حماس کے قائدین کو قتل کرنے کا کھلا اعلان

0

ڈاکٹر محمد ضیاء اللّٰہ

اسرائیل اپنے ناجائز قیام کے اول دن سے ہی ایک غیر ذمہ دار ریاست کے طور پر کام کرتا رہا ہے اور ایسا کرنا وہ اپنا بنیادی حق سمجھتا ہے اور اسی لئے عالمی اداروں تک کی باتیں ماننے سے انکار کرتا رہتا ہے۔ اس غیر ذمہ دارانہ رویہ کا اثر اسرائیل کے عام و خاص شہریوں پر بھی لازمی طور سے پڑا ہے اور پورا معاشرہ تشدد پسندی کا شکار ہوگیا ہے۔ چونکہ اسرائیل کے ہر شہری پر قانون کے مطابق اسرائیلی فوج میں اپنی خدمات پیش کرنا ضروری ہے اس لئے اسٹیٹ کا نظریہ ہی ہر شہری کا نظریہ بن چکا ہے۔ اس نظریہ کے مطابق تمام فلسطینی ان کے دشمن ہیں جنہیں زندہ رہنے اور باوقار زندگی گزارنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ فلسطینیوں کے خلاف اسی معاندانہ ذہنیت کا غماز ہے کہ جب دو روز قبل اسرائیل کی العاد نامی بستی میں رہنے والے صہیونیوں پر انیس اور بیس سالہ دو فلسطینی نوجوانوں نے حملہ کرکے تین کو موت کے گھاٹ اتار دیا اور چار کو زخمی کر دیا تو ایسا معلوم ہوا کہ پورا اسرائیل جنون اور ہسٹیریا کی عجیب کیفیت میں مبتلا ہوگیا۔ بڑے پیمانہ پر اسرائیلی فوج کو ملک کے کونہ کونہ میں پھیلا دیا گیا، مغربی پٹی میں بسنے والے فلسطینیوں کے گھروں کی تلاش شروع ہوگئی تاکہ العاد چاقو زنی واقعہ کے مبینہ ملزموں کو گرفتار کیا جا سکے۔ بات صرف سرکاری مشینری کی جانب سے کی جانے والی کارروائیوں تک محدود نہیں رہی بلکہ بے شمار شدت پسند صہیونیوں نے ہمیشہ کی طرح معصوم فلسطینیوں پر دھاوا بول دیا اور ان کے خلاف انتقامی کارروائیوں میں ملوث ہوگئے۔ العاد چاقو زنی واقعہ کا اثر اسرائیل کی نفسیات پر کتنا گہرا پڑا ہے اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم بینیٹ نے فجر کے وقت ہی اپنے وزراء کی میٹنگ بلوائی جس میں وزیر خارجہ، وزیر دفاع، داخلی امور کے وزیر، پولیس اور فوج کے سربراہان اور موساد و شاباک جیسی انٹیلجنس ایجنسیوں کے اعلیٰ ذمہ داران حاضر ہوئے اور حالات کا جائزہ لیا گیا، اس کے بعد یہ فیصلہ لیا گیا کہ غزہ اور مغربی پٹی پر پابندیوں کی مدت کو مزید بڑھا دیا جائے۔ گویا کہ گزشتہ سولہ برسوں سے فلسطینی جس کھلے جیل میں کسمپرسی کی زندگی بسر کر رہے ہیں ان پر مشکلات کے مزید دروازے کھول دیئے جائیں اور ان کے انسانی حقوق کی پامالی کا سلسلہ طویل سے طویل تر کر دیا جائے۔ اس میٹنگ کے بعد اسرائیلی وزیر اعظم نے جو بیان دیا اس میں یہ کہا کہ ’دہشت گردوں‘ اور ان کے گرد و پیش میں رہنے والوں کو گرفتار کر لیا جائے گا۔ اسرائیلیوں پر ہسٹیریا کی جو کیفیت طاری ہوئی اس کے نتیجہ میں جگہ بہ جگہ راستوں کو بند کرکے تلاشی شروع کر دی گئی، العاد کے قریب واقع بستی دیر ابو مشعل کے لوگوں نے بتایا کہ ان پر ربڑ کی گولیاں چلائی گئیں جس کی وجہ سے دو لوگوں کے سر میں گولی لگی اور انہیں راملّہ کے اسپتال میں داخل کروایا گیا۔ اسرائیلی فوج نے فلسطینی بستیوں کو بڑی بے دردی سے نشانہ بنایا اور ان کے گھروں کی کھڑکیاں اور دروازے توڑ دیئے گئے اور گاڑیوں کو نقصان پہنچایا گیا یہاں تک کہ مسجدیں بھی ان کی شرپسندی سے محفوظ نہ رہ سکیں۔ اسرائیلی پولیس، فوج اور صہیونی انتہا پسندوں کی غیر انسانی حرکتوں کے درمیان جو بات سب سے زیادہ چونکانے والی سامنے آئی وہ یہ تھی کہ اسرائیل کے اخبارات اور میڈیا میں کھلے طور پر اعلان کیا جانے لگا کہ حماس کے لیڈران کو نشانہ بناکر انہیں ختم کر دیا جائے۔ حماس کے جن لیڈران کو ختم کرنے کا باضابطہ اعلان ہوا ان میں بطور خاص غزہ میں تحریک حماس کے صدر یحی سنوار اور مغربی پٹی میں حماس کے صدر صالح عاروری سر فہرست ہیں۔ اسرائیل کے جن صہیونیوں نے حماس کے لیڈران کے قتل کا کھلا اعلان کیا ہے ان میں کوئی عام اسرائیلی شہری نہیں بلکہ سابق فوجی جنرل، ماہر تجزیہ نگار اور سیکورٹی امور کے ماہرین کے علاوہ اسرائیلی صحافی بھی شامل ہیں۔ ان صہیونیوں کا الزام ہے کہ حماس کے مذکورہ بالا لیڈران کے مبینہ اشتعال انگیز بیانات کی وجہ سے ہی فلسطینیوں نے یہ حملے کئے ہیں اور اس لئے ان کا صفایا کر دینا چاہئے۔ اپنے اس مجرمانہ اعلان کے دفاع میں بطور ثبوت اسرائیلی میڈیا نے ایک ریکارڈنگ جاری کی ہے جس کے مطابق یحییٰ سنوار نے گزشتہ ہفتہ فلسطینیوں اور اسرائیل میں بسنے والے عربوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ چھری چاقو لے کر یہودی بستیوں میں جائیں اور ان پر حملہ کریں۔ اسرائیلی اخبار ‘‘یدیعوت احرونوت’’ میں سیکورٹی امور کے ایک تجزیہ نگار کا کہنا ہے کہ العاد میں جو چاقو زنی ہوئی اس میں اور سنوار کے اشتعال انگیز بیان میں سیدھا ربط ہے اس لئے سنوار کو ختم کر دینا چاہئے خواہ اس کی خاطر اسرائیل کو غزہ میں فوجی کارروائی ہی کیوں نہ کرنی پڑے۔ اس کے بقول جب تک سنوار اور اس کے حامی العاد حملہ کی قیمت نہیں چکائیں گے تب تک اس قسم کے واقعات رونما ہوتے رہیں گے۔ذرا غور کیجئے کہ کیا اسرائیل جیسا طاقتور ملک اتنی صلاحیت بھی نہیں رکھتا کہ وہ چاقو زنی جیسے معمولی واقعہ میں ملوث افراد کو گرفتار کرے اور قانونی ڈھنگ سے اس مسئلہ کو حل کرے؟ اگر حماس کے لیڈران پر لگایا گیا الزام درست بھی ہو تب بھی کیا اسرائیل کو یہ زیب دیتا ہے کہ وہ ملزمین کو گرفتار کرنے اور قانون کے مطابق انہیں سزا دینے کے بجائے تمام فلسطینیوں کو اجتماعی عذاب میں مبتلا کردے اور ان کے نمائندوں کے قتل جیسے جرائم کے ارتکاب کے لئے ماحول سازگار کرے؟ لیکن مشکل یہ ہے کہ اسرائیل میں یہ سب کچھ ممکن ہے کیونکہ اس کا قیام ہی معصوم فلسطینیوں کے قتل اور ان کی زمینوں اور بستیوں پر غاصبانہ قبضہ کے نتیجہ میں ہوا ہے۔ اسرائیل نے سرکاری سطح پر گرچہ حماس کے لیڈران کے قتل کے سلسلہ میں اب تک کوئی بیان نہیں دیا ہے لیکن اس کا امکان ہے کہ آئندہ ان قائدین کو نشانہ بنایا جائے گا کیونکہ یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے جب حماس یا دیگر فلسطینی تنظیموں کے ممتاز لیڈران کو نشانہ بناکر انہیں ختم نہ کیا گیا ہو۔ فلسطینی لیڈران کو راستہ سے ہٹانا اسرائیل کی اسٹیٹ پالیسی بن چکا ہے جس کی سب سے بڑی قیمت خود تحریک حماس کے بانی اور روح رواں شیخ احمد یاسین 2004 میں چکا چکے ہیں۔ شیخ احمد یاسین کا قتل یہ بتلاتا ہے کہ تمام جدید اور مہلک اسلحوں سے لیس ملک اسرائیل حماس کی مزاحمت سے کس قدر خوف زدہ رہتا ہے کہ اسے حماس کے ایک ضعیف اور نابینا لیڈر کے وجود میں بھی اپنی تباہی کا سامان نظر آتا ہے۔ شیخ احمد یاسین کے بعد جب حماس کی قیادت کی ذمہ داری عبدالعزیز رنتیشی نے سنبھالی تو انہیں بھی دھوکہ سے قتل کرکے اسی مافیا ذہنیت کا ثبوت اسرائیل نے دنیا کے سامنے پیش کیا جس کے لئے وہ معروف ہے۔ حماس کے ایک دوسرے ممتاز لیڈر خالد مشعل کو بھی زہر دے کر مارنے کی کوشش اسرائیل نے کی تھی لیکن عالمی دباؤ کی وجہ سے عین وقت پر زہر کا تریاق اسے بھیجنا پڑا اور اس طرح خالد مشعل جانبر ہو سکے۔ سیاسی قتل کا معاملہ صرف حماس کے لیڈران تک محدود نہیں ہے۔ شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ پی ایل او کے قد آور لیڈر یاسر عرفات کو بھی پیرس میں زہر دے کر مارا گیا تھا۔ اب ظاہر ہے کہ یاسر عرفات کے وجود سے سوائے اسرائیل کو اور کس کو خطرہ ہو سکتا ہے؟
اسرائیل کو اس بات پر غور کرنا چاہئے کہ وہ کب تک ایک مافیا کی طرح اپنے ملک کو چلاتا رہے گا؟ کیا حماس کے لیڈران کے قتل سے فلسطین کا مسئلہ کمزور پڑجائے گا یا فلسطینی اپنے حقوق کی خاطر لڑنا اور مزاحمت کرنا چھوڑ دیں گے؟ کیا وہ اب بھی یہ سیکھ نہیں پا رہے ہیں کہ فلسطینیوں کے سامنے زندگی کے سارے دروازے بند کر دیے جانے کی وجہ سے وہ غیور قوم اب اپنی زندگی کے مقابلہ فلسطین کی آزادی جیسے کاز کو زیادہ اہمیت دیتی ہے اور وہ یہ قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہے کہ اسے ہر روز ذلت و بے بسی کے سایہ میں جینا پڑے۔ حماس کے قائدین کے قتل کا پلان تیار کرنے کے بجائے اسے اس بات کی کوشش کرنی چاہئے کہ وہ فلسطینی زمینوں اور بستیوں کو خالی کرے اور 1967 کے قبل والی لائن کے باہر جائے تاکہ ایک ماڈرن فلسطینی اسٹیٹ کے قیام کی راہ ہموار ہو سکے جس کی راجدھانی مشرقی یروشلم قرار پائے۔ اسرائیل کو ہوش کے ناخن لیتے ہوئے مسجد اقصیٰ کے ساتھ بدسلوکی کا سلسلہ بند کرنا چاہئے اور مسلمانوں کے قبلہ اول کے ساتھ بدتمیزی سے باز آنا چاہئے۔ جب تک ایک ذمہ دار اسٹیٹ کی طرح اسرائیل کام کرنا شروع نہیں کرے گا تب تک حماس یا پی ایل او کے لیڈران کے قتل سے مسئلہ حل نہیں ہوگا کیونکہ اب فلسطینی نوجوان دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں اور اپنے مقصد کے حصول میں کسی رکاوٹ کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ وہ طویل مزاحمت کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ جس امریکی تعاون پر اسرائیل کو ناز ہے اس کا چراغ بھی گل ہونے والا ہے۔ مشرق وسطی کی جو تصویر ابھر رہی ہے اس میں اسرائیل کے اندر بسنے والے یہودیوں کی باوقار زندگی کے لئے بھی سب سے مناسب یہی رہے گا کہ وہ عربوں کے ساتھ مصالحت کا راستہ ڈھونڈیں کیونکہ عداوت و شر انگیزی سے خود اسرائیلیوں کی حیات اجیرن بنی رہے گی۔ حالیہ دنوں میں اسرائیل کے اندر رہنے والے فلسطینیوں نے اب تک 18 اسرائیلیوں کو ختم کیا ہے۔ اتنی تعداد تو حماس کے راکٹ حملوں میں بھی ختم نہیں ہوتی ہے۔ کیا اس داخلی سیکورٹی چیلنج کو اسرائیل اپنے مہلک ہتھیاروں سے حل کر پائے گا؟ اسرائیل کے پرامن بقا کے لئے ایک آزاد فلسطینی اسٹیٹ کا قیام لازمی امر ہے۔
مضمون نگار سینٹر فار انڈیا ویسٹ ایشیا ڈائیلاگ کے وزیٹنگ فیلو ہیں

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS