکام ہونے کے سبب یہ برآمد نہیں کیا جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت کے پاس گیہوں کا اچھا خاصا ذخیرہ ہوتاہے۔
اگرچہ حکومت نے گیہوں اور چاول کی پیداوار کم کرنے کے لیے ابھی تک کوئی لائحہ عمل تجویز نہیں کیا ہے تاہم اب یہ ممکن ہے کہ غیرروایتی ریاستوں سے پیداوار کی خریداری کے ذریعہ پنجاب اور ہریانہ پر غذائی تحفظ کے انحصار کو کم کیا جائے۔ ہر ریاست سے چاول اور گیہوں کی خریداری کے ہدف کے پیش نظر بنایا گیا دس سالہ منصوبہ، زیادہ پیداوار اور خریداری سے پیداشدہ غیریقینی کیفیت کو کم کرسکتا ہے۔
ہندوستانی غذاؤں پر آئی ایف پی آر آئی (International Food Policy Research Institute) کے ایک مطالعے سے معلوم ہوا کہ سماج کے غریب ترین کنبوں کو پروٹینوں سے حاصل کیلوریز ضرورت سے کم حاصل ہوتی ہیں۔ اسی لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ کاربوہائیڈریٹ سے بھرپور گیہوں اور چاول پیدا کرنے کے بجائے کسانوں کو پروٹین سے بھرپور دالیں پیدا کرنے کے لیے راحتیں مہیا کرائی جائیں نیز ترغیبات دی جائیں۔
حال ہی میں پاس ہونے والے تینوں زرعی قوانین شاید مذکورہ بالا مقاصد کی تکمیل نہ کرسکیں۔ نجی خریدار اپنی ضرورت کا گیہوں اور (عام) چاول خریدنے کے لیے پنجاب اور ہریانہ نہیں جائیں گے۔ اس کے بجائے ایسی ریاستوں سے خریدیں گے جہاں ایم ایس پی کا نظم کمزور ہوتا کہ وہ پیداوار کو بہت ہی کم داموں میں خرید سکیں۔ بدقسمتی سے Farmer's Produce Trade and Commerce (Promotion & Facilitation) Act, 2020 میں پنجاب نے جو ترمیمات کی ہیں، ان کا مقصد بس یہ ہے کہ گیہوں اور چاول کی پیداوار کا ایم ایس پی سے مربوط چلن جاری رہے۔
لہٰذا ایم ایس پی معمے کا اصل حل پروٹین سے بھرپور فصلوں کی کاشت کو مزید منافع بخش بنانے میں پوشیدہ ہے۔ اس کے لیے کسانوں کی آمدن میں براہ راست تعاون کی ضرورت ہوگی تاکہ وہ گیہوں اور دھان کی کاشت کا متبادل تلاش کرسکیں۔ اس اقدام میں اس بات کی بھی ضرورت ہوگی کہ کھلے بازار سے پروٹین سے بھرپور دالوں کو خریدنے کے لیے غریب کنبوں کی براہ راست مالی امداد کی جائے۔ آدھار کی کامیابی کے تمام تر دعوؤں کے باوجود، غریب ترین کنبوں کی شناخت ابھی تک نہیں ہوپائی اور نہ ہی اُن کے بینک کھاتوں پر توجہ مرکوز کی گئی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کووڈ-19وبا کے دوران تک میں بھی ان کے کھاتوں میں براہ راست ٹرانسفر ممکن نہ ہوسکا۔ بچوں میں پروٹین کی کمی کے اِزالے کا سب سے زیادہ مؤثر طریقہ یہ ہے کہ مڈڈے میل اسکیم کے تحت اُنہیں انڈے فراہم کیے جائیں۔ جن کنبوں میں گوشت خوری پر کوئی بند نہیں ہے، اُن کنبوں کے بچوں کو سبزی خوری پر مجبور کرنے کا کوئی جواز نظر نہیں آتا۔
(سراج حسین سبکدوش مرکزی سیکریٹری برائے زراعت ہیں ۔ سردست ICRIER میں وزیٹنگ سینئر فیلو ہیں۔
موہا پاترا مرکزی سکریٹری برائے فرٹیلائزر کی حیثیت سے سبکدوش ہوئے ہیں)
(بشکریہ: دی وائر)