عوام ہی ناموں کی سیاست کو ناکام بناسکتے ہیں: انجینئر خالد علیگ

0

انجینئر خالد علیگ

لوک سبھا انتخابات کے 4؍ جون کے نتائج کے بعد کچھ مبصرین کے ذہنوں میں جو خوش فہمیاں پیدا ہو گئی تھیں، ان کو بی جے پی نے غلط ثابت کرنے کی قوائد بڑے پیشہ ورانہ انداز میں شروع کر دی ہیں۔بی جے پی لیڈروں کے وہ بیانات ہوں جس میں انہوں نے صرف ان لوگوں کے کام کرنے کی بات کہی جنہوں نے بی جے پی کو ووٹ دیا تھا۔ حالانکہ بی جے پی اگر ان لوگوں کے کام کرتی جنہوں نے 2019 میں اس کو303نشستیں دلوائی تھیں تو اس کو اس صورت حال کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ نشستیں کم ہونا ہی اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ سارے لوگ بھی 2024 میں بی جے پی کے ساتھ نہیں رہے، جتنے 2019 میں تھے، اس کے بعد بنگال کے شوبھیندو ادھیکاری کا بیان آیا جس میں انہوں نے مودی حکومت کے نام نہاد ’سب کا ساتھ، سب کا وکاس‘ والے نعرے کی ہوا نکال دی، ان کے بیان کا لب و لباب بھی یہی تھا کہ جو ہمیں ووٹ نہیں دیتا، اس کا و کاس کرنے کی بات بھی ہم کیوں کریں۔ ابھی یہ سب بیانات زیربحث تھے کہ یوپی میں افسروں نے فرمان جاری کردیا کہ کانوڑیاترا کے راستے میں پڑنے والی دکانوں کے مالکان کو اپنی دکانوں پر نام کی تختی لگانی ہوگی۔ اس فرمان کو کچھ لوگ کسی خاص افسر کے دماغ کی اپج بتا کر اس کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کر ہی رہے تھے کہ یوپی حکومت نے سرکاری حکم نامہ جاری کرکے یہ واضح کر دیا کہ یہ نفرت آمیز فرمان کسی افسر کے دماغ کی اپج نہیں بلکہ حکومت کی پالیسی کا حصہ ہے، پھر اخباروں میں آسام کے وزیرا علیٰ ہیمنت بسوا سرما کا ایک بیان نظرنواز ہوا، موصوف کہہ رہے ہیں کہ 2041 تک آسام میں مسلمانوں کی اکثریت ہوجائے گی۔ یہ سارے واقعات اور بیانات بتا رہے ہیں کہ بی جے پی کے رویہ میں کسی قسم کی تبدیلی کی توقع کرنا بے وقوفوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہوگا۔ بی جے پی لیڈران کے ایک کے بعد ایک متعصبانہ و نفرت انگیز بیانات یہ اشارہ کر رہے ہیں کہ آنے والے وقت میں بھی بی جے پی پولرائزیشن کی سیاست پر ہی ڈٹی رہے گی۔ دراصل 2024 میں بی جے پی کی ہار سے کچھ لوگوں کا تاثر یہ بننے لگا تھا کہ اب ہندوتو کے نعروں کا اثر کم ہونے لگا ہے اور ہوسکتا ہے بی جے پی اپنی شدت پسند پالیسی پر نظر ثانی کرے۔ کچھ اس قسم کی خبریں بھی سیاسی گلیاروں میں گشت کرنے لگی تھیں کہ بی جے پی یوپی کے ضمنی الیکشن میں کچھ جگہوں پر مسلم امیدوار اتارنے جا رہی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ افواہیں ان بی جے پی لیڈران کو بھلا کیسے گوارا ہوتیں جن کی دکانوں پر صرف نفرتیں بیچی جاتی ہیں، ان کو خطرہ ہے کہ اگر بی جے پی اپنی راہ بدلتی ہے تو ان کا نفرت کا کاروبار ہی بند ہو جائے گا، یوں بھی سیاسی آسمان پر جو بجلیاں چمک رہی تھیں، ان کا رخ لکھنؤ کی جانب موڑنے کی کوششیں بھی لگاتار ہو رہی تھیں۔ بی جے پی یہ ماننے کو تیار نہیں تھی کہ مودی جی کی چمک کمزور پڑی ہے اور ان کا جادو کم ہونے لگا ہے بلکہ وہ اس ہار کا ٹھیکرا یوپی کی قیادت کے سر پھوڑنا چاہتی تھی۔ یوپی بی جے پی کے صدر کا استعفیٰ بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے، اسی پس منظر سے خوف زدہ بی جے پی کی ہندوتوادی طاقتیں اپنے بچے کچے پتے بھی کھیل دینا چاہتی ہیں، عین ممکن ہے کہ ان تازہ بیانوں اور فرمانوں کی پشت پر ناگپور کا ہاتھ ہو جو مودی جی کی ہار کی رسوائی سے ہندوتو کو الگ رکھنا چاہتی ہے۔ کچھ مبصرین کا خیال ہے کہ بی جے پی کو ابھی بھی اتنی سزا نہیں ملی ہے جتنی ملنی چاہیے تھی اور اب ان بیانات سے وہ کسر پوری ہو جائے گی۔ میں نے ایک دلچسپ کہانی سنی تھی جس میں باد شاہ اپنی غلط پالیسی کو نافذ کرنے کے لیے عوام کو اور بھی غلطیاں کرنے کی ترغیب دیتا ہے اور اپنی بات منوانے کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار ہو جاتا ہے۔ کہانی کچھ اس طرح تھی کہ کسی شہر میں ایک راجہ تھا جو اپنے متضاد فیصلوں کے لیے جانا جاتا تھا، ایک بار اسے خیال آیا کہ اس کی ریاست میں سیکڑوں قیدی جیل میں بند ہیں، ان کو رہا کرکے کچھ پیسہ بنایا جا سکتا ہے، اس نے فوراً ایک فرمان جاری کر دیا جس میں کہا گیا تھاکہ جس قیدی کو رہائی مطلوب ہے، وہ اپنے سارے جرائم کا اعتراف کرے اور اس کی ایک لسٹ بنا کر راجہ کے پاس جمع کرا دے، راجہ اس کا حساب کرکے قیدی پر کچھ جرمانہ لگا دے گا، قیدی وہ جرمانہ شاہی خزانہ میں جمع کرا کر رہائی پا سکے گا۔ سب نے حکم کی پابندی کی اور رہائی حاصل کرلی سواے ایک مجرم کے، اس نے جب راجہ سے رجوع کیا تو راجہ نے اس کی درخواست منگوائی جس میں اس نے اعتراف کیا تھا کہ میں نے تین قتل کیے، پانچ عورتوں کے ساتھ بد سلوکی کی، تین بار چوری کی اور چار بار ڈاکہ ڈالا۔ راجہ نے کہا کہ تم جاؤ، کچھ دن جیل سے باہر رہو، ایک قتل اور کرو، دو چوریاں اور انجام دو، تب تمہیں آزاد کر دیا جائے گا۔ مرتا کیا نہ کرتا، فرمان شاہی تھا، وہ جیل سے باہر گیا اور حکم کی تعمیل میں قتل اور چوری کر کے واپس آگیا۔ راجہ نے اس پر سات آدمیوں کا جرمانہ لگا دیا۔ مجرم نے راجہ کا شکریہ ادا کیا لیکن کہا اگر جان بخشی ہو تو ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں کہ آپ نے مجھے مزید جرم کرنے کا حکم کیوں دیا تھا؟راجہ نے جواب دیا کہ پہلے تمہاری سزا پونے سات اشرفی بن رہی تھی جس کو پورا سات کرنا ضروری تھا۔تمہیں جرمانہ جمع کرنے میں دقت نہ ہو، اس لیے مزید جرم کرنے کا حکم دیا۔ مجرم راجہ کے انصاف کا شکریہ ادا کرکے رخصت ہوگیا۔ یہاں بھی ممکن ہے کہ حزب اقتدار ٹولے کے کچھ لوگ اس آدھی ادھوری سزا سے خوش نہ ہوں ، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ کوئی دکاندار وہی سامان بیچتا ہے جس کی پبلک میں ڈیمانڈ زیادہ ہوتی ہے۔ یہ نفرتی نعرے اور فرمان تب تک جاری ہوتے رہیں گے جب تک عوام جمہوری انداز میں انہیں ماننے سے انکار نہ کر دیں۔ مسلمان دکاندار اپنے ناموں کی تختیاں لگائیں اور ہندو بھائیوں کو سستی قیمتوں پر سامان مہیاکرائیں،وہیں کانوڑیے مسلمانوں کے ناموں کو دیکھ کر دانستہ طور پر وہاں سے خریداری کریں۔ یاد رکھیے، اگر آپ نفرت کے خریدار نہ بنیں تو نفرت کی دکان چل بھی نہیں سکتی۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS