منگل 17 دسمبر 2024 کو مودی حکومت نے پارلیمنٹ کے ایوان زیریں لوک سبھا میں ’’ون نیشن-ون الیکشن‘‘ بل پیش کیا،جس کے ساتھ ہی ایوان میں زبردست ہنگامہ آرائی دیکھنے کو ملی۔ اس بل کے حق میں 269 ووٹ پڑے جبکہ مخالفت میں 198 ارکان نے ووٹ دیا۔ حمایت کرنے والوں میں حکمراں اتحاد این ڈی اے کے ساتھ کچھ غیر بی جے پی جماعتیں بھی شامل ہیں، جبکہ اپوزیشن کی 15 بڑی جماعتوں نے اس کی شدید مخالفت کی اور اس بل کو آئین کے وفاقی ڈھانچے کے خلاف قرار دیا۔
یہ بل جسے مرکزی وزیر قانون ارجن رام میگھوال نے ایوان میں پیش کیا،ملک میں ایک ہی وقت میں پارلیمانی اور ریاستی اسمبلی انتخابات کرانے کی تجویز دیتا ہے۔حکومتی موقف یہ ہے کہ اس سے انتخابی اخراجات میں نمایاں کمی ہوگی، حکومتی اداروں اور سرکاری ملازمین کو بار بار کی انتخابی مشقوں سے چھٹکارہ ملے گا اور ترقیاتی منصوبے تیز رفتاری سے مکمل ہوں گے۔
حقیقت یہ ہے کہ ون نیشن-ون الیکشن کا خواب جو حکومت دعویٰ مسیحائی کے ساتھ پارلیمنٹ میںپیش کر رہی ہے، بظاہر ’’انتخابی اصلاحات‘‘ کی ایک چمکتی ہوئی چادر میں لپٹا ہوا دکھائی دیتا ہے مگر اس چادر کے نیچے وہ کانٹے ہیں جو آئین کی وفاقی روح کو زخمی کر سکتے ہیں۔ اپوزیشن جماعتوں نے اس بل کو بجاطور پرجمہوریت کی بنیادوں پر حملہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ ہے جس کا مقصد مرکز کو بے پناہ اختیارات دینا اور ریاستوں کے حقوق کو محدود کرنا ہے۔
اپوزیشن نے حکومت پر الزام عائد کیا ہے کہ ون نیشن-ون الیکشن کا بل درحقیقت ایک سیاسی سازش ہے جس کے ذریعے بی جے پی نہ صرف اپنی انتخابی برتری کو مزید مستحکم کرنا چاہتی ہے بلکہ ریاستوں کی خود مختاری کو بھی ختم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ کانگریس کے رکن منیش تیواری نے کہا کہ یہ بل آئین کے وفاقی ڈھانچے کے خلاف ہے اور اسے منظور کرانے کا مطلب ریاستوں کے اختیارات کو کمزور کرنا ہے۔ سماج وادی پارٹی، عام آدمی پارٹی اور شیو سینا (یو بی ٹی) نے اس بل کو جمہوری اقدار پر ایک کاری ضرب قرار دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ انتخابات ریاستی حکومتوں کا بنیادی حق ہیں اور انہیں مرکز کے تابع کرنا آئینی حقوق کی خلاف ورزی ہوگی۔
ایوان میں زبردست شور شرابے اور بحث کے بعد مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے اس بل کو مشترکہ پارلیمانی کمیٹی (جے پی سی) کو بھیجنے کی تجویز دی۔ یہ فیصلہ حکومت کی جانب سے اپوزیشن کو خاموش کرانے کی ایک حکمت عملی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ امت شاہ نے کہا کہ وزیراعظم نریندر مودی کی خواہش ہے کہ یہ بل تفصیلی بحث و مباحثے کے بعد سامنے آئے تاکہ تمام خدشات دورکیے جا سکیں۔ لیکن اپوزیشن کا مؤقف ہے کہ جے پی سی حکومت کے ہاتھوں میں ایک کٹھ پتلی بن کر رہ جائے گی، جہاں اپوزیشن کی آواز دبائی جائے گی اور اسے محض ایک رسمی کارروائی تک محدود کر دیا جائے گا۔
جے پی سی کی تشکیل سے حکومت کو یہ موقع ضرور ملے گا کہ وہ بظاہر اس بل پر اتفاق رائے پیدا کرنے کا ڈھونگ کرے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ جے پی سی میں بی جے پی کی عددی برتری کے سبب اپوزیشن کی مخالفت کو نظر انداز کیا جائے گا۔ ماضی میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں جہاں جے پی سی کو محض وقت گزارنے اور اتفاق رائے کا جھوٹا تاثر دینے کیلئے استعمال کیا گیا۔ اپوزیشن جماعتیں اسے ایک غیر سنجیدہ عمل قرار دیتے ہوئے حکومت پر یہ الزام لگا رہی ہیں کہ اس کا مقصد آئندہ انتخابات میں سیاسی فائدہ حاصل کرنا ہے۔
اس بل کو آئینی ترمیم کے ذریعے نافذ کرنے کیلئے دو تہائی اکثریت درکار ہوگی، جو موجودہ پارلیمانی عددی حیثیت میں حکومت کیلئے آسان نہیں ہے۔ لوک سبھا میں بی جے پی کے پاس 240 نشستیں ہیں اور وہ اتحادی جماعتوں کی مدد سے حکومت چلا رہی ہے۔ این ڈی اے کے پاس 292 نشستیں ہیں جبکہ دو تہائی اکثریت کیلئے 362 ووٹوں کی ضرورت ہے۔ راجیہ سبھا میں بھی حکومت کو درکار اکثریت حاصل نہیں ہے اور اپوزیشن کی مخالفت اس بل کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
مودی حکومت کے اس اقدام کو سیاسی اعتبار سے ایک بڑا فیصلہ قرار دیا جا رہا ہے لیکن اس کے پیچھے کی سازش اور حکمت عملی اپوزیشن کیلئے ایک خطرے کی گھنٹی ہے۔ جے پی سی میں ہونے والی کارروائی اور اس کے بعد پارلیمنٹ میں ہونے والی بحث سے یہ واضح ہو جائے گا کہ حکومت اپوزیشن کے خدشات دور کرنے میں سنجیدہ ہے یا یہ محض ایک سیاسی کھیل کا حصہ ہے۔ یہ بل بظاہر انتخابی اصلاحات کا ایک سنگ میل دکھائی دیتا ہے، لیکن درحقیقت یہ ملک کی وفاقی سیاست اور جمہوری اقدار کیلئے ایک چیلنج ہے۔