نئی تعلیمی پالیسی، مولانا آزاد کے خوابوں کی تعبیر

0

فیروز بخت احمد

اگر کسی ملک کی ترقی کا اندازہ لگانا ہوتو وہ دو چیزوں پر منحصر ہوتا ہے، یعنی، تعلیم اور اسپورٹس۔ یوں تو ہندوستان کی نئی تعلیمی پالیسی امام الہند حضرت مولاناابوالکلام آزاد نے ملک و قوم کو دی تھی مگر اس میں کئی تبدیلیاں خود کانگریس کے دور میں ہی ہوئیں۔ موجودہ سرکار میں جو تعلیمی پالیسی ہم دیکھ رہے ہیں، یہ بھی کانگریس کی پرانی تعلیمی پالیسی کو درکنار کرکے بنائی گئی مگر اس میں کافی چیزیں ایسی ہیں جو بہتر ہیں اور مولانا آزاد کی خود کی بنائی تعلیمی پالیسی سے میل کھاتی ہوئی ہیں۔ اس میں دو رائے ہیں کہ آزادی کے بعد ہندوستان کی تعلیمی پالیسی بنانے والوں میں مولانا آزاد پیش پیش تھے۔ آج تک جو بھی تعلیمی پالیسی ہم دیکھ رہے ہیں، وہ تقریباً تقریباً مولانا آزاد کے بنائے ہوئے بلو پرنٹ سے میل کھاتی ہے۔
مثال کے طور پر مولانا آزاد اور کافی حد تک سردار پٹیل کا بھی یہی خیال تھا کہ اسکولی سلسلے کی تعلیم میں کافی گنجائش ہونی چاہیے اور طلبا کو اس بات کی اجازت ہونی چاہیے کہ وہ بیک وقت کوئی بھی کمبی نیشن اختیار کریں، مگر پنڈت جواہر لال نہرو نے اسکولی تعلیم کو سختی کے ساتھ تین زمروں میں تبدیل کر دیا، یعنی آرٹس جسے ہم ہیمونیٹیز کے نام سے بھی جانتے ہیں، کامرس اور سائنس۔ ان کا ماننا تھا کہ ہمیں بچوں کا ذہن شروع سے ہی ان تین لائنوں میں سے کسی ایک کو منتخب کرنے کے لیے بنانا چاہیے۔ اسے وہ اسپیشلائزشن بھی کہا کرتے تھے۔ یہ سلسلہ ہندوستان کی آزادی کے بعد سات دہائیوں تک کھینچتا رہا۔ مولانا آزاد کو اس بات پر حالانکہ تضاد تھا مگر مسئلہ یہ تھا کہ ان دنوں پنڈت نہرو کے آگے تو مہاتماگاندھی کی بھی نہیں چلتی تھی۔ مولانا آزاد اس قسم کے اسپیلائزشن سے اس لیے راضی نہ تھے کیونکہ اس کے اندر طالب علم بند ھ جاتا ہے اور اگر اسے ہیمونیٹیز، کامرس یا سائنس میں کوئی مضمون پسند نہ آئے تو بھی اسے نویں جماعت سے گیارہویں جماعت تک اور پھر جب 1979،10+2بارہویں جماعت میں شروع ہوا تو بھی تعلیمی سلسلہ ایسا ہی چلتا رہا ۔
جب کانگریس کے دور میں ، 2004میں کپل سبل وزیر تعلیم بنے تو انھوں نے تعلیمی نظام اور خاص طور سے اسکولی تعلیمی ڈھانچہ کو کافی حد تک تبدیل کردیا۔ انھوں نے اسکول میں بجائے بورڈ کے امتحانوں کے سی سی ای کی پالیسی لاگو کر دی۔چونکہ مسٹر سبل خود امریکی یونیورسٹی ہارورڈ سے تعلیم یافتہ ہیں، تو انھوں نے ہندوستان میں بھی اسی پالیسی کو اپنا لیا۔ وہ اس کو سمجھنے سے قاصر رہے کہ ہندوستانی اور امریکی تعلیمی پالیسیوں میں کافی فرق ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ان کی سوچ یہ رہی ہو کہ ہندوستان کو بھی امریکہ کے برابر لا کھڑا کیا جائے، مگر اس کے لیے ملک کو کچھ وقت درکار تھا، جو انھیں دینا چاہیے تھا۔ ہندوستانی بچے اس نئی سی سی ای پالیسی سے بالکل ہونق سے ہوگئے کیونکہ اس میں بجائے نمبروں کے گریڈنگ سے بچے کی ترقی کو آنکا جا رہا تھا۔ بورڈ کے امتحانات بھی اور خاص طور سے دسویں جماعت کے امتحانات بھی اسی نہج پر چل رہے تھے۔ بچوں کے والدین اس سے بہت مطمئن نہ تھے۔ دوسری بات یہ کہ سی سی ای نظام تعلیم میں بچوں کے اوپر ہوم ورک کا بے تحاشہ بوجھ لاد دیا گیا تھا۔ در اصل اب تک ہوتا یہ چلا آرہا تھا کہ بچوں کو بڑے بڑے پروجیکٹ بنانے کے لئے دے دیے جاتے تھے۔ ساتھ ہی ساتھ، بچوں کے گروپ بنا دیے جاتے تھے جن میں ان کو ایک خاص میعاد کے اندر ہی اس پروجیکٹ کو مکمل کرنا ہوتا تھا۔ اس سے بچوں کو کافی دشواری پیش آرہی تھی اور چونکہ یہ تمام پروجیکٹ ، دس دس نمبر کے ہوا کرتے تھے، والدین کیا کرتے تھے کہ بازار میں ان تمام پروجیکٹوں کو بنوالیا کرتے تھے۔ ایک خطیر رقم اس میں خرچ ہوتی تھی، مگر پروجیکٹ کو کوئی کالج کا طالب علم یا پروفیشنل کمپنیاں بنا دیا کرتی تھیں۔ اب اس سے یہ ہونے لگا کہ ہوشیار بچے جو کہ خود بھی یہ پروجیکٹ تیار کر سکتے تھے، انھوں نے بھی اپنے والدین کے اوپر زور ڈالنا شروع کر دیا کہ جس طرح سے دیگر بچے انھیں بازار سے بنوا لیتے ہیں، انھیں بھی یہ تیار شدہ پروجیکٹ بازار سے بنوا دیے جائیں۔ اس سے بچے کی کریئٹیوٹی متاثر ہونے لگی۔ سی سی ای، جس کو کہ کپل سبل صاحب نے اسکولی نظام میں ایک بہترین ترکیب مانا تھا، کافی حد تک پھسڈی ثابت ہوئی۔ ادھر والدین بھی اس سے کافی پریشان ہو چکے تھے۔
جہاں تک موجودہ تعلیمی پالیسی کا تعلق ہے اس میں کافی تبدیلیاں کی گئی ہیں اور اس کی گائڈ لائنس خود وزیر اعظم نریندر مودی اور اور وزیر تعلیم رمیش پوکھریال نشنک نے ہی مرتب کی ہیں اور ان کو کافی پسندیدگی کی نگاہوں سے دیکھا جارہا ہے۔ جہاں تک اردو طبقہ کا تعلق ہے، اس کا سلسلہ بھی کافی تسلی بخش ہے اور اردو والوں نے بھی اس کا خیر مقدم کیا ہے کیونکہ یہ مولانا آزاد کے خواب وخیال کی تعمیر کا ایک حصہ سمجھی جا رہی ہے۔ اس میں اسکولی سلسلے میں 10+2کو ہٹا دیا گیا ہے اور اس کی جگہ 5+3+3+4کی پالیسی کو اپنایا گیا ہے، یعنی پانچویں جماعت تک تو پری بورڈ کا سسٹم ہے، چھٹی سے آٹھویں تک مڈل تعلیم کا سسٹم ہے، نویں سے گیارہویں ہائی اسکول کا سلسلہ ہے اور اخیر میں بارہویں کے بعد تین سال تک، گریجویشن کا سسٹم لاگو کیا گیا ہے۔ اس میں ایک بڑی سہولت جو مولانا آزاد بھی اپنے تعلیمی بلو پرنٹ میں چاہتے تھے، دی گئی ہے، جو یہ ہے کہ بچہ آٹھویں جماعت سے ہی کوئی بھی کمبی نیشن لے سکتا ہے۔ پہلے تو یہ ہوا کرتا تھا کہ نویں جماعت میں ہی بچے سے کہا جاتا تھا کہ وہ آرٹس سائنس یا کامرس لیں اور اس کے بعد جب سبل صاحب نے اس سلسلے میں تبدیلی کی تو پھر گیارہویں جماعت سے بچوں کو آرڑس سائنس یا کامرس لائن اپنانے کو کہا گیا۔
آج ایسا نہیں ہے۔ آج کا بچہ کوئی بھی کمبی نیشن لے سکتا ہے، جیسے آرٹس، سائنس اور کامرس کے تمام مضامین کو وہ ایک ساتھ ہی منتخب کر اپنی تعلیم جاری رکھ سکتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر ایک بچہ چاہے تو وہ آٹھویں جماعت میں ہی فزکس، بزنس اسٹیڈیز، معاشیات، اکاؤنٹس اور تاریخ بیک وقت لے سکتا ہے۔ حالانکہ مغربی ممالک میں بھی تعلیم کا یہی سلسلہ ہے مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہندوستان نے اس کی نقل کی ہے۔ پچھلے چھ سال سے ہی اس نئی تعلیمی پالیسی کے اوپر کام ہو رہا تھا اور مختلف وزاراء کے علاوہ مختلف مضامین کے تعلیمی ایکسپرٹس نے بھی دن رات ایک کر، اس نئی تعلیمی پالیسی کو لانچ کیا۔ اب اگر طالب علم چاہے تو چھٹی جماعت میں ہی ووکیشنل تعلیم حاصل کرسکتا ہے۔
جہاں تک اعلٰی تعلیم کا تعلق ہے، اس میں بھی اس نئی تعلیمی پالیسی کے تحت یوجی سی کے تحت اور اے آئی سی ٹی ای کو تحلیل کردیا گیا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ تمام ڈگریاں اب چار سال کی ہوا کریںگی۔ یہی نہیں، تمام یونیورسٹیاں اب ایک ہی گریڈنگ کے تحت لائی جائیں گی کیونکہ پہلے یہ یونیورسٹیاں سرکاری، پرائیویٹ، اوپن، ڈیمڈ یونیورسیٹیوں کے نام سے جانی جاتی تھیں۔ ان میں، پرائیویٹ یونیورسٹیوں کو ریکگنیشن میں بڑی پریشانی آتی تھیں۔ یہی نہیں کئی تعلیمی بورڈ بھی ایسے ہوتے تھے کہ جن کو سرکار کی جانب منظوری حاصل نہیں ہوتی تھی، جیسا کہ بقول نصرت خاں کے کہ اردو ایجوکیشن بورڈ کو اب تک تسلیم نہیں کیا گیا ہے۔باوجود اس کے کہ یہ بارہویں جماعت تک اردو سکھانے کا بہترین کام کررہا ہے ، اسے منظوری نہیں ملی اور یہ بورڈ کے چکر لگا رہا ہے۔
نئی تعلیمی پالیسی کے تعلق سے تمام اساتذہ کرام کے لیے ٹریننگ بورڈ قائم کیا گیا ہے، جس کے تحت انھیں بھی تعلیم یافتہ کیا جائے تاکہ وہ بطور ایکسپرٹ، طالب علموں کو بہتر و برتر تعلیم فراہم کر سکیں، اس کے علاوہ تمام تعلیمی بورڈ یکساں اکریڈیٹیشن کے حامل ہوں گے۔ جہاں تک والدین کا تعلق ہے ان کے لیے بھی یہ ضروری ہوگا کہ وہ گھر پر ہی فری اسکول سے پہلے تین سال تک اپنے بچوں کو تعلیم فراہم کر اسکیں، جس کی ٹریننگ بھی سرکار ہی دے گی۔ ساتھی ہی ساتھ بچوں کو کسی بھی جماعت میں یہ سہولت ہوگی کہ وہ کوئی بھی اپنی پسند کا موضوع بدل سکیں۔ اس کے علاوہ جہاں تک امتحانات کا تعلق ہے، وہ سال میں دو مرتبہ لیے جائیں گے۔ جہاں تک کورس کا تعلق ہے تو اس میں اس بات کا خاص خیال رکھا گیا ہے کہ زیادہ نہ ہو اور آسان ہو۔ طلبا کو اس بات کی آسانی بھی ہوگی کہ وہ جب بھی چاہیں وہ کسی بھی نصاب میں بریک لے کر یعنی وقفہ دے کر اگر کوئی دوسرا کام کرنا چاہیں اور پھر سے اپنی پرانی تعلیم سے جڑنا چاہیں تو اس کی بھی اجازت ہوگی۔ جہاں تک گریجویشن کورس کا تعلق ہے، پہلے سال کی تکمیل پر بیسک سرٹیفکٹ دیا جائے گا، دوسرے سال کی تکمیل پر ڈپلوما اور تیسرے سال کی تکمیل پر ڈگری دی جائے گی۔ ان تمام باتوں کے اوپر ایک اتھارٹی ہوگی ۔
اردو، ہندی ، انگریزی ، فارسی ، عربی وغیرہ کے علاوہ بھی بچہ کوئی دیگر فرنگی زبان بھی سیکھ سکتا ہے۔ بیچ میں کسی نے یہ افواہ بھی اڑا دی کہ اردو ہندوستان کی منظور شدہ زبان نہیں ہے، جو کہ فاسق جھوٹ تھا اور ایک خاص طبقے کو بہکانے بھڑکانے کے لیے یہ افواہ پھیلائی گئی تھی، مگر اردو طبقہ ہر چیز کو باقاعدگی کے ساتھ سمجھتا ہے اور دنیا یہ بھی جانتی ہے کہ کوئی بھی طاقت اردو کو ہندوستان کی صفحہ ہستی سے نہیں مٹا سکتی ہے۔ اردو ، جس حال میں بھی رہے، لگاتار چلتی رہے گی، زندہ رہے گی اور پھلتی پھولتی رہے گی۔ ہندوستان میں قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان (دنیا کا سب سے بڑا سرکاری اردو ادارہ) ، اردو اکیڈمیاں، غالب اکیڈمی، اردو ایجوکیشن بورڈ وغیرہ جیسے اردو ادارے اپنی کاوشوں میں سر گرم ہیں۔
(راقم مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے چانسلر ہیں اور خانوادہ مولانا آزاد سے تعلق رکھتے ہیں)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS