کس کے سر پر رکھا جائے گا کانگریس کے صدر کا کانٹو ں بھرا تاج

0

شاہد زبیری

کانگریس کے صد ر کے انتخاب کیلئے محض 14دن بچے ہیں۔ 17اکتوبر کو پولنگ اور 19اکتوبر کو نئے صدر کا اعلان ہو جائے گا اگر 8اکتوبر تک کوئی ایک امیدوار اپنا پرچہ نامزدگی واپس لے لیتا ہے تو8 اکتوبر کو ہی اس بات کا فیصلہ ہو جائے گا کہ کس کے سر پر کانگریس کے صدرکا تاج رکھا جائے گا لیکن کانگریس کی موجودہ حالت میں یہ کانٹوں بھرا تاج ہو گا۔
کانگریس کا صدارتی انتخاب اب 22سال بعدہورہا ہے۔ 2000 میں آنجہانی جتیندر پرساد نے سونیا کے مقابلہ اپنی تال ٹھوکی تھی لیکن وہ سونیا کے مقابلہ میں شکست کھا گئے تھے۔ اس عرصہ میں سونیا گا ندھی کے صدر رہتے ہوئے بنا کسی انتخابی عمل کے سونیا کے نورِ چشم راہل گاندھی کو صدارت کی ذمہ داری سونپ دی گئی تھی لیکن 2019کے پارلیمانی انتخابات میںراہل گاندھی کوئی کرشمہ نہیں دکھا پائے اور مرکز میں بی جے پی اقتدار سے بے دخل نہیں ہو ئی جس کے بعد کانگریس کی باگ ڈور پھر سونیا گاندھی نے اپنے ہاتھ میں لے لی اور کار گزار صدر کی حیثیت سے وہ اب تک اس ذمہ داری کو نبھاتی آرہی ہیں لیکن کچھ ان کی عمر کا تقاضہ اور کچھ گرتی ہوئی صحت نے کانگریس کے سامنے پھر سے نئے صدر کا سوال کھڑا کردیا ہے ۔ اس درمیان G-23کے نام سے کانگریس میں سینئر لیڈروں کا ایک نیا گروپ اٹھ کھڑا ہوا جن میں غلام نبی آزاد اور کپل سبل پیش پیش تھے۔ ششی تھرور کانام بھی اس گروپ میں شامل ہے۔کہا جاتا ہے کہ کپل سبل کانگریس کے صدر ہونے کی تمنا پالے ہوئے تھے مراد برنہیں آئی تو کانگریس چھوڑ کر سماجوادی پارٹی میں چلے گئے اور غلام نبی آزاد بھی یہ خواب دیکھتے دیکھتے تھک گئے تو انہوں نے خود ہی ایک نئی پارٹی تشکیل دے ڈالی اور اس کی صدارت کا اعزاز بھی پالیا۔ دریں اثنا راہل گاندھی کو پھر سے یہ ذمہ داری نبھا نے کیلئے آمادہ کر نے کی کوشش کی گئی لیکن وہ آمادہ نہیں ہو ئے ہر چند کہ ان کے سیاسی حریفوں کی طرف سے راہل گاندھی کی ’بھارت جوڑو یاترا‘ کو لے کر کہانیاں بھی خوب گڑھی گئیں کہ راہل گاندھی یہ سا ری تگ ودو کانگریس کا صدر بنائے جانے کیلئے کر رہے ہیں لیکن رگِ گل سے بلبل کے پر باندھنے والی بات تھی جو حقیقت سے کوسوں دور تھی اس لئے کہ خود راہل گاندھی یہ گھنٹی دو بارہ اپنے گلے میں باندھنے سے صاف انکار کرچکے تھے ۔
اس تناظر میں کانگریس کے صدر کیلئے ہو نے والے انتخاب کی سرگرمیوںپر نظر ڈالیں تو اس کیلئے کے این تیواری کا پرچہ ردّ کئے جانے کے بعد اب صرف دو امیدوار میدان میں ہیں۔ ملکا ارجن کھڑگے اور ششی تھرورجن میں راست مقابلہ ہے اس سے پہلے راجستھان کے وزیر اعلیٰ اشوک گہلوت کا نام بلا مقابلہ طے مانا جا رہا تھا۔ درمیان میں کانگریس کے ایک اور بزرگ لیڈر دگ وجے سنگھ کا نام سامنے آگیا ان دو نوں بزرگ لیڈروں کو نہرو فیملی کا انتہائی قریبی اور بھروسہ مند مانا جا تا ہے۔ دگ وجے سنگھ کے ساتھ ہی ششی تھرور جو کیرالہ سے پارٹی کے ایم پی اور کانگریس کے سینئر لیڈر ہونے کے ساتھ ساتھ ملک کے ممتاز دانشور اور انگریزی کے مصنف ہیں وہ بھی دوڑ میں شامل ہو گئے۔ اشوک گہلوت کی امیدواری اس وقت کھٹائی میں پڑگئی تھی جب وزارتِ اعلیٰ کی کرسی چھوڑنے اور ان کے جانشین کا انتخاب کرنے کا مسئلہ سامنے آیا۔سچن پائلٹ اس کے دعویدار بھی اور حقدار بھی تھے کانگریس ہائی کمان کو امید تھی کہ گہلوت کے صدر منتخب ہو نے سے جہاں پارٹی کو ایک منجھا ہوا اور کانگریس کے کلچر میں ڈھلا ہوا صدر ملے گا۔راجستھان کو بھی ایک نوجوان وزیر اعلیٰ نصیب ہو گا، لیکن گہلوت سچن پائلٹ کو اپنی کرسی پر نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔ کرسی کی اس جنگ میں پہلے ہی گہلوت کو سچن چیلنج کر چکے تھے اور گہلوت کو ہٹانے کیلئے انہوں نے کچھ اسمبلی ممبران کو اپنے پالے میں کر لیا تھا ہائی کمان کے سمجھانے بجھا نے پر وہ تب نائب وزیر اعلیٰ بننے پر آمادہ ہو گئے تھے اور ان کو آئندہ وزیر اعلیٰ بنا نے کے وعدہ پر معاملہ ٹال دیا گیا تھا لیکن اب وقت آیا کہ گہلوت کی جگہ سنبھالیں اور ہائی کمان بھی اس کیلئے آمادہ تھا لیکن گہلوت کو یہ پسند نہیں تھا۔ ہائی کمان نے دو لیڈروں کا پینل راجستھان بھیجا تھا کہ وہ پارٹی کے ممبرانِ اسمبلی کا من ٹٹولیں اور اس پر اپنی رپورٹ دیں لیکن پارٹی کے زیادہ تر ممبرانِ اسمبلی پینل کے سامنے پیش ہی نہیں ہوئے اور بغاوت پر آمادہ دکھا ئی دئے یہ پہلا موقع تھا کہ ہائی کمان کے بھیجے گئے کسی پینل کے سامنے پارٹی کے ممبرانِ اسمبلی پیش نہیں ہوئے اس کا الزام گہلوت کے سرآیا کہ اس کے پیچھے گہلوت کا ہاتھ ہے کانگریس کے حالات پر درونِ خانہ نظر رکھنے والوں کی مانیں تو اشوک گہلوت نے پارٹی ہائی کمان کے سامنے اپنی وفاداری کی بہت قسمیں کھائیں اور ممبرانِ اسمبلی کی بغاوت سے اپنا پلّہ بھی جھاڑا لیکن پینل کی رپورٹ کے آگے ان کی ایک نہیں چلی اور پارٹی کو اپنے نئے صدر کا انتخاب کر نے کیلئے چارو ناچار آمادہ ہو نا پڑا، ورنہ راہل گاندھی کے انکار کے بعد صدارت کا قرعہ گہلوت کے نام ہی نکلنے والا تھا لیکن سب کچھ الٹا ہو گیا۔ اب 22سال بعد پارٹی میں باقاعدہ انتخابی عمل شروع ہو چکا ہے۔دگ وجے سنگھ پہلے ہی میدان چھوڑ کر الگ ہو گئے تھے ،کے این تیواری کا پرچہ ردّ ہو گیا اور سیدھا مقابلہ ششی تھرور اور ملکا ارجن کھڑگے کے مابین ہے کھڑگے کو پارٹی کی اکثریت کی حمایت حاصل ہے وہ کانگریس کی پالیسی ایک شخص ایک عہدہ پر عمل کرتے ہو ئے پارلیمنٹ میں اپوزیشن لیڈرکے منصب سے مستعفی ہو چکے ہیں اور ان کی جیت کا پلڑا بھی بھا ری دکھا ئی دے رہا ہے۔ کھڑگے اور تھرور دونوں جنوبی ریا ستوں کرنا ٹک اور کیرالہ سے تعلق رکھتے ہیں ۔کھڑگے کرناٹک کے پارٹی کے بڑے لیڈر مانے جاتے ہیں دلت طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں، پارلیمنٹ کے اندر اور باہر خوب گرجتے ہیں اور سونیا گاندھی کے بھروسہ مند اور نزدیک سمجھے جا تے ہیں۔ اس کا اندازہ ششی تھرور کے گزشتہ روزدئے گئے اس بیان سے بھی لگا یا جا سکتا ہے جس میں انہوں نے پارٹی کارکنان کو مخا طب کرتے ہوئے کہا کہ کانگریس کے صدر کا انتخاب کوئی لڑائی نہیں ہے ،پارٹی کارکنان کو اپنا صدر خود منتخب کرنے دیں یہ ہمارا پیغام ہے ۔تھرور نے اپنی اس بات میں یہ بامعنی جملہ بھی کہا کہ میں کہہ رہا ہوں کہ آپ اگر پارٹی کے کام سے مطمئن ہیں تو کھڑگے جی کو ووٹ دیں اگر آپ تبدیلی چاہتے ہیں تو میں حاضر ہوں ۔ششی تھرور کا یہ کہنا کہ ’اگر آپ پارٹی کے کام سے مطمئن ہیں تو کھڑگے جی کو ووٹ دیں ‘ اس کا سیدھا نشانہ سونیا گاندھی پر ہے۔ ان کے بیان سے لگتا ہے کہ کھڑگے جی کو ووٹ دینے کا مطلب سونیا گاندھی کو پھر سے منتخب کر نا ہے۔ کھڑگے تو صرف چہرہ ہیں پارٹی کی باگ ڈور سونیا گاندھی کے ہاتھ ہی میں رہے گی۔ پارٹی کے کام کاج اور پارٹی کی موجودہ حالت میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی ۔ تھرور کا حالیہ بیان ایک طرح سے نتائج سے قبل ہی ان کا اعترافِ شکست بھی ہے ۔
بہر کیف، کچھ بھی ہو ملک کے موجودہ سیاسی تناظر اور کانگریس کے اندرونی حالات سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ کانگریس کے صدر کا تاج کانٹوں بھرا تاج ہے۔ وہ جس کے بھی سر پر رکھا جائے گا اس کو عوام میں پارٹی کی ساکھ بحال کرنے اور اعتماد پیدا کرنے کے علاوہ پارٹی کی اندرونی چپقلش کا بھی سامنا کر نا پڑے گا۔ اب سوال یہ ہے کہ ملکا ارجن کھڑگے جن کی کامیابی کے امکانات کافی روشن ہیں کیا وہ نئے صدر کی حیثیت سے ہچکولے کھاتی کانگریس کی کشتی کو پار لگا پائیں گے اور پارٹی کو نہرو فیملی کی گرفت سے آزاد رکھ پائیں گے؟
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS