قومی طاقت سے ہارے گا اومیکرون

0

جس بات کا خدشہ تھا، وہ سچ ثابت ہوگئی ہے۔ کورونا کے ڈیلٹا ویریئنٹ کی رخصتی سے پہلے ہی اس کا نیا اور اب تک کے تمام ویریئنٹ میں سب سے متعدی بتایا جارہا اومیکرون ویریئنٹ ہندوستان پہنچ گیا ہے۔ اس ہفتہ جمعرات کو کرناٹک میں اس کے دو پازٹیو مریض ملے ہیں۔ جنوبی افریقہ میں اس کا پہلا معاملہ ملا تھا اور صرف10دنوں میں ہی یہ 30ممالک تک پہنچ گیا ہے۔ جتنی تیزی سے کورونا کا یہ ویریئنٹ اپنا دائرہ پھیلا رہا ہے، اتنی ہی تیزی سے اس کی دہشت پھیل رہی ہے۔ بیشک ہمارے ملک میں فی الحال افراتفری کا ماحول نظر نہیں آرہا ہو، لیکن چہارجانب تشویش ضرور ہوگئی ہے۔ ماہرین اس بات کا خدشہ ظاہر کرنے لگے ہیں کہ اومیکرون کورونا کی تیسری لہر کی وجہ بن سکتا ہے اور اس وجہ سے 40سال کی عمر پار کرچکے لوگوں کو بوسٹر ڈوز لگانے تک کی بات شروع ہوگئی ہے۔
ملک گیر تشویش کی اور بھی کئی وجوہات ہیں۔ کورونا کے خلاف ملک میں چل رہی دنیا کی سب سے بڑی ویکسی نیشن مہم بیشک روز نئے ریکارڈ بنارہی ہو لیکن اومیکرون سے تبدیل ہورہے حالات میں محض اتنا کافی نہیں ہوگا۔ ملک کی 126کروڑ آبادی کو ویکسین کا سنگل ڈوز تو لگ گیا ہے، لیکن سیکورٹی کو مضبوط کرنے والا دوسرا ڈوز ابھی تک 46کروڑ لوگوں کو ہی لگ پایا ہے یعنی ابھی بھی ہماری تقریباً60 فیصد آبادی ویکسین کے ’سرکشاکوچ‘ سے باہر ہے۔
سب سے کمزور کڑی ہمارے بچے ہیں جن کے ویکسی نیشن پر کام اور چرچہ تو بہت ہورہی ہے لیکن ویکسین کب لگنی شروع ہوگئی اس پر تصویر صاف نہیں ہوپارہی ہے۔ اس سب کے دوران ہم نے بچوں کے اسکول-کوچنگ بھی کھول دیے ہیں۔ حالاں کہ اومیکرون کی آہٹ محسوس کرکے کچھ ریاستوں نے احتیاطاً پابندیوں پر پھر سے غور کرنا شروع کردیا ہے۔ بچوں کی ٹیکہ کاری اس لیے بھی اہم ہے کیوں کہ زیادہ تر معاملات میں انفیکشن ہلکے نظر آتے ہیں جو اکثر رپورٹ کیے جانے سے بچ جاتے ہیں۔اس لیے بھی ملک میں کورونا سے متاثر ہوئے بچوں کے تعلق سے مستند اعداد و شمار سامنے نہیں آسکے ہیں۔ حالاں کہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی رپورٹ بتاتی ہے کہ 30؍دسمبر2019 سے 25؍اکتوبر 2021 تک پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کا تناسب عالمی معاملات میں 2فیصد اور عالمی اموات میں 0.1فیصد ہے۔ رپورٹ کیے گئے عالمی معاملات میں 5-14سال کے بڑے بچوں اور نوعمروں کا تناسب 7فیصد اور عالمی اموات میں 0.1فیصد ہے۔ یہ اعداد و شمار راحت دینے والے ضرور ہیں لیکن اس کے باوجود احتیاط سے سمجھوتہ مہنگا پڑسکتا ہے۔
عام شہریوں کی صحت سے وابستہ اس تشویش کے ساتھ ہی ملک کی معاشی صحت بھی موضوع بحث ہے۔ یہ سوال بھی سر اُٹھانے لگا ہے کہ کیا دوسری سہ ماہی میں جی ڈی پی میں آئی اُچھال سے معاشی شعبہ میں بن رہا مثبت ماحول اومیکرون کی نذر نہ ہوجائے۔ اس مالی سال کی دوسری سہ ماہی میں ملک کی جی ڈی پی 8.4فیصد رہی ہے جب کہ گزشتہ برس اسی مدت میں جی ڈی پی غوطہ لگاکر-7.5فیصد رہ گئی تھی۔ دوسری لہر نے ہندوستانی معیشت کو جو ضرب لگائی تھی، اس کی یادیں ابھی دھندلی نہیں ہوئی ہیں۔ عالمی عدم استحکام اور قومی لاک ڈاؤن نے وہ دن دکھائے جو ملک کی معیشت نے طویل عرصہ سے نہیں دیکھے تھے۔ گھریلو خرچ میں کمی اور بے روزگاری کے بڑھتے گراف نے مسئلہ کو مزید پیچیدہ بنادیا۔ عالمی ڈیمانڈ میں ٹھہراؤ نے ہندوستان کی ایکسپورٹ اور مینوفیکچرنگ میں اضافہ کے لیے حوصلہ افزائی کی۔ اکنامی ایمرجنسی سے نمٹنے کے لیے حکومت نے ایک طرف اکنامی فرینڈلی اسٹرٹیجی پر کام کیا اور دوسری طرف مالی چیلنجز کے باوجود اپنا خزانہ کھول کر برعکس حالات کو بھی اپنے حق میں کیا۔ گزشتہ دو سہ ماہی کی معاشری ریکوری اس کا بڑا ثبوت ہے۔ اب چیلنج اومیکرون سے نمٹنے کا ہے کیوںکہ وائرس کا یہ ویریئنٹ جتنا زیادہ پھیلے گا، اس ریکوری میں وہ اتنی ہی بڑی نقب لگائے گا۔
حالاں کہ مشکل ہورہے حالات کے دوران ملک کے عوام کے لیے مہنگائی کے محاذ پر ایک مثبت صورت حال بھی تیار ہورہی ہے۔ ویکسین کو بائی پاس کرنے کی اومیکرون کی مبینہ صلاحیت نے کچے تیل کی قیمتوں کو زمین پر لادیا ہے۔ برینٹ کچے تیل کی قیمت میں 16.4فیصد کی کمی آئی ہے، جب کہ ورلڈ ٹریڈ انڈیکس میں 20.8فیصد کی گراوٹ آئی ہے جو مارچ 2020کے بعد کی سب سے بڑی ماہانہ گراوٹ ہے۔ کچے تیل کی قیمتوں میں گراوٹ کا اثر آنے والے ہفتوں میں دیگر سبھی مصنوعات پر دیکھا جائے گا، جس سے تھوک مہنگائی میں کمی آئے گی۔ اس کا ایندھن کی قیمتوں پر بھی اثر پڑے گا جو ہمیشہ ان مصنوعات پر وسیع پیمانہ پر اثر ڈالتا ہے۔
مہنگائی ایک فیکٹر ضرور ہوسکتا ہے لیکن فی الحال شاید حکومت کی اولین ترجیح اومیکرون کو پھیلنے سے پہلے ہی شکست دینے کی رہے گی۔ اس کے لیے کوششیں بھی شروع ہوگئی ہیں۔ وزیراعظم کی جانب سے حالات کا مسلسل جائزہ لیے جانے کے بعد صحت سے لے کر غیرملکی دوروں تک عملی تبدیلیاں نظر بھی آنے لگی ہیں۔ لیکن سب سے بڑی تبدیلی کی ضرورت شاید ہمارے-آپ کے برتاؤ میں لانے کی ہے۔ کورونا کا اثر کم پڑنے پر جیسے ہی پابندیوں میں رعایت دینے کی شروعات ہوئی، ویسے ہی کورونا پروٹوکول میں ڈھیلاپن بھی شروع ہوگیا۔ نوماسک- نواینٹری، دو گز کی دوری- ابھی بھی ضروری جیسے عزائم محض نعرے بن کر ہوا ہوگئے۔ بازار پہلے کی طرح صرف کاروبار سے ہی نہیں، بھیڑ سے بھی گلزار ہوگئے۔
نتیجہ یہ ہے کہ ’دنیا گول ہے‘ کی طرز پر ہم گھوم پھر کر وہیں آگئے ہیں، جہاں دوسری لہر کی شروعات سے پہلے کھڑے تھے۔ اتنا ضرور ہے کہ اس مرتبہ ہم یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ لاپروائی کی قیمت کیا ہوسکتی ہے؟ ایسے میں پوری قوم کا عزم یہ ہونا چاہیے کہ حکومت کو سمجھانے کی رسموں میں الجھانے کے بجائے مسئلہ کو حل کرنے پر فوکس کرنے دیا جائے اور عام شہریوں کو کورونا سے نبردآزما ہونے کے لیے ماسک، سماجی دوری اور ویکسین جیسے تمام طریقوں کو قومی ذمہ داری سمجھ کر پورا کرنا چاہیے۔ اومیکرون کے پھیلاؤ کی رفتار بیشک بہت تیز ہو، لیکن اگر 130کروڑ قدم ایک ساتھ اٹھیں گے تو اس دوڑ میں اومیکرون کو پیچھے چھوڑنا مشکل بھلے ہی ہو، لیکن ناممکن نہیں ہوگا۔
(کالم نگار سہارا نیوز نیٹ ورک کے
سی ای او اور ایڈیٹر اِن چیف ہیں)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS