ایڈووکیٹ ابوبکر سباق سبحانی
اترپردیش پولیس کی اے ٹی ایس(اینٹی ٹیررزم اسکواڈ) نے اسلامک دعوہ سینٹر سے منسلک دو افراد عمرگوتم اور جہانگیر قاسمی کو ایک ہزار ہندوؤں کا غیر قانونی طریقے سے تبدیلی مذہب کے بعد اسلام مذہب قبول کروانے کے الزام میں گرفتار کرلیا ہے، اے ٹی ایس کے لکھنؤ ہیڈکوارٹر میں واقع تھانے میں ایف آئی آر درج ہوچکی ہے جس میں دھوکہ دہی، سازش، دومذہبی فرقوں کے درمیان نفرت و فساد بھڑکانے کی کوشش اور لالچ و ڈرا دھمکاکر غیرقانونی طریقہ اپنا کر مذہب تبدیل کرانے کی دفعات شامل ہیں، عدالت نے پوچھ گچھ کے لیے پولیس ریمانڈ پر بھیج دیا ہے ، وہیں دوسری طرف صوبائی حکومت نے پراپرٹی ضبط کرنے کے ساتھ ہی نیشنل سکیورٹی ایکٹ(راسوکا) اور گینگیسٹر ایکٹ کے تحت بھی کارروائی کرنے کے اشارے دے دیے ہیں، دوسری طرف غیر قانونی طریقوں سے غیرممالک سے فنڈنگ کے الزامات میں ای ڈی کی کارروائی بھی شروع ہوچکی ہے۔
اس پورے معمہ میں کئی ادارے شامل رہے ہیں جن کی کارگزاریوں نے ایک بار پھر سماج کو سوچنے اور غور کرنے پر مجبور کردیا ہے، ان اداروں میں میڈیا اور پولیس کا کردار بہت اہم رہا ہے جب کہ سماجی و مذہبی اداروں کے رول پر بھی سوال اٹھنا فطری ہے۔ یہ پورا معمہ اس وقت ہوا ہے جب اترپردیش میں اسمبلی الیکشن کا بگل بج چکا ہے، ہر سیاسی پارٹی الیکشن میں کامیابی حاصل کرنے اور اپنے حق میں ماحول تیار کرنے کے لیے کوشاں ہے، یقینا یہ معمہ ووٹوں کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش ہے۔ فرقہ وارانہ رنگ دینے میں سب سے اہم کردار میڈیا کا ہوتا ہے، اس معاملے میں جب پولیس اپنی تفتیش کے ابتدائی مراحل میں ہے، نیشنل میڈیا کی سنسی خیز اور فرقہ وارانہ خبریں کئی روز تک پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں چلتی رہیں اور پورے سماج میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کا زہر گھولتی رہیں، بیشک گرفتاری عمل میں آتے ہی میڈیا و سوشل میڈیا میں ایک ہنگامہ برپا ہوگیا، بالکل ویسا ہی ہنگامہ جو اکثر مسلم نوجوانوں کی گرفتاری کے بعد یا کچھ ہی دنوں پہلے تبلیغی جماعت کے نظام الدین دہلی میں واقع مرکز پر سرکاری یلغار کے بعد شروع ہوا تھا۔
وہیں دوسری طرف اترپردیش اے ٹی ایس کے چیف جی کے گوسوامی نے بیان دیا کہ گرفتار کیے گئے مذہبی رہنماؤں نے کئی لڑکیوں کا مذہب تبدیل کراکر ان کی شادیاں کروائی ہیں جب کہ کسی بھی لڑکی نے ایسے الزامات عمر گوتم یا اسلامک دعوہ سینٹر کے خلاف عائد نہیں کیے ہیں، ایک ہزار سے زائد افراد کو دولت، نوکری اور شادی کا لالچ دے کر مذہب تبدیل کروانے کا الزام عائد کرنے والی اترپردیش اے ٹی ایس کے پاس ابھی تک ایک بھی گواہ یا متاثر شخص نہیں ہے جو ان الزامات کی تائید کرتا ہو، صرف کانپور کی ایک فیملی کی شکایت کا تذکرہ ہوا ہے جن کے مطابق ان کے بچے کے پاس عبداللہ کے نام کا تبدیلی مذہب سرٹیفکیٹ ہے اور وہ اسی نام سے پکارنے کو کہتا ہے اور گھر والوں کے منع کرنے کے باوجود نماز پڑھتا ہے اور خود کو اسلام کا پیروکار کہتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں اسلامک دعوہ سینٹر دعوتی سرگرمیاں انجام دے رہا تھا جو دینی و قانونی مدد بھی فراہم کرتا تھا، دستور ہند کا آرٹیکل25ہر شہری کو اپنے مذہب کی دعوت و تبلیغ کی اجازت دیتا ہے۔ اسلامک دعوہ سینٹر جو کہ 2010 سے سرکاری طور پر رجسٹرڈ ادارہ تھا اور اس کی تمام سرگرمیاں میڈیا و سوشل میڈیا میں دستیاب تھیں۔ رپورٹوں کے مطابق ایسے کئی نومسلم جو1990کی دہائی یا اس کے بعد میں مسلمان ہوئے تھے اور اچھی حیثیت کے حامل بھی ہیں، انہوں نے سینٹر سے کاغذی کارروائی میں مدد لی تھی، دہلی سے کاغذات تیار ہونا آسان ہوتا ہے۔ کیونکہ بھگوا بریگیڈ کا دہلی کی عدالتوں اور سرکاری دفتروں میں ہنگامہ مچانا ممکن نہیں ہوتا ہے اور نہ ہی ان کا خوف ہے، غرض یہ بھی ممکن نہیں کہ دہلی میں کوئی ادارہ ہزاروں افراد کو لالچ دے کر مذہب تبدیل کرواسکے، لیکن اگر ایسا ہوا بھی ہوگا تو پولیس تفتیش کررہی ہے، گواہوں اور ثبوتوں کی روشنی میں چارج شیٹ داخل ہونی مطلوب ہے، تبدیلی مذہب کا سرٹیفکیٹ مجسٹریٹ جاری کرتا ہے جہاں پر متعلقہ شخص کو بذات خود حاضر ہوکر مذہب تبدیل کرنے کی توثیق کرنی ہوتی ہے، سرٹیفکیٹ پر مجسٹریٹ کے دستخط اور سرکاری مہر موجود ہوتی ہیں۔
دہائیوں کے طویل عرصے کے بعد بے قصور ثابت ہونے پر ہمارے آزاد جمہوری ملک میں معاوضے یا بازآبادکاری کی کوئی پالیسی جب تک نافذ نہیں ہوگی نیز پولیس، میڈیا اور عدلیہ کی جواب دہی طے نہیں ہوگی، اس وقت تک یوں ہی فرقہ وارانہ سیاست ہمارے ملک اور سماج میں فرقہ واریت کا بیج بوتی رہے گی اور ہر الیکشن میں اکثریتی طبقے کے ووٹوں کو یکجا کرنے کی گندی چالیں کامیاب ہوتی رہیں گی، اگر ہم سماج کو فرقہ وارانہ سیاست سے بچانے کے لیے سنجیدہ ہیں تو ہمیں ماضی سے سبق لینا ہوگا اور اچھے مستقبل کے لیے میڈیا، نظام عدلیہ اور تفتیشی اداروں کی اصلاح اور انصاف کے قیام کے لیے جدوجہد کرنی ہوگی۔
مذہبی و سماجی اداروں کی بے حسی اور مجرمانہ خاموشی بھی پریشان کن رہی، دستوری حقوق کا تحفظ ہماری کوششوں سے ہی ممکن ہوسکتا ہے، بیشک ہمارے ملک میں نظام عدلیہ موجود ہے، اگر میڈیا ٹرائل کے ذریعے سماج میں نفرت کا بیج بونے کی کوشش ہورہی ہے یا پولیس تفتیش کے متاثر ہونے کا اندیشہ ہے تو ایسے حالات میں ہماری کیا دستوری اور اخلاقی ذمہ داریاں ہوتی ہیں؟ ہم نے ایسے بہت سے مقدمات دیکھے ہیں جہاں گرفتاری اور ملک مخالف سرگرمیوں کا الزام عائد ہوتے ہی میڈیا نے عدالت سے پہلے ہی اپنا ٹرائل کرکے فیصلہ سنانے کی تمام تر کوششیں کیں تاہم پندرہ یا بیس سال کے بعد عدلیہ نے باعزت بری کردیا، عدلیہ نے پولیس اور میڈیا کی سرزنش بھی کی لیکن افسوس کہ ہم نے ان تمام ہی مقدمات اور فیصلوں سے کوئی سبق نہیں سیکھا، آج بھی ہمارے پاس مستقبل کے لیے کوئی لائحہ عمل موجود نہیں ہے۔
انصاف کا بنیادی اصول ہے کہ جرم ثابت ہونے تک بے قصور تسلیم کیا جائے گا اور الزامات کی تفتیش غیرجانبدارانہ ہوگی، دستور ہند کا آرٹیکل19اظہار خیال کی آزادی دیتا ہے لیکن یہ آزادی بھی قانون اور انصاف کے اصولوں کی پابند ہے، اگر میڈیا کی رپورٹنگ کسی کے لیے ہتک آمیز ہوتی ہے تو وہ اظہار خیال کی آزادی میں شمار نہیں کی جائے گی، تبلیغی جماعت کے سلسلے میں میڈیا کو عدالتی کارروائی کا سامنا کرنا پڑا جس کے بعد ان کو بھاری جرمانے کی سزا بھی ہوئی، اگر عمرگوتم اور اسلامک دعوہ سینٹر کو بہانہ بناکر مسلمانوں پر نشانہ سادھنے کی کوشش ہورہی ہے تو یقینا ہمارے سماجی و مذہبی اداروں کو عدالت کا رخ کرنا چاہیے، بیانات اور پرامن مظاہروں سے آپ اپنے موقف کا اظہار کرسکتے ہیں جب کہ ضرورت آپ کے عملی اقدامات کی ہے۔
نظام عدلیہ کی سست رفتاری سماج کو عدلیہ سے بدظن کررہی ہے، سپریم کورٹ نے بارہا اپنے فیصلوں میں تیزرفتار عدالتی کارروائی کو قیدیوں کا بنیادی حق قرار دیا ہے، انصاف کا بنیادی تقاضہ ہے کہ ملزم کو جرم ثابت ہونے تک جیل میں نہیں رکھا جانا چاہیے، لیکن ہماری جیلوں میں چار لاکھ سے زائد قیدی قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کررہے ہیں جن میں اکثریت زیرسماعت ملزمین کی ہے، آج تک ہمارے ملک میں فرائض سے کوتاہی برتنے پر پولیس کی جوابدہی طے نہیں ہوسکی ہے۔ دہائیوں کے طویل عرصے کے بعد بے قصور ثابت ہونے پر ہمارے آزاد جمہوری ملک میں معاوضے یا بازآبادکاری کی کوئی پالیسی جب تک نافذ نہیں ہوگی نیز پولیس، میڈیا اور عدلیہ کی جواب دہی طے نہیں ہوگی، اس وقت تک یوں ہی فرقہ وارانہ سیاست ہمارے ملک اور سماج میں فرقہ واریت کا بیج بوتی رہے گی اور ہر الیکشن میں اکثریتی طبقے کے ووٹوں کو یکجا کرنے کی گندی چالیں کامیاب ہوتی رہیں گی، اگر ہم سماج کو فرقہ وارانہ سیاست سے بچانے کے لیے سنجیدہ ہیں تو ہمیں ماضی سے سبق لینا ہوگا اور اچھے مستقبل کے لیے میڈیا، نظام عدلیہ اور تفتیشی اداروں کی اصلاح اور انصاف کے قیام کے لیے جدوجہد کرنی ہوگی۔
[email protected]